ابھی انصاف بہت دور ہے

ان دونوں معاملات نے مسلمانوں کے اس موقف کو ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدموں میں پھنسائے جانے کے الزامات درست ہیں اور اس سازش میں سیاسی حکمراں ، انٹلی جنس ایجنسیاں اور پولیس سب برابر کے شریک ہیں ۔ جب تک جھوٹی اطلاعات فراہم کرنے والے انٹلی جنس افسران کے خلاف کارروائی نہ ہوگی اور جب تک جھوٹے مقدمے قائم کرنے ، غیر قانونی طریقے سے گرفتار کرنے اور جھوٹی بر آمدگی دکھانے ، ثبوتوں اور شہادتوں کو ضایع کرنے اور حکومت اور عدالتوں کو گمراہ کرنے والے پولس والوں کے خلاف کاروائی نہ ہوگی اور جب تک سیسی حکمرانوں اور بیوروکریسی کی مسلم دشمن ذہنیت تبدیل نہ ہوگی اور سب سے بٹھ کر جب تک یرقانی دہشت گرد تنظیموں پر پابندی نہ لگے گی اور ان کے دہشت گردی میں ملوث کار کنوں کے خلاف ’’دہشت گردی مخالف قوانین ‘‘کے تحت کارروائی نہ ہوگی ، صرت حال میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہونے والی ۔ اور ان میں سے کسی مثبت خالص انصاف پر مبنی اقدام کی سر دست کوئی امید نہیں ۔ 
خالد مجاہد کو یوپی پولس اور ایس ٹی ایف نے ۱۶ دسمبر ۲۰۰۷ کو ضلع جونپور کے تھانہ مڑیاہوں کے بھرے پرے بازار سے دن دہاڑے اغواء کیا تھا ۔ چھے دن غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنے کے بعد ۲۲ دسمبر ۲۰۰۷ کو بارہ بنکی ریلوے اسٹیشن سے طارق قاسمی کے ساتھ اس کی با ضابطہ گرفتاری دکھائی گئی اور اس کے پاس سے مہلک آتشیں ہتھیار ، بھاری مقدار میں غیر قانونی دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی بھی دکھائی گئی ۔ چھے سال بعد ۱۸ مئی ۲۰۱۳ کو عدالت سے واپس جیل لے جاتے ہوئے پولس وین میں خالد مجاہد کی موت ہوگئی ۔ ظاہر ہے کہ یہ ’زیر حراست ٹارچر ‘کا معاملہ تھا ۔
مقتول کے چچا ظہیر عالم فلاحی نے بارہ بنکی کوتوالی میں پولس کے پانط اعلیٰ افسروں کے خلاف نامزد رپورٹ درج کراتے ہوئے اس کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا تھا لیکن تفتیش کرنے والے پولس افسر نے نامزد افسران سے کویہ پوچھ گچھ کیے بغیر ۱۲ جون ۲۰۱۴ کو فائنل رپورٹ لگا دی ۔ بدھ ۵ نومبر ۲۰۱۴ کو چیف جو ڈیشیل مجسٹریٹ بارہ بنکی نے اسی نام نہاد فائنل رپورٹ کو نا قابل قبول قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا ہے اور پولس کو ہدایت کی ہے کہ نئے سرے سے اس کیس کی تفتیش کی جائے اور ان تمام فروگزاشتوں کی تلافی کی جائے جو اب تک ہو چکی ہیں ۔ 
خالد مجاہد اور طارق قاسمی کو پولس نے نومبر ۲۰۰۷ میں لکھنؤ اور فیضآباد کی کچہریوں میں ہوئے بم دھماکوں کے الزامات میں گرفتار کیا تھا ۔ اس وقت کی مایاوتی سرکار نے ان فرضی گرفتاریوں کے خلاف ہونے والے شدید ردعمل پر قابو پانے کے لیے جسٹس نمیش کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کر دیا تھا ۔ جس نے پانچ سال بعد ۳۱ اگست ۲۰۱۲ کو اپنی رپورٹ سماجوادی وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کی حکومت سونپ دی لیکن حسب دستوراسے عام نہیں کیا گیا ۔ 
رہائی منچ نام کی ایک این جی او نے خالد مجاہد کے زیر حراست قتل کے بعد مئی ۲۰۱۳ میں نمیش کمیشن رپورٹ کو عام کرنے کے لیے لکھنؤاسمبلی کے سامنے دھرنا شروع کیا سال بھر سے زیادہ جاری رہا اور با لآخر اکھلیش حکومت کو مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرنے پر مجبو ر ہونا پڑا ۔ جسٹس نمیش نے سبھی ملزمین کو بے قصور قرار دیتے ہوے ان کے پاس سے دکھائی گئی برآمدگیوں فرضی قرار دیا تھا اور متعلقہ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی ۔ 
نظام حاضر کی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ رپورٹ اس وقت منظر عام پر لائی گئی جب ان میں سے ایک بے گناہ ملزم خالد مجاہد کی زیر حراست موت ہو چکی تھی لیکن اکھلیش سرکار نے جو خود کو مسلم دوست بتاتی ہے اور سنگھ پریوار کی فرقہ پرست سیاست پر تنقید کرنے میں سب سے آگے رہتی ہے ، نہ صرف یہ کہ اس عدالتی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر دوسرے ملزم طارق قاسمی کو رہا نہیں کیا بلکہ خالد مجاہد کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لیے بھی ابھی تک کسی ٹھوس کارروائی کا عملی ثبوت نہیں دیا ہے ۔ زبانی دعوے البتہ بہت ہیں ۔ 
حقیقت یہی ہے کہ حکومت کانگریس کی ہو یا بی ایس پی کی ، سماجوادی کی ہو یا بی جے پی کی ، مسلمانوں کے لیے سب برابر ہیں ۔ بے گناہ شہریوں کی حفاظت کی فکر کسی کو نہیں ، فرقہ پرست اور بد عنوان بیورو کریسی ، مجرم انٹلیجنس اور جرائم پیشہ پولس کا تحفظ کرنے میں سب ایک دوسرے سے آگے رہنے کی ہوڑ میں رہتے ہیں ۔ 
ظاہر ہے کہ جب سپریم کورٹ سے اکشر دھام مندر حملہ کیس میں گرفتار سبھی ملزمین کے با عزت بری ہونے (۱۶ مئی ۲۰۱۴ ) کے بعد حالات میں کسی بڑی اور نمایاں مثبت تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے تو بدھ ۴ نومبر ۲۰۱۴ کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ بارہ بنکی کا فیصلہ تو بہت ہی ابتدائی نوعیت کا ہے ۔ ابھی تو انصاف بہت بہت دور ہے ! 

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے