بیالیس سالہ طویل خون ریز جنگِ افغانستان جنگ تھوپنے والے روس اور امریکہ کو ناقابلِ یقین نقصان

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

اپنے وقت کی دونوں سپر پاور طاقتیں شکست فاش سے دوچار ہوکر بھاگنے پر مجبور

ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی

امن معاہدے کے بعد کے حالات

۲۹ فروری ۲۰۲۰ کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد کے دنوں پر نظر دوڑائی جائے تو تین خبریں بڑی اہم ہیں، جن سے ہم اس معاہدے کے جاری رہنے یا نہ رہنے کے سلسلے میں نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں، پہلا واقعہ یکم مارچ ہی کا ہے جب افغان حکومت کے صدر اشرف غنی نے میڈیا کے سامنے یہ بیان دیا کہ ہم نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے متعلق کوئی وعدہ نہیں کیا ہے، جب کہ اس معاہدے کے نکات میں قیدیوں کی رہائی کا تذکرہ واضح الفاظ میں ملتا ہے، اسی خبر کے تناظر میں خلیج آن لائن کی ۲۵جنوری ۲۰۲۰ کی خبر کو سامنے رکھنا چاہیے، جس میںتحریکِ طالبان کی طرف سے اپنے ویب سائٹ پر نشر خبر کو نقل کیا گیا ہے، طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانی صدر محمد اشرف غنی افغانستان میں مصالحت کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، اور ان کی حکومت کے پاس مسئلۂ افغان کے پر امن حل کے لیے کوئی تیاری نہیں ہے۔

دوسری خبر اناضول خبر رساں ایجنسی کی ۵ فروری کی ہے کہ طالبا ن نے افغان فوج کے خلاف تین مارچ تک ۷۶ حملے کیے ہیں جو واشنگٹن کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ جب کہ طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ قیدیوں کو رہا کرنے میں کسی بھی طرح کی تاخیر کے اثرات باقی نکات کی پابندی پر پڑے گا۔ گویا افغان فوجوں پر طالبان کی طرف سے حملے کی وجہ صدر افغان کا بیان ہے۔تیسری خبر یہ ہے کہ امریکہ نے چار مارچ کو گیارہ دنوں کے بعد فضائی حملہ کیا ہے۔

لیکن فریقین میں سے کسی کی بھی طرف سے معاہدے کو توڑنے کی بات سامنے نہیں آئی ہے، اور چار مارچ کے بعد طالبان یا امریکہ کی طرف سے حملوں کی بھی خبر نہیں ہے۔ اس لیے امید کی جارہی ہے کہ اس معاہدے کے نکات پر عمل درآمد ہوگا اور افغانستان میں امن کی بحالی کی کوششوں پر توجہ رہے گی۔
اور یہ دونوں فریق کے حق میں بہتر ہے، کیوں کہ اس جنگ کو جاری رکھنے کی صورت میں دونوں کے نقصانات میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گا اور امریکہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا؛ جانی بھی اور مالی بھی۔ یہ موجودہ تاریخ کی سب سے طویل اور خون ریز جنگ ہے، جس سے افغانستان گزر رہا ہے، تقریبا ۴۲ سالوں سے افغانستان کا علاقہ جنگوں کا شکار ہے، یہ جنگیں تین مرحلوں میں ہوئی ہیں، پہلا مرحلہ سویت یونین کے ساتھ افغانیوں کی جنگ، دوسرا مرحلہ آپسی خانہ جنگیاں، تیسرا مرحلہ طالبان کی امریکہ اور افغان حکومت کے خلاف جنگ؛ ان تینوں مراحل میں ہر فریق کو بے انتہا نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے، ہم یہاں ان ہی نقصانات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

افغان جنگ کا پہلا مرحلہ(روس کا افغانستان پر حملہ)
سویت یونین یعنی روس نے ۲۵ ڈسمبر ۱۹۷۹ میں افغانستان پر حملہ کیا تھا، جس کے اہم مقاصد یہ تھے کہ افغانستان کے فطری وسائل کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے، اس علاقے میں امریکہ کی رسائی کو روک دیا جائے، کیوں کہ امریکی یہاں پٹرول کے چشموں تک پہنچ چکے تھے، اور چین کو مغربی جانب سے گھیر دیا جائے، اسی طرح اس وقت کے سویت یونین کے ماتحت وسطی ایشیا کے علاقے میں آزادی کی کوئی تحریک کو پنپنے کا موقع نہ ملے (حالاں کہ اسی جنگ میں شکست سے دوچار ہونے کی وجہ سے سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور کئی مسلم ممالک اس کے تسلط سے آزاد ہوگئے یعنی اس کی چال الٹی پڑی)، افغانستان کی کیمونسٹ حکومت کو مدد فراہم کی جائے، اسی طرح بولنڈا میں سویت یونین کے فوجی اڈے کی کمزوری کی وجہ سے دوسری جگہ مضبوط فوجی اڈے کی ضرورت تھی، جس کے لیے افغانستان کی زمین کا انتخاب کیا گیا۔

