️ محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل
ظہر کی نماز کے بعد فورًا بھروچ سے روانہ ہوئے، کیوں کہ ہمیں جلد از جلد احمد آباد پہنچنا تھا اور وہاں کی لائبریری پیر محمد شاہ کی زیارت کرنی تھی۔
تقریباً دو گھنٹے سے زائد کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم احمد آباد کی مصروف ترین تنگ سڑک پر پہنچ چکے تھے۔ پتہ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ یہیں تھوڑی سی دوری پر لائبریری موجود ہے۔ بھیڑ بھاڑ والے علاقے کی وجہ سے پارکنگ کی مناسب سہولت نظر نہ آئی اس لیے ہم لوگ اتر کر پیدل چلنے لگے اور تھوڑی دیر میں لائبریری پہنچ گئے۔ یہ لائبریری مسجد کے پچھلے حصے میں مزار کی ایک جانب دو منزلہ عمارت میں واقع ہے۔ علمی اعتبار سے اس کی اپنی اہمیت ہے اس لیے اس کا نام تو کانوں میں پہلے سے پڑچکا تھا، مگر زیادہ تفصیلات معلوم نہ تھیں۔ سفر کے دوران میں کئی ایک لوگوں نے اس کی زیارت کی ترغیب اور جناب پروفیسر محی الدین صاحب سے ملاقات کا بھی مشورہ دیا تھا، اس لیے ان سے پہلے وقت لے لیا گیا تھا،مولانا منیری صاحب ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے، پھر ہم لوگ بھی پہنچ گئے۔
لائبریری میں ہمارا قافلہ تھا اور سامنے میز پر ایک شخص محو گفتگو تھا، اللہ تعالی عمر میں برکت عطا فرمائے، کہیں سے اس کی عمر نوے کے قریب نہیں لگ رہی تھی، علم کا شیدا اور تحقیق کا جویا، بلکہ بحر علم کا شناور اور میدان تحقیق کا شہ سوار۔ جب بولنے پہ آیا تو بس علمی تحقیقات کے موتی ایسے رول دیے کہ تشنگان علم کی پیاس بڑھتی گئی اور ہل من مزید کی صدا بلند ہوتی رہی۔ گجرات کی تاریخ پر تو گویا مرجعیت حاصل ہے۔ مؤرخ گجرات مولانا ابو ظفر ندوی اور ماہر تاریخ وتحقیق ز۔ ا۔ دیسائی کا شاگرد رشید۔ ایک شخص کیا ہے گویا ایک مرکز علمی اور اکیڈمی۔ یہی ہیں پروفیسر محی الدین بمبئی والا۔ جن کو قسام ازل نے علم وتحقیق کی دنیا میں پرواز کرنے کے لیے خوب شہ پر دیے اور جن کے سمند شوق نے انھیں کسی منزل پر رکنے نہ دیا اور پانچ ہزار مخطوطات کی علمی میراث کے وہ امین قرار پائے۔ تاریخ بالخصوص تاریخ گجرات کا کون سا موضوع ہے جس پر پروفیسر محترم کی گہری نظر نہ ہو۔ تنہا بیٹھ کر اکیڈمیوں کا کام کیا اور کررہے ہیں۔ کتنے ہی کیٹلاگ ہیں جو انھوں نے شائع کیے۔ علم وفن کی سبیل ہے جو مسلسل لگی ہوئی ہے اور جویائے تحقیق آکر اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، مگر جیسی قدر ہونے چاہیے ویسی نہیں ہوپائی۔ بیش قیمت کتابیں کئی ایک خستہ حالی کا شکار ہوچکیں۔ کتنے قلمی نسخے اپنے وجود پر بوسیدگی کا خطرہ منڈلاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ پھر بھی داد دیجیے پروفیسر صاحب کو کہ اس کی کاپیاں بنا کر سی ڈیز وغیرہ میں محفوظ بھی کرلیا ہے، مگر افسوس کہ تنہا ایک شخص علم وفن کے سرمایے کو سینے سے لگاکر، زمانے کے سرد وگرم کی پروا کیے بغیر علم وتحقیق کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔ علمی تحقیقات کو منظر عام پر لانے کے لیے اسے پتہ نہیں کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں! ایک ایک چیز کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں! دماغ سوزی اور جگر کاوی کے بعد پھر اس جاں گسل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے! اس کے پاس اسکیننگ کے لیے ایک مشین تک موجود نہیں! اور وہ ہے کہ ہمت ہارے بغیر، ظلمتِ شب کے شکوے کے بغیر اپنے حصے کی شمع جلاتا جاتا ہے! افسوس ہماری بے حسی پر ہے! ہائے امت کی زبوں حالی! مال و مادے کی دل دادہ اور علم وتحقیق سے نا آشنا امت! جس کی علمی فتوحات کی روشنی میں یورپ نے ہفت خواں سر کیے اور اب وہی امتِ “اقرأ” پیغامِ “اقرأ” سے بے خبر ناو نوش کی دل دادہ اور مال ومادے پر فریفتہ!
پروفیسر صاحب نے ایک گھنٹے کا وقت ہم لوگوں کو دیا تھا، مگر جب حکایت لذیذ ہو تو گفتگو دراز کیوں کر نہ ہو۔ سو گفتگو شروع ہوئی اور مسلسل چار گھنٹے ہوتی رہی۔ اس دوران میں تاریخ کے حوالے سے کئی ایک موضوعات زیر بحث آتے رہے اور ہر موضوع پر پروفیسر صاحب علم وتحقیق کے موتی رولتے رہے۔ بین السطور میں امت کی علمی بے بضاعتی اور مزاج تحقیق سے دوری پر ان کے دل کا درد بھی جھلکتا رہا۔
مولانا منیری صاحب کو تو گویا گوہر مقصود ہی مل گیا۔ ویڈیو بھی بنائی جس میں امید ہے کہ ان کی مکمل گفتگو ریکارڈ ہوگئی ہوگی اور جب وہ منظر عام پر آئے گی تو ایک خاصے کی چیز بن جائے گی اور علمی دنیا میں اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
آج کے لیے اتنا ہی۔ بقیہ باتوں کے لیے مولانا منیری صاحب کی تحریر کا انتظار کریں۔
اگلی قسط میں احمد آباد کی بقیہ روداد اور سفر کے آخری مراحل کے متعلق گفتگو ہوگی۔
فقط والسلام
محمد سمعان خلیفہ
احمد آباد
8 صفر 1443ھ مطابق 16 ستمبر 2021
جواب دیں