اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

حتی کہ مسلم نوجوان لڑکیوں اور خواتین میں شام میں بھی اس سے وابستگی کا رجحان روز بروز بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ان خواتین کے ایسے انتہا پسندانہ فیصلوں میں مہم جوئی سے زیادہ اپنے معاشرہ کیخلاف احتجاج کے اظہار کا عمل دخل ہوتا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق15 سے 17 سال کے درمیان کی عمر کی 3 امریکی لڑکیاں جرمنی کے راستہ شام پہنچ کر وہاں جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کیلئے قریب نصف مسافت طے کر چکی تھیں؛یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ ویک اینڈ پر انہیں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پولیس نے انھیں روک لیا۔ انہیں فوری طور پر واپس امریکہ بھیج دیا گیا تاہم شمالی امریکہ اور یوروپ سے تعلق رکھنے والی دیگر کئی لڑکیاں اب تک شام پہنچ چکی ہیں۔ تاہم اس سنی انتہا پسند گروپ میں شامل ہونے والے ہزاروں رضاکاروں میں خواتین کی تعداد نسبتاً کم ہے۔
کیوں کیا مین اسٹریم سے الگ؟
لندن کے کنگز کالج سے وابستہ دہشت گردی سے متعلقہ امور کی ماہر کیتھرین براو ن کے اندازہ کے مطابق شام میں اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد قریبہے، جن کا تعلق یوروپ سے ہے اور وہ شام جا کر وہاں جاری خانہ جنگی کا حصہ بن گئی ہیں جبکہ اسلامک اسٹیٹ کو ایک خیالی سیاسی دنیاکہنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جس میں حکمرانوں کومثالی شخصیات بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔دوسری جانب براو ن کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان خواتین میں اسلامک اسٹیٹ کی طرف جھکاو کی ایک بڑی وجہ یوروپ میں اسلام سے متعلق ہونے والے تنقیدی سیاسی مباحثے بھی ہیں۔ ان مباحثوں کی وجہ سے یوروپ میں آباد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد خود کو معاشرہ کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کر دی گئی یا امتیازی سلوک کا شکار محسوس کرتی ہے۔برطانوی ماہر کیتھرین براو ن کے بقول بہت سے مرد اور خواتین اجنبی ممالک میں جا کر وہاں کی تسخیر میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے صورتحال 75 سال قبل اسپین میں ہونے والی خانہ جنگی سے ملتی جلتی ہے۔ چند مسلم خواتین تو خلافت میں فعال ہونے کی خواہش بھی رکھتی ہیں۔یہ عورتیں کسی نئی چیز کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ ملک و قوم کی ماں کی حیثیت سے بھی اور جنگجوو ں کی بیویوں کی شکل میں بھی۔جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں تحفظ آئین کے ملکی ادارے کی علاقائی شاخ کے سربراہ ب رک ہارڈ فرائیر کاتخمینہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کیلئے محض اس ایک جرمن صوبے سے شام کا سفر کرنے والی خواتین کی تعداد 25 ہے جبکہ یہ خواتین بہت کم عمر ہیں۔ مردوں سے کہیں زیادہ نوعمرہیں۔ ان تقریباً سبھی خواتین اور لڑکیوں کا تعلق تارکین وطن کے خاندانوں سے ہے۔ ان میں سے بہت کم خواتین نو مسلم ہیں۔ ان نوجوان عورتوں اور اسلامک اسٹیٹ کی صفوں میں شامل ہونے والے مردوں کا ایک بڑا مسئلہ باطل طاقتوں سے تحفظ اورصالح اقدار سے تعلق، شناخت اور واقفیت حاصل کرنا ہے جس کی تلاش انہیں اس راہ پر گامزن کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرہ یا نظام کیخلاف احتجاج اور خود کو اپنی فیملی سے الگ تھلگ کر دینے کی خواہش کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ بہت سی نوجوان لڑکیاں مسقبل میں شہید کی حیثیت سے شجاعت و بہادری کی علامت قرار دئے جانے والے مردوں کی بیویاں بننے کے جذبہ سے سرشار ہوتی ہیں۔ اس سارے عمل میں انٹرنیٹ اور آن لائن سوشل نیٹ ورکنگ غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں۔

شہادت نہیں جاتی ہے رائیگاں:
گذشتہ ہفتہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سنسی خیز انکشاف کیا ہے کہ شیعہ ملیشیا نے عراق میں حالیہ مہینوں کے دوران سینکڑوں سنی شہریوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا ۔ یہ قتل بظاہر دولت اسلامیہ کے حملوں کیخلاف انتقامی کارروائی نظر آتی ہے جبکہ ان شیعہ ملیشیا کو عراقی حکومت نے مسلح کیا ہے اور انھیں ان کی حمایت حاصل ہے اور وہ سزا کے خوف کے بغیر آزادی سے کارروائیاں کرتے رہے۔مزید یہ کہ گذشتہ ماہ برسراقتدار آنے والے وزیر اعظم حیدر العبادی نے ماضی میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کوبھی تسلیم کیا ہے اور انھوں نے تمام عراقیوں کی جانب سے حکومت کرنے کا عہد کیا ہے۔وزیر اعظم موصوف نے ایمنسٹی کی رپورٹ پریوں تو براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن دولت اسلامیہ کیخلاف زہرفشانی کرنے سے بھی نہیں چوکے تاہم انھوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ عراقی عوام اور بطور خاص سنیوں کی جانب سے جائز شکایتوں کا ازالہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ایمنسٹی کی یہ رپورٹ اگست اور ستمبر میں عراقیوں سے لئے جانے والے انٹرویو اور بات چیت پر مبنی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ بغداد، سمارا اور کرکوک میں مسلک کی بنیاد پر ملیشیا کے جنگجوو ں نے حملے کیے جبکہ اس میں کہا گیا ہے سینکڑوں نامعلوم لاشیں ملی ہیں، ان میں سے بعض کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے سر پر گولی لگی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں سزائے موت دینے کے طرز پر قتل کیا گیا ہے۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بغداد کے شمال میں واقع سنی اکثریتی شہر سمارا سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق جون سے اب تک وہاں سے 170 سنیوں کو اغوا کیا گیا جبکہ6 جون کو ایک ہی دن میں 30 سے زیادہ افراد کو ان کے گھروں اور آس پاس سے اغوا کر لیا گیا اور پھر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ان کی لاشوں کو ادھر ادھر پھینک دیا گیا۔

امریکی مغوی اب پکا مسلمان
پیٹر کیسگ نامی امدادی کارکن جنھیں دولت اسلامیہ نے اغوا کر لیا تھا، قید کے دورا ن پکے سچے مسلمان ہو چکے ہیں۔ پیٹر نے اپنا نام تبدیل کر لیا ہے اور وہ اب عبدالرحمان کیسگ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔پیٹر کیسگ کیساتھ قید میں رکھے جانے والے ایک قیدی کا کہنا ہے کہ وہ 26 سالہ عبدالرحمان کیسگ کو ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ پہلی مرتبہ شام اور ترکی کی درمیانی سرحد پر ملے تھے اور دونوں نے امدادی کام کا آغاز کیا ۔ کیسگ کبھی بھی دنیا دار شخص نہیں تھے کیونکہ وہ کھل کے بات کرتے تھے، دیانت دار تھے، قدرے جذباتی تھے، عام لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتے اور بہت جلد ہی مزاحمت کاروں کے بہکاوے میں آ جاتے تھے:اسی لئے بعد میں جب میں نے اس کے والدین کو یہ کہتے سنا کہ ان کا بیٹا اس دنیا میں اپنے مقام کی تلاش میں تھا تو سچ پوچھیں مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔اس طرح پیٹر کیسگ کو جس چیز کی تلاش تھی وہ انھیں مل گئی اور انھوں نے شام سے تعلق رکھنے والے طبی اہلکاروں کو تربیت دینا شروع کر دی۔ ان کی تربیت کی بدولت شاید کئی لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے۔بظاہران کا کام آسان نہیں تھا بلکہ وہ ہر وقت گولیوں، بموں، فضائی حملوں اور اغوا کئے جانے کے خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ جب ڈاکٹر انس آخری مرتبہ کیسگ سے ملے تو انھوں نے پوچھاکہ پیٹر، تمھیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا، تو اس کا جواب تھا کہ تم سب کی زندگیوں کے مقابلہ میں میری زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔عبدالرحمان کو گذشتہ برس اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ شمالی شام کے قصبے دیار ازور جا رہے تھے۔ ان کو اغوا کرنے والے گروہ دولت اسلامیہ کا کہنا تھا کہ موت کے گھاٹ اتارے جانے والے اگلے مغربی مغوی عبدالرحمان ہی ہوں گے۔فرانسیسی صحافی نکولس ہینن اغوا کئے جانے کے 4ماہ بعد تک عبدالرحمان کیساتھ ایک ہی کمرے میں قید رہے۔ بعد میں نکولس ہینن کو باقی فرانسیسی مغویوں کیساتھ رہا کر دیا گیا ۔عبدالرحمان بھی شروع شروع میں باقی مغویوں کی طرح پریشان ہو گئے تھے اور قید نے اس پر بھی خاصے اثرات مرتب کئے تھے۔

کیسے قبول کیا اسلام؟
نکولس نے انکشاف کیا ہے کہ تمام مغوی کس طرح بھوک، اکتاہٹ اور دہشت کا نشانہ بن رہے تھے۔ہمارا معمول یہی تھا کہ ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی چکر میں ہوتا تھا کہ کہیں سے اسے مارملیڈ مل جائے۔اپنے اغوا کے بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا اور عبدالرحمان کہلانے لگا۔پیٹر نے مجھے بتایا کہ اسلام اس کیلئے کتنا اہم ہے اور اسے قید سے نمٹنے میں اسلام کتنی مدد کر رہا ہے۔ وہ بہت پکا مسلمان ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ پیٹر قدرے پریشان تو ہے، لیکن اسلام اسے طاقت بخش رہا ہے۔عبدالرحمان واحد مغربی مغوی نہیں تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہمارے گروپ میں چند اور لوگ بھی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے۔ یہ لوگ پانچ وقت کے نمازی تھے، بلکہ بسا اوقات یہ لوگ دو اضافی نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ یہ لوگ پیر اور جمعرات کو روزہ بھی رکھتے تھے جو کہ فرض نہیں بلکہ اضافی ہے، جیسے، پکے مسلمان۔یہ جانتے ہوئے کہ قید میں اکثر لوگ اس قسم کی حرکت کرتے ہیں جس میں وہ اپنے اغوا کاروں کو خوش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انھیں اغوا کاروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے، میں نے نکولس سے کہا: مجھے لگتا ہے کہ ہم اسٹاک ہوم سنڈروم کی بات کر رہے ہیں۔نکولس کا جواب بالکل الٹ تھاکہ ہمیں اغوا کرنے والوں کو نفسیات کا تو کچھ زیادہ پتہ نہیں تھا، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ ہمیں سٹاک ہوم سنڈروم میں بالکل مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ انھوں نے اس سے بچاو  کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔نکولس اپنے اس جواب سے دراصل اس تشدد کی جانب اشارہ کر رہے تھے جس کا نشانہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اپنے مغویوں کو بناتے ہیں۔کچھ پہرے دار ہم میں سے ان لوگوں کی زیادہ عزت کرتے تھے جو مسلمان ہو چکے تھے، لیکن باقی اغواکاروں کی نظر میں مسلمان یا غیر مسلمان کا کوئی لحاظ نہیں تھا۔میں نے نکولس سے پوچھا کہ انھوں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں برطانوی مغوی ایلن ہیننگ کو قتل کرتے دکھایا گیا اورعبدالرحمان کیسگ کو بھی قتل کئے جانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔یہ میرے لئے نہایت ہی کربناک تجربہ تھا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اِن ویڈیوز میں مجھے بھی قتل ہوتے دکھایا جا سکتا تھا۔
عقیدہ اور اعمال:
واضح رہے کہ عبدالرحمان قید سے اپنے گھر والوں تک ایک خط پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس خط میں ان کا کہا کہ جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو ہر روز نماز پڑھتا ہوں اور اس سے لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔اگرچہ عقیدہ کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔عبدالرحمان کے والدین اپنے بیٹے کے ان الفاظ سے یہی مطلب لیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے۔
والدین کی شدید خواہش ہے کہ ان کے بیٹے کا مذہب اس کی جان بچانے کا سبب بن جائے۔ان کی یہ خواہش بالکل بے جا نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کو اغوا کرنا اور پیٹر کسیج سے عبدالرحمان کسیج بن جانا اس کے کام آ جائے لیکن مجھے یقین ہے کہ انھیں اس دردناک حقیقت کا بھی علم ہے کہ دولتِ اسلامیہ صرف غیر مسلموں کو ہی نہیں مارتی، بلکہ اس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والوں کی اکثریت مسلمان ہی تھی۔
تحریک طالبان کی مدد :