روس کو حاصل ہونے والے نقصانات
ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اور ایک مرحلہ ایسا آیا کہ سویت یونین یہاں اپنے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تک بڑھادی، لیکن یہاں جس قوم سے واسطہ پڑا وہ ناقابلِ تسخیر قوم تھی، صرف دس سالوں میں ہی ۱۵ فروری ۱۹۸۹ میں روس کو یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا، اس جنگ میں افغان قوم کا ساتھ امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان نے دیا، روسی فوج کے بیان کے مطابق چودہ ہزار چار سو پینتیس(۱۴۴۳۵) فوجی قتل ہوئے اور ترپن ہزار(۵۳۰۰۰) سے زائد زخمی ہوئے،جب کہ روسی قبضے کے دوران اقوامِ متحدہ کی اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں جملہ مقتولین کی تعداد تیرہ لاکھ سے سترہ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے تیس لاکھ افغانی پاکستان میں اور بیس لاکھ ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، تیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اب بھی تیس لاکھ افغانی پناہ گزین پاکستان اور ایران میں ہی رہنے پر مجبور ہیں۔

روس یہاں سے نکلا تو اپنے پیچھے اس نے بارودی سرنگیں چھوڑی، ھالو ٹرسٹ انٹرنیشنل تنظیم کے مطابق افغانستان میں ۱۹۷۹ سے چھ لاکھ چالیس ہزار بارودی سرنگیں نصب کی گئی تھیں، جن میں سے اکثر بارودی سرنگیں روسی فوج کی طرف سے نصب کی گئی تھیں۔ مذکورہ تنظیم کے مطابق ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے تئیس ہزار پانچ سو (۲۳۵۰۰) افغانی مارے گئے۔
جب کہ روسی حملوں کی وجہ سے ملک کا انفرا اسٹریکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

’’جمھرۃ‘‘ عربی ویب سائٹ کے مطابق روسی فوج کے مذکورہ نقصانات کے علاوہ ۲۶۵ فوجی گمشدہ بتائے گئے، افغان مجاہدین نے ۴۵۱ فوجی ہوائی جہاز مار گرائے جن میں ۳۳۳ فوجی ہیلی کاپٹر تھے، اسی طرح ۱۴۷ ٹینک ، ۱۳۱۴ فوجی گاڑیاں اور مختلف قسم کے ۴۳۳ توپ تباہ کیے گئے۔

۱۹۸۸۔۱۹۸۹ میں افغان جنگجؤوں کو سویت یونین کی فوج کے خلاف بڑی فتوحات حاصل ہوئیں، جس کی وجہ سے سویت یونین ۱۵ فروری ۱۹۸۹ میں افغانستان سے اپنی فوج نکالنے پر مجبور ہوگیا، اس جنگ میں سویت یونین کے مارے جانے والی فوجیوں کا اندازہ چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان لگایا گیا ہے، جب کہ بہت بڑی تعداد زخمی بھی ہوئی۔اور روس کو یہاں اپنی جنگ کو جاری رکھنے کے لیے روزانہ چالیس تا پچاس ملین ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے پڑرہے تھے، جس کا روس کی اقتصادیات پر بڑا ہی بھیانک اثر پڑنا شروع ہوا۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس جنگ میں روس کو کتنا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

جنگ کا دوسرا مرحلہ (خانہ جنگیاں)
جنگ کا دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب سویت یونین کی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں اور نجیب اللہ کی حکومت جاری رہی، لیکن افغان مجاہدین ان کی حکومت پر کسی طرح راضی نہیں ہوئے، اور حکومت کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں، مجاہدین ۱۹۹۲ کو کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کی ایک عمارت میں پناہ لی۔ پھر برہان الدین ربانی عارضی صدر مقرر ہوئے۔ پھر خانہ جنگیوں کا سلسلہ اس وقت تک تھما نہیں جب تک کہ طالبان کی حکومت قائم نہیں ہوئی۔

۱۹۹۲ میں نجیب اللہ کی طرف سے حکومت سے دست بردار ہونے پر مجبور ہونے تک چالیس ہزار سے زائد افغانی خانہ جنگیوں میں مارے گئے تھے، پھر اس کے بعد کے سالوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

جنگ کا تیسرا مرحلہ
تیسرا مرحلہ طالبان اور امریکہ کے درمیان جنگ کا ہے، طالبان کی حکومت ۱۹۹۶ میں قائم ہوئی، اس دوران طالبان اور دیگر دھڑوں کے درمیان جنگیں جاری رہیں،پھرگیارہ ستمبر ۲۰۰۱ میں امریکہ پر ہونے والے فدائی حملوں کا الزام طالبان پر لگاکر امریکہ اور حلیف حکومتوں نے ۷۔اکتوبر ۲۰۰۱ میں افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں سے طالبان کو ختم کرنے کی کوشش کی، اس سے پہلے بھی ہزاروں لوگ مارے گئے، لیکن انیس سال بعد اب دونوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا ہے، جس کے جاری رکھنے کی پوری دنیا کے لوگ امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔

اس جنگ کے دوران امریکہ اور افغانیوں دونوں کو بے انتہا نقصانات برداشت کرنے پڑے، صرف آخری تین سالوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۱۷ میں ۱۹۶۹۴ لوگ قتل ہوئے تھے، جن میں افغان فوجی، طالبان کے جنگجو اور امریکی فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے، اسی طرح ۲۰۱۸ میں بیس ہزار سے زائد لوگ مارے گئے، جب کہ افغانی دھڑوں کے درمیان ہونے والی خانہ جنگیوں میں سب سے زیادہ خون ریز سال ۱۹۹۴ کو مانا جاتا ہے، جس میں بھی ۹۰۵۵ لوگ مارے گئے تھے، جب کہ ۲۰۱۹ کا سال اس سے بھی زیادہ خون ریز تھا۔

بی بی سی عربی نے ۲۹ ۔اگسٹ ۲۰۱۹ کے اپنے نشریے میں امریکی وزارتِ دفاع سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ نے اکتوبر ۲۰۰۱ سے مارچ ۲۰۱۹ تک افغاستان میں اپنی فوجی کاروائیوں پر ۷۶۰ ۔ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ لیکن براون یونیورسٹی کی تحقیق میں اس کا اندازہ ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر لگایا گیا ہے۔اسی رپورٹ میں بی بی سی نے لکھا ہے کہ اس دوران تین ہزار دو سو امریکی فوجی مارے گئے اور بیس ہزار پانچ سو زخمی ہوئے۔ جب کہ افغانی صدر نے کہا ہے کہ ۲۰۱۴ سے جب سے انھوں نے صدارتی منصب سنبھالا ہے؛ پینتالیس ہزار افغانی فوجی قتل کیے گئے ہیں۔

خلیج آن لائن نے ۱۰ ڈسمبر ۲۰۱۹ کے اپنے نشریے میں ’’جنگِ افغانستان سے متعلق امریکی قوم کو کس طرح دھوکہ دیا گیا ہے؟‘‘کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں اخبار لکھتا ہے کہ سرکاری دستاویزات نے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کو ہونے والے عظیم نقصانات کو ظاہر کیا ہے۔ ان دستاویزات کو واشنگٹن پوسٹ نے ۹ ڈسمبر بروز پیر کو نشر کیا ہے، یہ دستاویزات دوہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں، اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی ذمے داروں نے افغانستان جنگ سے متعلق رائے عامہ کو مسلسل گمراہ کیا ہے، جو جنگ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔

ان دستاویزات کی رُو سے ریٹائرڈ جنرل دوگلاس لوٹ جنھوں نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما کے عہد صدارت میں جنگی امور کی قیادت کی ہے انھوں نے کہا ہے کہ ہم یہاں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم جو کررہے ہیں اس سے متعلق ہمارے پاس ادنی سے ادنی سوچ بھی نہیں ہے‘‘۔
لوٹ نے بتایا کہ پنٹاگون کے مطابق سات لاکھ پچاس ہزار لوگوں کو ۲۰۰۱ میں امریکی حملوں کے بعد سے افغانستان میں خدمت پر مامور کیا گیا، جب کہ بیس ہزار سے زائد (امریکی) لوگ زخمی ہوئے۔
وزارتِ دفاع پنٹاگون اور وزارتِ خارجیہ کے مطابق امریکہ ۹۳۴  سے ۹۷۸ ۔ارب ڈالر اب تک خرچ کرچکا ہے، جب کہ سیاسی علوم کی پروفیسر نیتا کروفورڈ کے مطابق یہ رقم اس سے بہت زیادہ ہے۔

اخبار نے مزید لکھا ہے کہ اس میں سی اے اے یا دوسری ایجنسیوں کے اخراجات کو شامل نہیں کیا گیا ہے، اگر ان کو بھی شامل کیا جاتا ہے تو یہ رقم ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ جیفری ایگرز (بش اور اوباما کے زمانے میں وہائٹ ہاؤس کے سابق ملازم اور امریکی بحریہ کی اسپیشل فورس کے سابق فوجی) نے کہا ہے کہ ہمیں ایک ٹرلین ڈالر خرچ کرکے کیا ملا؟، انھوں نے مزید یہ بات بھی کہی کہ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد میں کہتا ہوں کہ ہم نے افغانستان میں جو رقم خرچ کی ہے اس کے بارے میں اسامہ سوچ کر اپنی قبر میں ہنس رہا ہوگا۔
افغانستان کی جنگ کی مخالفت میں بہت پہلے ہی سے امریکی ذمے داران اور میڈیا کی طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، امریکہ کی طرف سے طالبان کے امن معاہدے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے