آج کوئی ابو علی ابن سینا کیوں نہیں پیدا ہوتا؟ ابن ہیثم اور ابن رشد کیوں نہیں سامنے آتے؟ جابر بن حیان جیسے کیمیا داں آج دنیا کی رہنمائی کیوں نہیں کرتے ہیں؟ آج کوئی زکریا رازی اور ابوالقاسم زہراوی علم وہنر کے آسمان پر کیوں نہیں چھاتا؟ موجودہ سائنسی دنیا میں مسلمانوں کی بے وقعتی کو دیکھتے ہوئے کسی نے کہا تھا کہ آج اگر مسلم سائنسداں یکسر دنیا سے ختم ہوجائیں تو کسی کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ وہ موجود تھے۔
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اسلام غور وفکر کا مذہب ہے اور قرآن کریم نے بار بار اس کی تاکید کی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے اس پر ہمیشہ زور دیا اور آپ کی اپنی زندگی بھی غور وفکر سے عبارت تھی۔ پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھ کر اپنے خالق اور اس کی خلقت میں کئی کئی دن تک غور وفکر کیا کرتے تھے مگر اب ایسا لگتا ہے گویا مسلمانوں نے تدبر و تفکر کا سلسلہ ہی بند کردیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان سائنس میں سب سے پیچھے ہیں۔ موجودہ عالم اسلام کا جائزہ لیں تو احساس ہوگا کہ یہاں سائنس داں ہی نہیں بلکہ سائنسی اداروں کی بھی کمی ہے۔ جو مسلم ممالک غریب ہیں ان کا رونا تو یہ ہے کہ وہ غریب ہیں اور ان کے پاس پیسے نہیں ہیں مگر جن کے پاس تیل کی دولت ہے اور سیال سونا بہہ رہا ہے ان کے ہاں بھی نہ تو سائنسی ادارے ہیں اور نہ ہی اچھے میڈیکل کالج و اسپتال ہیں۔ خلیج عرب کے ملکوں میں لوگ بیمار ہوتے ہیں تو سرمایہ دار علاج کے لئے امریکہ و یوروپ جاتے ہیں اور غریب بھارت آتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ مسلم ممالک دولت خرچ کرنے کا سلیقہ بھی نہیں رکھتے ہیں۔ جن کی دولت سے ساری دنیا میں خیراتی ادارے چلتے ہیں، دینی مدرسے چلتے ہیں اور لاکھوں مولویوں کی پرورش ہوتی ہے، وہی اپنے ملک میں ایک میڈیکل کالج یا اسپتال نہیں کھول سکتے۔ بھارت کے مولوی عرب ملکوں کے شیخوں سے چندے کر کے لاتے ہیں اور یہاں بلڈنگیں بنواکر عیش کرتے ہیں مگر خود عرب شیوخ اپنے ملک میں ایک سائنسی ادارہ قائم نہیں کرسکتے، آخر کیوں؟ دلی اور ممبئی کے اسپتالوں اور نرسنگ ہومس میں عرب مریضوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور وہ یہاں لاکھوں روپئے خرچ کرکے جاتے ہیں مگر خود وہ اپنے ملک میں دولت کی فراوانی کے باوجود صحت کے مراکز قائم نہیں کرسکتے، آخراس کے پیچھے وجہ کیا ہے؟
قوم کی برتری سائنس سے
عالمی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ دنیا میں وہی قوم برتر رہتی ہے جو علوم سائنس میں آگے ہوتی ہے۔ یونان کسی زمانے میں سائنس میں بہت آگے تھا اور تب اس نے سکندر اعظم کو پیدا کیا تھا، جس کا سامراج ساری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔یہاں اسقلی بیوس، بقراط اور ارسطو پیدا ہوئے تھے۔ علم وہنر کے اس خزینے سے روم نے فائدہ اٹھایا تو اس کے ہاں جالینوس، ہیرو فیلوس اور ایراسسطرا طوس جیسے نامور حکماء پیدا ہوئے۔ جب مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا اور خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ و بنو عباس کا دور آیا تو جابر بن حیان، زکریا رازی، قاسم زہراوی اور ابن سینا جیسے سائنس و طب کے ماہرین پیدا ہوئے جنھوں نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور ان کی ایجادات و اختراعات اور تحقیقی کتب سے ہی استفادہ کرکے مغرب کے اہل علم نے سائنس و طب کو جدید رنگ و آہنگ عطا کیا۔ اس عہد کے مسلم حکمرانوں نے بھی سائنس و طب کی سرپرستی کی ۔ ساری دنیا سے ماہرین کو اپنے پاس بلایا اور انھیں بڑی بڑی رقموں کے ساتھ ساتھ عزت و وقار بھی نوازا۔ عباسی عہد میں تو بغداد علم و فن کا مرکز بن چکا تھا اور عرب ہی نہیں ہندوستان تک سے ماہرین کو یہاں لایا جاتا تھا جو ریسرچ کے نئے نئے کام انجام دینے کے ساتھ ساتھ سائنس و طب کی کتابیں دوسری زبانوں سے ترجمہ کیا کرتے تھے۔ یہاں میڈیکل کالج اور اسپتال اسی دور میں قائم ہونے لگے تھے اور دارالترجمہ میں علمی کتابوں کے ترجمے بھی ہوتے رہتے تھے۔ جس طرح آج طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ و یوروپ جاتے ہیں اسی طرح اس دور میں ساری دنیا سے طلبہ بغداد آیا کرتے تھے۔ ان طلبہ کے بیشتر اخراجات حکومت کی طرف سے ادا کئے جاتے تھے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ علم حاصل کرسکیں۔ یہ دور مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔
ذرا اپنے ماضی کی طرف دیکھو
عہد وسطیٰ کے مسلمان سائنس دانوں نے بڑی بڑی ایجاد یں کی ہیں۔ ان میں جابر بن حیان کا نام سر فہرست ہے، جس کی کیمیا میں مہارت کی وجہ سے اسے آج بھی Father of chemistry کہا جاتا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اس عظیم سائنس داں کوآج کی مغربی دنیا Gaberکے نام سے جانتی ہے اور اس کی تحریر کردہ کتابیں آج بھی علم و فن کے خزانے تقسیم کررہی ہیں۔ الجبرا اسی کی تحریر کردہ کتاب ہے جو مشرق سے مغرب تک اسکولوں مین داخل نصاب ہے۔ جابر نے ہی سلفائڈس، سفیدہ، (Lead Carbonte)سنکھیا (Arsenic)اور کحل حاصل کرنے کے طریقے ایجاد کئے۔ اسی نے Nitric acide
جواب دیں