اَعمال کی اصلاح اور نیتوں کے اخلاص کا اِس سے زیادہ ساز گار موسم کوئی نہیں ہوسکتا، یہ اِسی مہینے کا خاصہ ہے کہ اس میں خیر وفلاح کے تمام ابواب واہوجاتے او ر شر و فساد کے تمام دَروں کو مقفل کردیا جاتا ہے، نیک اعمال کے اجروثواب میں بے پایاں اضافہ کردیا جاتا او ربارگاہِ رب العالمین سے ہر لمحہ غفران و رضامندی کا عام اعلان ہوتا رہتا ہے ، جو صالحین میں مزید طاعت وعبادت کا جذبہ پیدا کرتا اور شرپسندوں میں انابت الی اللہ کی خوپیدا کرتا ہے؛ چنانچہ اس مہینے میں مسجدیں بہ کثرت معمور رہتیں، اکثر وبیشتر لوگ تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے او رزیادہ سے زیادہ امورِ خیر کی انجام دہی میں اپنی بخت آوری سمجھتے ہیں ، یہ ایک ایسا مہینہ ہے ،جس میں ایک فرض عبادت کا ثواب ستر(۷۰)فرضوں کے برابر اورنوافل کا ثواب فرائض کے برابرملتا ہے،جس مہینے میں روزہ جیسی عبادت فرض کی گئی ہے،تاکہ ہمارے اندر تقویٰ شعاری کاوصف پیدا ہوجائے(البقرہ:۱۸۳)،جس مہینے میں تراویح کی سنت مشروع کی گئی،تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا تقرب حاصل کر سکیں،جس مہینے میں اعتکاف مسنون کیا گیا، کہ اگر کوئی اُسے انجام دیتا ہے،تووہ حج اور عمرہ کے ثواب سے مستفیض ہوتا ہے،جس مہینے میں ایک رات اپنی عظمتوں،فضیلتوں اور اجر و ثواب کے اعتبارسے ہزار راتوں سے بہتر ہے؛ الغرض بے شمارفضائل اور عظمتوں کا والامہینہ رمضان المبارک ہمارے اوپر سایہ فگن ہوچکاہے۔اب یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس مہینے کااحترام کریں، اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں،اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام کو بجالانے کی کوشش کریں،گناہوں سے احتراز و احتیاط برتیں،فرائض کی پابندی اور نوافل کا اہتمام کریں۔اللہ تبارک و تعالیٰ تو اِس مہینے کے آغاز سے ہی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول چکاہے،دس دنوں بعداس کی مغفرتِ عامہ کے دروازے بھی کھول دیے جائیں گے اورآخری دس دنوں میں جہنم سے خلاصی کا عام اعلان بھی کیاجائے گا، مگردیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اپنے آپ کواللہ تعالیٰ کی ان بے پناہ عنایات کا مستحق بناپاتے ہیں؟اللہ تعالیٰ تو ہمہ وقت بندے کی مغفرت اوراس پراپنی رحمت کی برسات کرنے کے لیے تیار ہے،اسے تو بس معمولی سا بہانہ چاہیے اور وہ بہانہ ہمیں پیداکرنا ہوگا، اللہ نے اپنے محبوب نبی محمدﷺکی زبانی یہ عام اعلان کررکھاہے کہ :’’(اے پیغمبر! میری طرف سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(الزمر: ۵۳) اورایک حدیثِ پاک میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ فرمایاکرتے تھے:’’ پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک، (اسی طرح) ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے لیے کفارہ ہیں، جب کہ کبیرہ گناہوں سے بچاجائے‘‘۔(صحیح مسلم،ح:۳۳ ۲)
آیتِ کریمہ بتلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وسیع مغفرت والی ہے اوربندہ کے توبہ کرلینے کے بعداُس کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں، اس کی میزانِ عمل میں کوئی گناہ نہیں رہتا؛ کیوں کہ انسان غلطیوں کاپتلاہے،مگرجب وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیتا ہے اور اس پر اسے شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرکے اس کی رحمت و مغفرت کا طالب ہوتا ہے،تواللہ کو اس کے حال پر رحم آہی جاتا ہے اوروہ اسے بخش دیتا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تمام بنی آدم خطاکارہیں اورخطاکاروں میں بہتر وہ ہیں، جوتوبہ کرنے والے ہوں‘‘۔(ابن ماجہ: ۴۲۵۱)
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے گناہوں کے تدارک کے لیے ایسے اعمال اور عبادتیں مشروع کی ہیں، جوگناہوں کے لیے کفارہ اوراُن کومٹانے والے ہیں، ان اعمال میں سے کچھ تویومیہ ہیں،یعنی جوروزانہ مخصوص اوقات میں انجام دیے جاتے ہیں، جیسے: پنج وقت نماز، جن کے بارے آپﷺ نے فرمایا:’’تم لوگوں کااس شخص کے بارے میں کیاخیال ہے،جس کے دروازے پرایک نہرہواوراس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتاہو، کیاایسے شخص کے جسم پرکچھ میل کچیل باقی رہے گا؟تولوگوں نے کہا: نہیں! کچھ میل باقی نہیں رہے گا،تو آپﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اللہ تعالیٰ اُن کے ذریعہ سے گناہ مٹادیتے ہیں‘‘۔(متفق علیہ)یعنی نمازوں کی پابندی کرنے والے مسلمان کا ظاہر تو پاک و صاف رہتاہی ہے، مگر اللہ تعالیٰ ان کے صدقے میں اس کی روحانی کمیوں ،خامیوں اور بشری تقاضے سے رونماہونے والے گناہوں کوبھی بخش دیتاہے۔
دوسرے وہ اعمال ہیں، جوہفتہ واری ہیں، جیسے: جمعہ ، جمعہ بھی گناہوں کومٹاتاہے؛ چنانچہ آپ ﷺکاارشادگرامی ہے: ’’جوشخص جمعہ کے دن غسل کرتاہے اوراچھی طرح سے پاک وصاف ہوتاہے، پھرتیل یاخوشبوکا استعمال کرتاہے اور(جمعہ کے لیے اس طرح )نکلتاہے کہ نہ توصفوں کوچیرتے ہوئے اگلی صف تک پہنچتاہے اورناہی دولوگوں کے درمیان(جگہ بناکر)بیٹھتاہے، پھرمقدوربھرنمازپڑھتاہے اوردورانِ خطبہ خاموش رہتاہے، توایسے شخص کے ہفتہ بھر(ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک)کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں‘‘۔(صحیح بخاری:۸۴۳)اس حدیث سے معلوم ہواکہ جمعہ کے دن جمعہ کا اہتمام کرنا،غسل کرنا،خوشبواستعمال کرکے اچھی طرح تیار ہوکر مسجد کا رخ کرنا اورتمام آداب واصول کی رعایت کرتے ہوئے جمعہ کی نماز اداکرنا بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے بڑے انعام و اکرام کا سبب ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے بندے کے گزشتہ ہفتہ بھرکے گناہوں کو بخش دیتاہے۔
تیسرے وہ اعمال ہیں، جوسالانہ ہیں، جیسے: رمضان المبارک کے روزے؛ چنانچہ ان کے بارے میں آپ ﷺکاارشاد ہے: ’’جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تواللہ تعالیٰ اس سے جہنم کوسترسال کی مسافت کے بقدر دورکردیں گے‘‘۔(صحیح بخاری: ۲۸۴۰)اللہ اکبر!اس سے بڑااجراور ثواب کیا ہوسکتاہے،جب اللہ تعالیٰ ایک روزے کے بدلے جہنم کو ہم سے سترسال کی مسافت کے بقدر دورکررہاہے،توپورے تیس روزوں کے عوض جہنم اور اس کے عذاب سے ہم کتنازیادہ محفوظ و مامون ہوسکتے ہیں،اس کا تواندازۃ بھی نہیں لگا سکتے، اسی طرح ایک حدیث میںآپ ﷺ کاارشاد ہے کہ: ’’جوشخص رمضان کے روزے ثواب کی امیداور ایمان کے ساتھ رکھتاہے تواس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں‘‘۔(صحیح بخاری: ۳۸)یہ بھی اللہ کے رسول کی جانب سے ایک عظیم خوش خبری اور بشارت ہے۔
پھرذراساغورکریں،توپتاچلتاہے کہ روزہ دارکورمضان میں گناہ بخشوانے والے مذکورۂ بالا تینوں طرح کے اعمال میسر ہوتے ہیں؛ چنانچہ وہ پنج وقتہ نمازیں بھی پڑھتاہے، جمعہ میں بھی شریک ہوتاہے اوررمضان کے روزے بھی رکھتاہے،یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عظیم احسان اورمہربانی ہے،جو سال میں صرف ایک مرتبہ آتی ہے،لہذاہمیں اس حسین اور زریں موقعے کو ضائع کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے،اس مہینے کا اس کے شایانِ شان استقبال کرتے ہوئے اپنے آپ کوعبادت اور اطاعت و فرماں برداری کے لیے تیار کرلینا چاہیے،روزے کے اہتمام کے ساتھ اپنے دیگر اعمال و اخلاق میں بھی بہتری پیدا کرنی چاہیے،اللہ کے نبیﷺاس مہینے میں غریبوں اور مسکینوں کابہت زیادہ خیال رکھتے اور آپ کی سخاوت اس مہینے تیزآندھی کی طرح ہوجاتی تھی،ہمیں بھی اپنے اردگرد،اپنے شہر،گاؤں اورملک میں پائے جانے والے غریب،بے سہارا،مفلس اور لاچار مسلمانوں کی اس مہینے میں خبرگیری کرنی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا چاہیے،اس وقت عالمی سطح پرمسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے،برماسے لے کرعراق ، شام، یمن اورفلسطین تک تباہیوں نے اپنے پاؤں پساررکھے ہیں،مسلمان کچلاجارہا،مسلاجارہااورخانماں بربادی کی جیتی جاگتی مثال بن کر رہ گیا ہے، دنیا بھر میں جومہاجرین اور بے گھر لوگ پائے جاتے ہیں،ان میں مسلمانوں کی تعداددوتہائی سے بھی زیادہ ہے،ہمارے لیے عمومی حالت میں عراق و شام و فلسطین و یمن تک اپنی مالی امدادپہنچاناآسان نہیں،مگرہم انھیں اس رحمتوں والے مہینے میں اپنی دعاؤں میں ضروریاد رکھ سکتے ہیں،دعائیں مددکاایساوسیلہ ہیں کہ وہ زمان و مکان ،اشخاص وافراداورشناسائی و اجنبیت ہر قسم کی لفظی حدودبندیوں سے بے نیازہیں،پس ہم دل میں اپنے اُن زخم خوردہ بھائیوں کا تصورکریں اوران کی زندگیوں سے مشقتوں کے خاتمے کے لیے دعاکریں،اللہ ان کے حق میں ہماری فریادوں کوضرورسنے گا۔البتہ برماکے مظلوم اور کرب زدہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادہمارے ملک کے مختلف شہروں میں خیمہ زن ہے،ہم انھیں تلاش کریں،ان کے ٹوٹے دلوں کودلاسہ دیں،اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کریں، ان کے علاوہ بھی گردوپیش میں کوئی نہ کوئی مفلس،مسکین اور فاقہ کش ضرورملے گا،اسے بھی افطارکی خوشیوں،رمضان کی برکتوں اورآنے والی عیدکی شادمانیوں میں شریک کرنے کی ہم ضرورکوشش کریں۔اس مہینے کو قرآن کریم سے خاص مناسبت ہے؛کیوں کہ اسی مہینے میں قرآن کریم کا نزول ہوا ہے،لہذاجہاں تک ہوسکے ہم تلاوتِ قرآن کا اہتمام کریں۔قرآن کا پڑھنا بذاتِ خود ایک عبادت ہے اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرحرف کے بدلے ایک نیکی دیتا ہے،لیکن اگر یہی پڑھنارمضان میں ہو،تویقیناً اللہ تعالیٰ تلاوتِ قرآن کی نیکیوں میں بھی اضافہ فرمائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کورمضان المبارک کا احترام کرنے،پورے مہینہ روزہ رکھنے،تراویح،نوافل اور اعمالِ خیر کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
جواب دیں