کالعدم پاکستانی شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے عراق اور شام میں برسر پیکار دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی مدد اور حمایت کا اعلان کیا ہے۔عید کے موقع پر تنظیم کے سربراہ ملا فضل اللہ نے ایک بیان کے ذریعہ عالمی کفری اتحادکیخلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اس وقت عراق اور شام کے قابل ذکر حصے پر قابض ہیں جبکہ پاکستانی طالبان ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے ملک میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔تنظیم کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سےجاری کئے گئے بیان میں فضل اللہ نے شام اور عراق میں لڑائی میں مصروف شدت پسندوں کو اپنا بھائی  قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں وحدت پیدا کریں اور آپسی اختلافات بھلا کر عالمی کفری اتحاد کیخلاف پوری قوت سے محاذ آرا ہو جائیں۔بیان میں پہلی مرتبہ اپنے نام کیساتھ خراسانی کا لاحقہ استعمال کرتے ہوئے فضل اللہ نے ان شدت پسندوں کو حتی المقدور مدد کا یقین بھی دلایا ۔بیان میں ملا فضل اللہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو دیواربرلن سے تشبیہ دی ہے جس نے پختون مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہوا ہے۔انہوں نے اس موقع پر خالص اسلامی نظام اور خلافت کے قیام تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان بھی دہرایا اور بقول ان کے لوگوں کو پریشان کرنے کیلئے ان کے بارے میں پروپیگنڈا کرنے والی پاکستانی حکومت اور میڈیا کیخلاف بھی لڑنے کا اعلان کیا ہے۔یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جو تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے مہمند ایجنسی کے شدت پسندوں کے رہنما عمر خالد خراسانی نے بھی ہفتہ کے روز جاری بیان میں عراق و شام کے عسکریت پسندوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے عسکریت پسند بھی عراق و شام کی صورتحال میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
اوباتباہ کن ناکامی کے دہانے پر:
سی این این نے صدر باراک اوباما کے کئی قریبی سرکردہ اہلکاروں کا نام ظاہر کئے بغیر ان کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی شام کے علاقہ کوبانی پر داعش کا قبضہ یقینی نظر آ رہا ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ نے اس علاقہ کے تیسرے شہر کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا جبکہ امریکی حکومت کے خیال میں کوبانی کو آئی ایس کے قبضہ سے بچانا اب مزید ممکن نہیں رہا ہے۔ اگر درحقیقت یہی صورتحال ہے تو کیا اس سے واشنگٹن حکومت کی اس علاقہ پر فضائی حملوں کی حکمت عملی کی ناکامی کی نشاندہی ہوتی ہے؟ اس بارے میں خود سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی باراک اوباما پر ڈھکی چھپی تنقید کر چکے ہیں۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے صدر باراک اوباما کے کئی قریبی سرکردہ اہلکاروں کا نام ظاہر کئے بغیر ان کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے داعش کے غلبہ کا اعتراف کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کے جنرل مارٹن ڈمپسی امریکی ٹیلی ویژن چینل اے بی سی کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انہیں کوبانی کے سقوط کا خطرہواضح ہے۔اخبار واشنگٹن پوسٹ اب تک سخت اور واضح الفاظ میں کہتا رہا ہے کہ امریکہ ایک تباہ کن شکست کے دہانے پر کھڑا ہے ایک ایسی جنگ میں جسے اوباما نے غیر ضروری احتیاط، پابندیوں اور خود کو حد سے زیادہ محدود رکھتے ہوئے شروع کی تھی۔واشنگٹن کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک ہیریٹیج فاو نڈیشن سے تعلق رکھنے والے امور مشرق وسطیٰ کے ایک ماہر جم فلپس کے بقول کوبانی سے متعلق اوباما کی حکمت عملی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے تاہم آیا امریکی فضائی حملوں میں تیزی کے بعد اس کے واضح اثرات مرتب ہوں گے، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے