آخر مسلمانوں کو اپنی قیادت پہ اعتبار کیوں نہیں ؟

وہ مسلمانوں کے جذباتی مدعوں کو ابھار کر اشتعال انگیزی کررہی ہے، جس کی وجہہ سے ملک میں فرقہ وارانہ تناؤ کاماحول پید اہوگا۔ کچھ سادہ لوح عوامی نمائندے اور دانشور حضرات بھی اس بہکاوے کا شکار ہوکر مسلم سیاسی پارٹی کی مخالفت پر اتر گئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پارٹی بی جے پی کی ایجنٹ ہے، یہ سب کچھ امیت شاہ پیٹرن ہے، اُن کا سودا اُوپر کے لیول پر ہی ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب باتیں اتنے وسوق کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں جیسے بیان کرنے والا بذات خود شریک جرم ہو۔خیر واللہ عالم۔ مخالفین کے الزامات صحیح ہوں یا غلط یہ ایک حقیقت ہے کہ آج مسلمان ظلم اور نا انصافی کا شکار ہے، اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ، ملت پسماندگی کا شکار ہیں اور اس کا مسیحا کوئی نہیں۔ ۶۷ برسوں سے مسلمانوں نے جن پر بھروسہ کرکے اقتدار کے محلوں تک پہچایاانہوں نے صرف مسلمانوں کااستحصال کیااور سچر کمیٹی کی رپورٹ ہاتھ میں تھمادی۔دلتوں ، یادوؤ،مراٹھوں اور مختلف قومیت کی نمائندگی کرنے والی کئی چھوٹی بڑی پارٹیاں سماجی انصاف اور سیکولر چہرہ لیکر میدان سیاست میں آئیں اور مسلمانوں نے ہر ایک پر اعتبار کرکے ان کا ساتھ دیا لیکن یہاں بھی انہیں صرف استعمال کیا گیا۔ اب تو یہ حال ہے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ آخر بے چارہ مسلمان کریں تو کیا کریں؟ واقعہ یہ ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی قیادت مضبوط نہ ہو اور کسی قوم کی قیادت اسی وقت ابھر سکتی ہے جب اسے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔مسلم عوام تو معصوم ہے وہ ہر کسی کی قیادت پر اعتماد کرنے کو تیار رہتی ہے مگر یہ ہمارے نام نہاد قائدین ہیں جو کسی ایک قیادت پر متفق ہونے کو تیار نہیں ہیں کیوں کہ یہ قائدینِ ملت ،مصلحت، حکمت، اور فراست کے نام پر اپنے فرض منصبی کو بھلا کر کسی نہ کسی غیر مسلم سیاسی قیادت کے ہاتھوں پر بیعت ہیں۔ انتشار عوام میں نہیں خواص میں ہے۔مسلم عوام کی اکثریت اب بھی علماء دین اور مذہبی رہنماؤں پر مکمل اعتماد کرتی ہے اور یہ امید کرتی ہے کہ شائد دین و شریعت کا علم رکھنے والے لوگ اس مسئلہ میں اس کی کوئی رہنمائی کریں گے لیکن اسے یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوتی ہے کہ ہماری مذہبی قیادت بھی مختلف خیموں میں بٹی ہوئی ہے۔ہر الیکشن کے موقع پر صرف فرقہ پرستوں کی مخالفت میں فلاں کی تائید ،فلاں کی حمایت سے آگے بڑھ کر ملّی قیادت کو مضبوط کرنے اور مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کو دور کرنے کا کوئی ایجنڈا اُن کے پاس بھی نہیں ہے۔ایک ادارہ ہے جس نے اپنے آپ کو تحفظ شریعت کے لئے مخصوص کر لیا ہے حالانکہ گذشتہ تین دہائیوں میں اِ س معاملے میں بھی اُس کوکوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی،ملک کی عدالتیں آئے دن شریعت کے خلاف فیصلے سنا کر شریعت کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ایک گروہ ہے جس کو اپنی سوچ اور فکر پر بہت ناز ہے ، جسے مسلمانوں کے دین اور دنیا دونوں کی فکر لاحق ہے وہ بھی مسلمانوں کی سیاسی رہبری کا حق ادا نہیں کر سکا، اور آج کل ایک ناکام سیاسی تجربہ سے گذر رہا ہے، ایک جماعت ہے جس نے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے اورسیاست سے دوری بر قرار رکھنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ایک طبقہ ہے جو بزرگان دین کی کرشماتی شخصیتوں سے کسی معجزہ کے انتظار میں ہے ۔ایک جمیعت ہے جو نیم سیاسی فکر کی وجہہ سے محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ یہ تمام گروہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کررہے ہیں لیکن مذہب اسلام سے زیادہ اپنے اپنے مسلک کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارا پڑھا لکھا دانشور طبقہ اپنی دنیا میں مگن ہے، اسے عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے، قوم کے اہل ثروت افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ذکوٰۃ، صدقات، چندہ اور خیرات دے کر و ہ مسلمانوں کی بڑی خدمت کررہے ہیں ۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کو دور کرنے اور اپنی قیادت کو مضبوط کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ نہیں ہے ۔کیونکہ جب بھی قومی سطح پرکسی مسلم قیادت کو تسلیم کرنے کی بات آتی ہے تو ہرایک کو سانپ سونگھ جاتا ہے،ہمارے اپنے ہی اُس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ 
تسبیح کے ٹوٹنے میں کچھ ان کا بھی ہاتھ تھا جو آج کہہ رہے ہیں کہ دانے بکھر گئے
ہمیں نہ اپنی سیاسی قوت کا احساس ہے اور نہ ہی ہم کسی مسلم قیادت کوتسلیم کرنا چاہتے ہیں۔جب کہ غیر اقوام مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہونے کہ باوجود اپنی قیادت کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ۸۰ء کی دہائی میں جب پہلی بارشیو سینا نے انتخابات میں حصہ لیا تھاتو اس نے ہوٹل میں کام کرنے والے بیرے، ٹھیلا ڈھونے والے،معمولی مزدور، مل کے کلرک، سنیما کے ٹکٹ بلیک کرنے والے، اور ایسے کتنے ہی غیر معروف اور غیر معتبر افراد کو پارٹی کا ٹکٹ دیا تھا، اُن کی عوام نے پارٹی کے فیصلوں پر تنقید کرنے کے بجائے پارٹی کی قیادت پر اعتبار کیا اور ان ہی لوگوں کو چن کر دیاجنہیں پارٹی نے امیدواری دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے ۲۵ سالوں سے ریاست کی مختلف بلدیہ جات پرآج بھی شیو سینا کا قبضہ ہے۔ یہ ہوتی ہے پارٹی اور قیادت کو تسلیم کرنے کی برکت جس سے ہم محروم ہیں۔ ہم کسی کی قیادت کو تسلیم کرنے کی بجائے اس پر نکتہ چینی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ سیکولرازم کا مکھوٹا لگا کر خود فریبی کا شکار ہیں، آج سیکولرازم کی تعریف ہی بدل گئی ہے ملک کی اکثریت کے لئے سیکولرازم صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہو گیا ہے۔خصوصاً سیاسی گلیاروں میں سیکولرازم اپنے معنیٰ کھو چکا ہے۔ہر قوم کا لیڈر اپنی قوم کی بات کررہا ہے، اپنی قوم کے مفادات کا تحفظ اس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے ، یادو اپنی سیاست کر رہے ہیں، جاٹ اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں، دلت اپنے لیڈروں کے پیچھے کھڑا ہے، مراٹھے اپنی قیادت کو مضبوط کررہے ہیں، سکھ اکالی دل کے ساتھ ہیں، راؤ اور ریڈی اپنے اقتدار کو سنبھالے ہوئے ہیں۔لیکن اگر کوئی مسلمان قائدچاہے کتنا بھی سیکولر کیوں نہ ہو اگر وہ مسلمانوں کی بات کرتا ہے تو اس پر فرقہ پرستی کا الزام لگ جاتا ہے۔مسلمان ہر ایک کا ساتھ دیتا رہا ہے، مسلمانوں نے محض سیکولرازم کے نام پر ہر ایک کی قیادت کو تسلیم کیا لیکن جب بات مسلم پارٹی کی اور مسلم قیادت کی ہوتی ہے تو ہمیں اس کے پیچھے کی وہ تمام برائیاں نظر آنے لگتی ہیں جو قیادت کے سیکولر کردار پر ہی سوالیہ نشان لگا دے۔ ہم خود ہی مسلم قیادت کو بدنام کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ تو کیا ہماری قیادت کے لئے آسمان سے فرشتے آئیں گے؟ جو تمام عیوب سے پاک ہوں۔ اور اگر کبھی فرشتے آ بھی جائیں تو ہم یہ کہہ کر انہیں مسترد کر دیں گے کہ سیاست میں ان کا کیا کام ہے؟ انہیں تو مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا چاہئے۔یہ صحیح ہے کہ غیروں کے معبودانِ باطل کو برا بھلا کہنے سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اس قسم کی فقرے بازی کو کسی طرح بھی انگیز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی شخص کی ایک لغزش کی وجہہ سے پوری پارٹی کو فرقہ پرست قرار دیا جائے، ہو سکتا ہے کہ عوام کے الزامات صحیح ہوں، اوپر کی سطح پر ساز باز بھی ہوئی ہو، شیروانی داغدار ہو، لیکن اس کی حقیقت کیا ہے کوئی نہیں جانتا ،سب سنی سنائی باتیں ہیں۔کیا کوئی اس بات کو ثابت کر سکتا ہے؟ ہاں یہ صحیح ہے کہ وہ جذباتی تقریروں کے ذریعہ عوام کی نبض کو پکڑنے اور دکھتی رگ پر انگلی رکھ کر عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا فن جانتے ہیں، تو اس میں برائی کیا ہے؟ یہ تو خوبی ہے ،یہی تو سیاست ہے ایسے افراد ہی قیادت کا حق ادا کر سکتے ہیں جو اپنے موثر اور مدلل بیان سے لوگوں کا دل جیت سکے اور ایوان حکومت میں اپنی بات رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔جتنے بڑے لیڈر گزرے ہیں ان میں دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک صفت مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے کہ وہ گفتار کے غازی اور سحر البیان ہوتے ہیں۔جو عوام کے دلوں پر دستک دیتے ہیں۔ عام انتخابات میں نریندر مودی نے اپنے اسی زور خطابت سے ہندوستانی عوام کو مسحور کر رکھا تھاجس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
مسلم قیادت میں کچھ عیب ہو سکتے ہیں، کچھ کمی اور خامی بھی ہو سکتی ہے لیکن ہندوستان کی ۵۴۴ رکنی پارلمنٹ میں ایک ہری گول ٹوپی ہی ہے جو نمایا نظر آتی ہے، ملی مسائل پر حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر تی ہے ،ملّت کی زبوں حالی اگر دور نہیں کر سکتی تو کم از کم حکومت کے سامنے اس کی تصویرپیش کرنے کی جسارت کرتی نظر آتی ہے۔ظلم اور ناانصافی کے خلاف ملّت کی آواز بن کر اُبھرتی ہے۔ ورنہ ہمارے نام نہاد ’ سیکولرمسلم ‘ نمائندے تواپنے سیاسی آقاؤ کے پابند ہوتے ہیں ، منہ کھولنے سے پہلے اپنے سیاسی آقاؤں کی طرف دیکھتے ہیں اگر آقا کی مرضی ہو تو زبان کھولیں نہیں توملت کے بڑے سے بڑے مسئلہ پر بھی خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتے آئے ہیں،یہ ہماری قیادت کا حق کیسے ادا کر سکتے ہیں؟اور جو پارلمنٹ میں ہماری نمائیندگی کا واقعی حق ادا کرتے ہیں ہم انہیں قائد تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں، (مہاراشٹرا اسمبلی میں بھی ایک شخصیت ایسی ہے جو مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم کے خلاف طویل عرصہ سے مسلمانوں کی آواز بن کر گونج رہی ہے لیکن اسے بھی مسلمان اپنا قائد ماننے تیار نہیں ہیں، اس پر بھی ہمارے ہی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فرقہ پرستوں کا آلہ کار ہے)۔ ایوان حکومت میں ان کی کارکردگی کو قطعئی نظر انداز کرکے ہم صرف اُن افواہوں (فرقہ پرستوں کے ایجنٹ ہیں) پرزیادہ یقین کرتے ہیں جوانہیں بدنام کرنے کے لئے ہم تک پہنچائی جاتی ہیں۔ اورالمیہ یہ ہے کہ ہماری ٹوٹی پھوٹی قیادت کو بدنام کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنوں میں سے ہی ہوتے ہیں۔کسی پروین توگڑیا، اشوک سنگھل ، کسی سادھو یا سادھوی نے ان کی کردار کشی نہیں کی۔ جو کچھ ہو رہا ہے ہم ہی کر رہے ہیں،ہم خو دہی اپنی قیادت کو سرخرو ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے کیوں کہ اس کی وجہہ سے ہماری نام نہاد سیکولر قیادت خطرے میں پڑ نے کا اندیشہ ہوتا ہے۔رام ولاس پاسوان سے ان کی قوم نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کل تک تو سیکولر ہوا کرتے تھے آج فرقہ پرستوں کی گود میں کیوں بیٹھ گئے ہو؟ کانشی رام اور مایاوتی پر دلتوں نے یہ الزام نہیں لگایا کہ تم فرقہ پرستوں سے مل کر سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا باعث بن رہے ہو۔ بھرندان والا سے سکھوں نے دوری اختیار نہیں کی حالانکہ وہ علٰحیدہ ریاست کی مانگ کر رہے تھے۔۔اور بھی بہت سارے لیڈر ہیں جو اپنی اپنی قوم کی قیادت کر رہے ہیں ان پرکبھی فرقہ پرستی کا لیبل نہیں لگتا لیکن اگر کوئی مسلم قائد مسلمانوں کی بات کرتا ہے تو وہ فرقہ پرست ہوجاتا ہے۔ہم ہی اس پر سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا الزام لگادیتے ہیں۔ہم خود ہی اپنی قیادت کو بدنام کرتے ہیں۔ان کے عیوب کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماراقائدبے عیب، تمام برایؤں سے پاک، فرشتہ صفت ،ا نتہائی پاکباز، شریف النفس، قول و فعل کا پکّا، دیانتدار، ایماندار،تہجد گزار ہو لیکن اس کی مسلم شناخت بھی ظاہر نہ ہو ،وہ ہمدرد، مخلص ،ہر چیز سے بے نیاز۔بیباک، نڈر، سیاسی داؤ پیچ سے واقف، اور مالدار ہو لیکن صرف مسلمانوں کی بات نہ کرتا ہو۔ ظاہر ہے کسی ایک شخص میں یہ ساری صفات یکجا نہیں ہو سکتی۔ مگر جب غیر مسلم قیادت کو قبول کرنے کی بات آتی ہے تو اس کی تمام تر مکاریوں، عیاریوں ، بے وفائیوں کے باوجود صرف اتنا کافی ہوجاتا ہے کہ اس کا تعلق ایک سیکولر پارٹی سے ہے(چاہے اس کا ماضی فرقہ پرستی میں ڈوبا ہوا ہی کیوں نہ ہو)۔سمجھ میں نہیں آتا کہ کل تک جس شخص کی ذہنیت فرقہ پرست تھی نام نہاد سیکولر پارٹی میں شامل ہوتے ہی اس کی ذہنیت کیسے تبدیل ہو سکتی ہے؟ وہ سیکولر کیسے بن جاتا ہے؟ 
کہا جارہا ہے کہ مسلم پارٹی سے فرقہ پرستی میں اضافہ ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد کے پچاس ساٹھ سالوں میں ملک میں جو فرقہ وارانہ حادثات رونما ہوئے ہیں اس وقت کونسی مسلم پارٹیاں موجود تھیں۔ میرٹھ، ملیانہ، بھاگلپور، ہاشم پورہ، جمشید پور، اور نیلی کے قتل عام کے وقت کونسی مسلم پارٹی وجہہ تسمیہ بنی تھی؟ گجرات میں مسلم نسل کشی کے لئے کس مسلم پارٹی کو ذمہ دار ٹہرایا جاسکتا ہے؟ فرضی انکاونٹر اور حراستی اموات میں کون کون سی مسلم سیاسی پارٹیوں کا عمل دخل ہے؟واقعہ یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کا اپنا ایک ایجنڈا ہے جس پر وہ موقع موقع سے عمل کرتے رہتے ہیں، اس کے لئے کچھ مسلم دشمن جذبات جنہیں سنگھ پریوار نے با ضابطہ منصوبہ بندی کے ساتھ ذہن سازی کے ذریعہ اُبھارا اور کچھ ووٹ بنک کی سیاست ذمہ دار ہے جسے سیکولر پارٹیوں نے اپنی بقاء کیلئے ضروری سمجھا۔اس کے لئے کسی مسلم سیاسی پارٹی کو ذمہ دار ٹہرانا کہاں تک صحیح ہے؟کیا کوئی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمان کسی بھی مسلم پارٹی کا ساتھ نہ دیں تو ملک سے فرقہ پرستی کامکمل خاتمہ ہو جائے گا؟ملک کی کچھ ریاستوں جیسے مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، مغربی بنگال کرناٹک میں کوئی مسلم پارٹی نہیں ہے لیکن وہاں پر فسادات عام بات ہے اس کے بر عکس کیرالا میں ایک مسلم پارٹی موجود ہونے کے باوجود وہاں فرقہ پرستی کے واقعات نہیں کے برابرسامنے آتے ہیں اور ان میں وہ شدت بھی نظر نہیں آتی۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مہاراشٹرا میں بیل کے ذبیحہ پر پابندی صرف مسلم پارٹی کی وجہہ سے نافذ ہوئی جب کہ ۱۹۹۵ ء میں جب یہ ترمیمی بل پاس ہوا تھا اس وقت ریاست میں کسی بھی مسلم پارٹی کا وجود نہیں تھا۔ اور ۲۰۰۰ء کے بعد پندرہ سال تک اس ریاست میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حکومت تھی تو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اس ترمیم کو منسوخ کیوں نہیں کیا؟ ایک اور ترمیمی بل پاس کرکے یانیا قانون بناکر ۱۹۹۵ ء کے ترمیمی بل کو رد کیا جاسکتا تھااگر ان کی نیت صاف ہوتی۔ایسا کرنے سے سیکولر پارٹیوں کو کس نے روکا تھا؟ واقعہ تو یہ ہے کہ گائے کے ذبیحہ پر پابندی کا قانون ۱۹۷۳ء میں اس وقت کی سیکولر کانگریس کی سرکارنے ہی بنا یا تھا۔ ایک اور مضحکہ خیز سوال کیا جاتا ہے کہ مسلم پارٹی مسلم اکثریتی حلقوں سے ہی امیدوار کیوں کھڑا کرتی ہیں؟ اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا باعث بنتی ہے؟ اب انہیں کون سمجھائے کہ دیگر تمام چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں پہلے پہل اپنی قوم کے ووٹوں پر ہی انحصار کرتی ہیں اور جب وہ مستحکم ہو جاتی ہیں تو پھر دیگر قوم کے لوگ بھی اس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، کیایہ ممکن ہے کہ مسلم سیاسی پارٹی ہندو اکثریتی علاقوں میں پہلے اپنے قدم جمالے پھر مسلمانوں سے کہے کہ آؤ ہمارا ساتھ دو۔جہاں تک سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سوال ہے کیا سیکولرازم کی بقاء کی ذمہ داری ہندوستان کے صرف ۱۵ فیصد مسلمانوں پر ہی عائد ہوتی ہے ۸۵ فیصد ہندو اکثریت کیوں سیکولر پارٹیوں سے دور ہو تی جا رہی ہے اس کا کوئی جواب سیکولر پارٹیوں کے پاس ہے؟
اب مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سیاسی بے وزنی کو دور کرنے کے لئے اپنی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے اسے مستحکم کرتے ہیں یا یوں ہی جھوٹے سیکولرازم کی بھینٹ چڑھ کراپنی دنیا و آخرت خراب کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ یہ اسلام ہی ہے جو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تین مسلمان بھی یکجا ہوں توتم میں سے کسی ایک کو اپنا امیر مقرر کر لو اور ا س کی تابعداری کرو۔پچھلے ۶۵ برسوں میں سیکولر پارٹیاں تو کوئی مسلم قائد دے نہیں سکیں جسے مسلمان اپنا قائد مانتے ہوں جو مسلمانوں کو انصاف دلا سکے اور ان کے حق کیلئے آواز بلند کر سکے۔ اب ہمیں اپنا قائد خود طئے کرنا ہوگاجس کا بہترین موقع انتخابات کے وقت ہی ہوتا ہے۔ یاد رکھئے آپ کا ایک ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے اس کی اہمیت صرف کسی امیدوار کی کامیابی یا شکست کی حد تک نہیں ہوتی بلکہ آپ کا ہر ووٹ کسی قیادت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی سند ہوتا ہے۔ آپ جب بھی کسی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اس پارٹی کے قائد کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔یہ مسلمانوں کو طئے کرنا ہے کہ ہمیں کس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے؟ باطل، عیار، دھوکے باز نام نہاد سیکولر قائدین کے یا ایک مرد مجاہد کے جس میں مسلمانوں کی آوازبن جانے کا حوصلہ ہو۔ مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے مسلم قائدین کو بھی چاہیے کہ وہ عاجزی، انکساری، ایثار و قربانی کو اپنے اوپر لازم کرلیں، اللہ نے انہیں جو زور خطابت عطاء کیا ہے اس کے زعم میں یہ نہ ہو کہ کسی کے ساتھ نا انصافی کرو ، کسی کا حق مارلو، کسی پر ظلم کرو، کسی کی دل آزاری کر بیٹھو، اپنے زبان و بیان پر اتنا قابو ضرور رکھیں کہ ان کے کسی بیان کی وجہہ سے پوری امّت کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔’’وما علینا الا البلاغ‘‘۔

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے