ادیب الرحمان غزالی ندوی :انسان دوست شاعر

نیک خوئی ،خوش مزاجی ،علمی تعاون ،شریف الطبعی غزالی ندوی کی شخصیت کے وہ جوا ہرہیں جو انھیں انسانوں کی بھیڑ میں ایک الگ اور ممتاز مقام پر فائزکرت ہیں۔سب سے پہلے غزالی ندوی کا نا م اس وقت ذہن نشین ہوا جب مشہور شاعر وادیب ڈاکٹر تابش مہدی صاحب نے ندوے کے مہما ن خانے میں مجھ سے غزالی صاحب کی خیریت دریافت کی۔میں نے لا علمی کا اظہار کیا ،پھر ایسا ہونے لگا کہ ڈاکٹر صاحب جب بھی دہلی سے لکھنؤ آتے اور ان سے ملاقات ہوتی تو وہ مجھ سے ان کے بارے میں ضرور پوچھتے ، ایک دن دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ غزالی مشہور شاعر بلالی صاحب کے صاحب زادے ہیں ،چونکہ بلالی صاحب ہمارے دیار کے مشہور شاعر تھے ،میں نے ان کی آفتاب کربلا ،تحفۂ سلام وغیرہ بچپن ہی میں پڑھی تھی اس لئے ان کے صاحب زادے کا تذکرہ سن کرتجسس ہوا اور ایک دن ان سے ملنے ندوے جا پہونچا،تاکہ حضرت بلالی مرحوم کے بارے میں کچھ معلومات ہو سکے ،
سید سالار مسعود غازی کی سر زمین بہرائچ ہمیشہ سے علم و ادب کا مرکز رہی ہے ،تصوف کی اس سر زمین سے بہت سے با کمال صفحۂ ہستی پر نام ور ہوئے ہیں انھیں شخصیتوں کے جھرمٹ میں ایک حضرت بلالی کی شخصیت بھی تھی جن کا وطن نواب گنج ضلع بہرائچ ہے،ادیب الرحمان غزالی اسی مشہور شخصیت کے ہونہار سپوت ہیں ،والد بزرگوار مولانا بلالی(م۱۹۸۷)ایک معروف عالم دین اور مشہور شاعر تھے ،ان کی نظمیں زبان زد خاص و عام تھیں ، میلاد شریف کی محفلوں میں ان کی مشہور نظمیں لیلتہ المعراج ،تحفۂ سلام بڑی دھوم دھام سے پڑھی جا تی تھیں،انھوں نے تقریبا ایک درجن منظوم کتابیں اورایک نثری کتاب پل صراط نامی یادگار چھوڑی ہیں۔
غزالی صاحب کے عم محترم جناب مولاناکمالی صاحب بھی شعر و سخن کے شناور تھے ،عمدہ اشعار کہتے تھے ،نعت گوئی ان کا محبوب مشغلہ تھا ان کا ایک نعتیہ مجمو عہ نغمات کمالی کے نام سے موجود ہے ،بڑے بھائی مولا نا جلالی بھی شعر کہتے تھے ،والد صاحب ہی سے اصلاح لیتے ان کی شعری کا وشیں اور کچھ تاریخی قطعات منظوم لآ لی میں شامل ہیں۔
اسی علمی ،دینی اورشعر و سخن آشنا خانوادے میں ۳مارچ ۱۹۷۹ ؁ کو غزالی صاحب کی پیدائش ہوئی ، سایہ پدری سے بچپن میں ہی محروم ہو گئے تھے لیکن ماں کے دامن شفقت و محبت نے زمانے کی تپتی ہوئی دھوپ سے حفاظت کی ،انھیں کی سرپرستی ونگرانی میں ابتدائی تعلیم مدرسہ نور العلوم بہرائچ میں ہوئی ۔غزالی صاحب کے والد کی خواہش تھی کہ وہ انھیں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ بھیجیں اسی خواہش کی تکمیل کے لئے ابتدا انھوں نے دارالعلوم کی شاخ مدرسہ جلیلیہ فرقانیہ جرول ضلع بہرائچ میں داخلہ وہاں تین سال تعلیم حاصل کر نے کے بعد ندوۃ العلماء آگئے اور با لترتیب ۱۹۹۶میں عالمیت اور ۱۹۹۸ میں فضیلت کی تکمیل کی۔تعلیم سے فراغت کے بعد دار العلوم کی شہرہ آفاق لائبریری علامہ شبلی نعمانی میں تقرر ہوا اور اسی لائبریری میں تا حال خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
غزالی صاحب کا خاندانی پس منظر شعر وسخن کی خوشبو سے معطر ہے جس کے اثرات ان پر بھی پڑ ے ہیں اور ان کی خاندانی افتاد طبع نے جلد ہی یہ رنگ اختیار کر لیا ،مشہور استاد شاعر و ادیب جناب رئیس الشاکری ندوی صاحب سے ملاقات واصلاح نے غزالی صاحب کے اس ذوق کو مزید جلا بخشی ۔غزالی صاحب ایسے خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جس کی شہرت ہی نعت و منقبت کی عطا کردہ ہے۔انھوں نے بھی اس مستحسن روایت کی پاسداری کی ہے،حب نبوی میں سرشار یہ اشعار ان کی اندرونی کیفیت کے گواہ ہیں۔
دو دن کی زندگی کو جینا بھی کوئی جینا 
جب تک نہ ہو لبوں پر ذکر شہہ مدینہ
خوشا قسمت کھلی آنکھوں مدینہ دیکھ لیں ہم بھی 
نبی کے پاک روضہ کا اجالا دیکھ لیں ہم بھی 
غزالی صاحب نے صرف روایت کی حفاظت ہی اپنا حق نہیں سمجھا بلکہ انھوں نے نئی راہیں بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہیں ،انھوں نے میدان غزل میں بھی قدم رکھا ہے ان کا تغزل محض حکایت حسن ،داستان ہجر ووصال کا نوحہ نہیں ہے بلکہ انھوں نے سماجی کرب اور انسانی دکھوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔
پھولوں سے شکایت ہے نہ کانٹوں سے گلا ہے 
تقدیر کا لکھا کہیں کاٹے سے کٹا ہے 
خوشیوں کا پڑوسی ہے ازل سے غم کونین 
کھلتے ہیں جہاں پھول وہیں خار ملا ہے
مادیت و صارفیت کے اس دور میں جب انکی نگاہ سماج میں پھیلی افراتفری ،نفسا نفسی اور حصول زر واقتدار میں مست انسان پر پڑتی ہے جس کا مقصود ہل من مزید کے سوا کچھ نہیں۔خواہ اس سے رشتے ،ناطے ،دوست و احباب سب دور ہوتے چلے جائیں لیکن اس کی راہ میں عوائق پیدا نہ کریں،چنانچہ اپنی اس غلط روش کے باعث ایک دن وہ زندگی کے اس مقام پر جاپہونچتا ہے،جہاں تنہائیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں اور دولت وثروت کی کثرت کے باوجود محبت جیسی قیمتی دولت سے تہی دامن ہو جاتا ہے
محبت ایسے لوگوں سے نگاہیں پھیر لیتی ہے
حصول زرمیں جو اپنوں کو بیگانہ سمجھتے ہیں
بہر حال : غزالی صاحب شعر و سخن کی اس وادی میں نو آمد ہیں ،ان کی فکر وسوچ،جذبات و خیالات پاکیزہ ہیں ،زمانے کے بدلتے ہو ئے رویوں پر نظر ہے بات کہنے کا سلیقہ اور الفاظ کا قرینہ بھی موجود ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
آج بگڑی ہے اگر ان سے تو کل بن جائے گی
کیوں ڈراتے ہو غزالی کو برے انجام سے 
بھلا ہو کب کسی کا ظرف و پیمانہ سمجھتے ہیں 
جو مے کے ایک ہی پیالے کو میخانہ سمجھتے ہیں 
مشرق کے رنگ ڈھنگ غزالی ہماری شان 
مغرب جمالیوں کے پرستار ہم نہیں 
جب تک غزالی حسن میرا ہم سفر رہا 
منزل نے پاؤں چوم لئے میں جدھر گیا
ان اشعار سے میدان شعر وسخن کے اس نئے شہہ سوارکی رفتار اور سمت کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بس بات یہیں پر ختم ۔۔اس امید کہ غزالی اپنی میں لگے رہیں ،خوب سے خوب تر کی تلا ش جاری رکھیں۔

«
»

نظر کی کمزوری سے بچاؤ کے فطری طریقے

نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے