کیا ہم سچ میں آزاد ہیں؟

وقت گزرتا رہا اور ایک ایک کرکے یہاں مسلمان بادشاہ حکمرانی کرتے رہے، محمد بن قاسم نے ۷۱۲ء میں سندھ فتح کیا تھا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمان آتے رہے اور یوں ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا۔سترہویں صدی میں برطانوی لوگ تجارت کی غرض سے یہاں آئے مگر انکی نیت تجارت نہیں بلکہ اس سرزمین پر قبضہ کرنے کی تھی ،پہلے تاجر آئے پھر کچھ حالات ایسے بنا دیئے گئے کہ ان تاجروں کی سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر فوجی دستوں کی آمد شروع ہوگئی۔اس دوران ہندو،سکھ اور مسلمانوں نے ملکر 1857میں برطانوی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ایک جنگ کا آغاز کیا گیا جو تاریخ میں غدر اور جنگ آزادی کے نام سے یاد کی جاتی ہے، اس جنگ میں انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی اور ہندوؤں نے بڑی چالاکی سے اس جنگ کا سارا ملبہ مسلمانوں کے ماتھے پر مار دیا اور انگریزوں کو یہ باور کروایا کہ انہیں اس بغاوت میں مسلمانوں نے دھکیلا تھا ،بات اصل یہ تھی کہ ہندو قوم مسلمانوں کی ایک ہزار سال کی حکمرانی سے جل بھن رہی تھی،انہیں بدلہ لینا تھا مسلمانوں سے ،اس بار انھیں موقعہ مل گیا تھا ،لہذا ہوا یہ کہ انگریزوں نے ہندوؤں کی بات پر یقین کرلیا اور مسلمانوں کو سخت اذیتیں دی گئیں۔ ڈاکٹر ولیم نے باقی انگریز شاسکوں کی طرح مسلمانوں کو غدر کا ذمہ دار ٹھہراکر انہیں ظلم اور لوٹ پاٹ و تباہی کا نشانا بنایا۔ ۱۵دنوں میں ۲ لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ داڑھی، لمبا کرتا باغی کی پہچان تھی۔ باغی کا دوسرا نام مسلمان بتایاگیا۔ کل ۵۱ہزار علماء کو شہید کیاگیا۔ (Thomson) تھامسن نے یہ تعداد تین سالوں میں ۴۱ہزار بتائی ہے۔ چاندنی چوک سے خیبرتک کوئی پیڑ ایسا نہ تھا کہ عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔
بہادر ظفر کے شہزادوں : مرزا خضر سلطان، مرزا مغل، مرزا ابوبکر اور مرزا عبداللہ کو (Hudson) ہڈسن نے خود گولی ماری اور خون پیا۔ علماء کو بڑے پیمانے پر کالے پانی کی سزا دی گئی۔ جامع مسجد دہلی کو فوج کا اصطبل بنادیاگیا۔ ہزاروں عورتوں نے کنوؤں اور باولیوں میں کود کر عزت بچائی۔۱۸۵۷/ سے ۱۸۶۱/ تک تین لاکھ قرآن جلائے گئے تاکہ مسلمانوں میں سے جہاد کا خیال نکالا جاسکے۔ الٰہ آباد، فتح پور، بریلی جہاں بھی انگریزوں نے جیت حاصل کی بستیوں کو جلادیا۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کو مار دیا۔ گھروں کو تباہ کرنا ان کی خاص سزا تھی۔ دہلی میں آج بھی جمنا پل کے پاس سوتنترا سینانی اسمارک میں وہ بوڑھا برگد موجود ہے جس پر۴۱۰۰ مسلمانوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ اسی پیڑ کے پاس کنوؤں میں اندھیری کوٹھریاں موجود ہیں جس میں مسلمان قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ منشی ذکاء اللہ نے لکھا ہے کہ۱۸۵۷ کے بعد ایک انگریز افسر لوگوں کو پوچھتا تھا کہ وہ ہندو ہے کہ مسلمان اور جواب میں مسلمان سنتے ہی گولی ماردیتا تھا۔ لارڈ رابرٹ (Lord Robert) نے اپنی کتاب (41۔Years in India) میں لکھا ہے کہ دہلی کی فتح کے بعد انگریزوں نے قتل عام کی منادی کرادی اور سات دنوں تک دہلی جلتی لٹتی رہی۔ ۷۲۰۰۰ مسلمانوں کو عدالتوں نے پھانسی دی اور قتل عام میں جو مارے گئے ان کا کوئی حساب نہیں۔ رڑکی میں سنہرا گاؤں میں برگد کا پیڑ آج بھی موجود ہے جہاں ۲۵۰ ہندوستانیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ نوح میں نیم کے درخت پر ۵۲ میواتیوں کو اور فیروز پور جھرکا میں املی کے پیڑ پر سیکڑوں متوالوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ مرادآباد کے نواب مجو خان شہید کی لاش کو ہاتھی کے پیر سے باندھ کر شہر میں گھسیٹا گیا۔ بعد میں چونے کے پانی میں ڈال کر جلایا گیا۔ The other side of the Medal میں Lt.Robertson نے لکھا: ’’ہم لوگ پشاور سے جہلم تک پیدل سفر کرتے ہوئے پہنچے راستے میں کچھ ضروری کام کرتے آئے۔ باغیوں سے اسلحہ چھینا؛ انہیں پھانسی پر لٹکایا۔ تو پ سے اڑانے کا جو طریقہ ہم نے استعمال کیا اس سے ہمارا ڈر لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا۔ فوجی عدالت کے حکم سے باغیوں کے سرقلم کردئیے گئے اوریہی پالیسی اس وقت تمام چھاونیوں میں عمل میں لائی جارہی ہے۔‘‘ جھجھر کے نواب عبدالرحمن شہید کو پھانسی دی گئی کیونکہ وہ باغیوں کی مدد کرتے تھے۔ اکبر آبادی مسجد میں شاہ ولی اللہ کا مدرسہ برباد کردیا گیا۔ صرف دہلی میں ایک لاکھ گھر اور مسجدیں زمین سے ملادی گئیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جبر و استبداد، ظلم و قتال، لوٹ مار جب بھی کسی قوم نے دوسری قوم کے ساتھ کی انسانیت اور رحمانیت اسے بھلا نہ سکی۔ انسانی تاریخ طرح طرح کی بربریتوں کی نہ صرف گواہ ہے بلکہ امین بھی ہے، مذہبی حوالوں سے سمجھا جائے تو اوپر والے نے ان اقوام کو نیست و نابود کر کے رکھ ڈالا جنہوں نے بھی ظلم کا راستہ اختیار کیا، ہر دور میں اسی اصول پر انصاف ہوتا چلا آیا ہے، آج بھی یہ اصول دائمی ہے، کل بھی یہ اصول دائمی رہے گا، انیسویں اور بیسویں صدی ظلم و ستم کے معاملے میں بے حد و حساب انسانیت سوز ثابت ہوئی، برصغیر ہندوستان پر نہایت ہی جابرانہ انداز میں غیر ملکیوں نے وہ ستم ڈھایا کہ انسانیت مرجھا کر رہ گئی، دہلی کا لال قلعہ سازش کے تحت ڈکیتوں کی طرح قبضہ میں لیا گیا، مغل شہنشاہ سے ہندوستان کا اقتدار اعلیٰ بندوق کی نوک پر چھینا گیا، مغل شہنشاہ کی آل اولاد کے سرقلم کر کے تھالیوں میں سجا کر بھوکے پیاسے ضعیف شہنشاہ کو کھانے کی جگہ پیش کئے گئے، پابہ سلاسل کر کے بہادرشاہ ظفر کو جلاوطن کر دیا گیا، سسکتے شہنشاہ ہند نے الوداع ہوتے ہوئے خوب کہا’’ دو گز زمین بھی نہ ملی کوچہ یار میں‘‘ یہ بے بسی کے انتہائی جذبات کا اظہار تھا، تاج برطانیہ کے قاتل گماشتوں نے اکتفا اسی پر نہ کیا، ہر مسلمان مرد کو دو رویہ شاہراہوں پر پھانسی کے پھندوں میں اس طرح لٹکا کر چھوڑ دیا جس طرح یسوع مسیح کو رومن ظالمین نے مصلوب کر کے چھوڑ دیا تھا، شاہی خزانہ لوٹ کر برطانیہ منتقل کر دیا گیا، دہلی کی فتح کے بعد اودھ جیسی مہذب پرامن خوش اخلاق ریاست پر قبضہ جما کر نوابین اودھ کو رنگیلا شاہ کے نام سے مشہور کر کے مسلمانوں کی کردار کشی کی گئی، انگریز نے شرفاء کو تباہ و برباد کر کے کم ذات قسم کے لوگوں کو نواب، جاگیردار، خان صاحب وغیرہ بنا دیا یعنی برصغیر ہندوستان سے شرافت کا جنازہ اٹھا ڈالا ، مسلمانوں کے مقابلے پر پنڈتوں اور دیگر لوگوں کو جاگیریں عطا کر کے سارے ہندوستان پر اپنا اقتدار جو مغل شہنشاہ سے ڈکیتی کے ذریعہ چھینا تھا قائم کر لیا، شرافت غربتوں میں ڈبو دی گئی، رذالت کو پروان چڑھایا گیا جس کے بعد چالاک بدیسی حکمرانوں نے ہندوستان کے قیمتی اثاثے لوٹ کر برطانیہ منتقل کرنا شروع کر دیئے۔ ہندوستان پر اپنا غیر قانونی اقتدار قائم رکھنے کے لئے ہر طرح کا ظلم و ستم مسلمانوں پر ڈھایا جاتا رہا ،پھر تمام ہندوستانیوں نے مل کر آزادی کی جنگ لڑ ی اور ہندوستان ۱۵اگست ۱۹۴۷کو انگریزوں سے آزاد ہوا اور ۲۶جنوری۱۹۵۰کو ہندوستان ایک جمہوری ملک بنا۔ملک کے تمام مدارس اسلامیہ،یونیورسیٹیوں ،کالجز اوراسکولوں میں بلکہ ہندوستان کے تمام شہروں، قریہ قریہ میں جشن یوم آزادی منایاجاتاہے۔اپنے ملک کی سرزمین سے کسے محبت نہیں ہوتی،اوریہ موقع سال میں دوبار آتا ہے۔ایک۱۵ اگست یعنی یوم آزادی اوردوسرا ۲۶ جنوری یعنی یوم جمہوریہ۔آزادی اور جمہوریت دو ایسے لفظ ہیں جو کسی بھی ملک کے شہری کے لئے کافی اہمیت رکھتے ہیں۔کتنی خوشی سے ہم اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک کا حصہ ہیں۔۲۶جنوری کو شہیدان وطن کے کارناموں اوران کی خدمات کویادکیا جاتا ہے اورآنے والی نسلوں کوبھی ان سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کوپوراحق ہے کہ وہ آزادی سے زندگی گزاریں ،سب کواختیارہے کہ وہ دستور میں دیئے گئے حقوق سے اپنادامن بھریں۔تاریخ کے صفحات اورہندوستان کی سرزمین گواہ ہے کہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں بزرگان دین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا تب کہیں جاکر ہندوستان اور اس میں بسنے والوں کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف اس جنگ میں ہندومسلم ساتھ ساتھ رہے۔لیکن آج کے حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ آج اس ملک میں پیارو محبت اور بھائی چارگی کو فرقہ پرست عناصر خاک میں ملادینا چاہتے ہیں۔اوریہاں کی گنگاجمنی تہذیب کو ختم کردیناچاہتے ہیں۔مظفر نگراورسہارنپور حادثہ انہیں فرقہ پرستوں کی زہریلی سیاست کا نتیجہ ہے اورفرقہ پرستوں کی کارستانی سے ہی مظفر نگر کے حالات معمول پر نہیں آرہے ہیں۔ فرقہ پر ست اس ضلع کو فسادات کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہوتے بھی نظر آرہے ہیں۔کہیں بھی آپسی رنجش ہو وہ سبھی معاملوں کو ہندو مسلم کا رنگ دیکر ضلع میں دہشت پھیلا رہے ہیں۔اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے انہیں عبادت، تعلیم، کاروبار، روزگار غرض زندگی کے ہر شعبے میں مذہبی تعصب کا نشانہ بنا یا جارہا ہے۔ سرکاری نوکریوں میں ویسے ہی مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اب تعلیم کے شعبے میں بھی پہلے سے بڑھ کر مودی سرکار مسلمانوں کے لئے روکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف ہے۔ ریاست مہارا شٹرجہاں پر پہلے کانگریس کی حکومت نے مسلمانوں کے لئے 5 فیصد کو ٹہ تعلیم میں مختص کیا تھا اسے BJP کی حکومت نے ختم کر دیا جب کہ وہ اس سے پہلے یہاں پر گائے کو ذبح کرنے اور اس کے گوشت کے استعمال پر پابندی عائد کر چکی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو پانچ سال تک جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ مسلمانوں کی مساجد ومدارس پر حملے اور انہیں زبردستی مسلمان بنانے کی مہم بھی BJP کی حکومت نے زورو شور سے جاری رکھی ہوئی ہے ۔
ہندوؤں نے گزشتہ ایک سال سے ’’بہو لاؤ بیٹی بچاؤ ‘‘ مہم شروع کر رکھی ہے جس میں ہندو لڑکوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ غریب مسلمان لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان سے شادی کریں بعد ازاں ان کو ہندو بننے پر مجبور کریں، اس مہم کا مقصد مغربی بنگال میں اپنے قدم جمانا ہے۔ اس مہم میں BJP کو دیگر انتہاء پسند ہندو جماعتوں وشو ہندو پریشد، ہندو سمیتی ، ہندو جاگرن منچ اور بھارت سیوا آشرم سنگھ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایک دوسری ہندو انتہاء پسند جماعت شیو سینا نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ ہم سے اچھا سلوک چاہتے ہیں تو انہیں ہندو دھرم قبول کرنا ہوگا۔ اس نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بندے ماترم کا نعرہ لگائیں ، ہندو بنیں بصورت دیگر پاکستان چلے جائیں۔ ان کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا جب بھارت میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے مسلمانوں کو انتہا پسند گروہ کی ایذارسانیوں سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا مودی حکومت کا ہر آنے والا دن مسلمانوں کے لئے ظلم و ستم کا ایک نیا باب کھول رہا ہے لیکن دنیا بھر میں سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک کے طور پر پہچانے جانے والے
بھارت کے خلاف نہ تو اقوام متحدہ خواب خرگوش سے جاگتی ہے اور نہ ہی امن کے چمپین امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو یہاں پر اقلیت کے خلاف ہوتا ہوا ظلم نظر آتا ہے۔ موجودہ سال کے پہلے 15 دنوں میں 12 مسلم کش فسادات کے دوران ہندوؤں نے 10 مسلمانوں کو شہید اور 250 مسلمانوں کو زخمی کیا جس کے باعث ہزاروں مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اربوں روپے کی مالیت کی گاڑیوں، گھروں دکانوں پلازوں مویشیوں اور دیگر جائیداد کو لوٹا گیا یا نذرِ آتش کیا گیا، چارمساجد کو شہید جبکہ ایک امام کو زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کو دھونس دھمکی بدمعاشی کے ذریعے زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مودی سرکار کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کا سلسلہ نہ تو رک رہا ہے نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی صورت نظر آرہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے امریکی کمیشن نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت کے دور میں اقلیتوں پر پْرتشدد حملے بڑھ گئے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’2014 کے انتخابات کے بعد، مذہبی اقلیتی فرقوں کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ رہنماؤں کی جانب سے اشتعال انگیز بیان سننے میں آرہے ہیں جبکہ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندو قوم پرست تنظیموں کی جانب سے کئی پْر تشدد حملے اور مذہب کی زبردستی تبدیلی کے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔‘‘جینوسائڈ (نسل کشی) واچ کی ایک تحقیقی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان امریکا کے سیاہ فاموں کی مانند ہیں، وہ ہندستانی ثقافت کے ایک پسماندہ رکن ہیں اور انہیں اس حالت تک پہنچانے کے لیے بہت کچھ کیا گیا ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا مطالعہ کرنے کے لیے سچر کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس نے 2006ء میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کو شکایت ہے کہ نہ صرف معاشرے کے بعض حصوں بلکہ سرکاری اداروں اور حکومت کی جانب سے بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘ سچر کمیٹی کی اسٹڈی کے مطابق مسلمانوں نے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے نہ تو جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کرائے پر دے سکتے ہیں، اور نہ ہی اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں تعلیم دلوا سکتے ہیں۔سیکیولر ازم کے تحت قانون و انصاف کے معاملات میں ہر ایک کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جانا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوتا اور نہ تو مساویانہ مواقع میسر آتے ہیں اور نہ مساوی نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ بلکہ ڈرامائی اعلانات اور گمراہ کن اشتہاروں اور اقلیتوں کی بہبود کے دعوؤں کے بعد مسلم برادری کی جو حالت سات برس پہلے تھی اس سے اب شاید کچھ اور خراب ہوئی ہے۔مسلمانوں کی بستیاں قصبے،گاؤں، محلے اور شہر آج بھی مفلسی غربت اور جہالت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ حکومتیں آج بھی ان بستیوں میں سکول، کالج، بینک، سرکاری ادارے اور ہسپتال جیسی سہولیات شروع کرنے سے بچ رہی ہیں۔ایک طرف سیاسی جماعتیں عوام سے بڑی بڑی شاہراہیں، بندرگاہیں، ہوائی اڈے، صنعتی خطے اور تجارتی مراکز، میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کی تعمیر کے وعدے کر رہی ہیں اور دوسری جانب دیہی علاقے ہوں یا شہری ہر جگہ افلاس زدہ آبادی میں مسلمانوں کی غالب اکثریت بدلتے ہوئے بھارت کی ترقی کے استعارے کا حصہ نہین بن سکی ہے۔انتخاب کے قریب آتے ہی سیاسی جماعتیں اور مسلمانوں کی مذہبی تنظیمیں مسلمانوں کی غربت، پسماندگی اقتصادی پستی اور انہیں اوپر لانے کے طرح طرح کے نعرے لگانا شروع کرتی ہیں،کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی حالت بہتر کرنے اور انہیں ملک کے اصل دھارے میں لانے کی صحیح بات نہیں کرتی ۔گزشتہ 69 برس سے یہ جماعتیں کیا وعدہ کرتی رہی ہیں اور انہوں نے مسلم برادری کی حالت بہتر بنانے کے لیے کیا کیا ہے یہ صرف سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں ہی بتا سکتی ہیں۔
اورجہاں آزادی کے 69 برس گذرجانے کے باوجود زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔ انہیں ہر شعبہ حیات میں نظر انداز کیا گیا۔ تعلیم‘ روزگار‘ تجارت اور کاروبار میں ناانصافی کو جاری رکھا گیا۔ اس پر ستم بالائے ستم انہیں فسادات کے ذریعہ محروم اور کمزور کیا گیا۔آزاد ہندوستان کی 69سالہ تاریخ میں ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف تقریباً50 ہزار فسادات کروائے گئے۔ ایسے فساد ات بھی رونما ہوئے جنھیں تاریخ ہرگز بھلا نہیں سکتی۔ مراد آباد‘ ہاشم پورہ‘ ملیانہ‘ راوڑکیلا‘ جمشید پور‘ بھیونڈی‘ ممبئی‘ اجمیر‘ احمد آباد کے فسادات رونما ہوئے۔ مسلمانوں پرہندو فرقہ پرستوں کے ظلم و بربریت کے بعد فرقہ پرست پولیس جوانوں نے مسلمانوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولیاں ماری گئیں۔ بھارت میں جتنے بھی فسادات رونما ہوتے ہیں اس میں مسلمانوں کو دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ فساد کے بعد جب پولیس آتی ہے تو اکثریت کو روکنے کے بجائے الٹا اقلیتوں پر ظلم کرتی ہے۔ ملک بھر میں فسادات کے بعد تقریباً 45 تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیئے گئے لیکن تمام انکوائری کمیشنوں کی رپورٹ کو برف دان کی نذر کردیا گیا۔ ممبئی کے فساد کے بعد جسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھاکہ 31 پولیس عہدیدار قتل اور لوٹ مار میں ملو ث تھے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حالیہ دنوں میں مہاراشٹر کے فسادات میں پولیس جوان بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کی معیشت کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ان کی صنعتوں اور تجارتوں کو تباہ و برباد کیا گیا۔ ممبئی میں مسلم بہنوں کی عصمت ریزی کی گئی اور برہنہ پریڈ کروائی گئی۔ حالیہ مظفرنگر کے فسادات میں باجے بجاکر ان کی عصمت لوٹی گئی اور برہنہ کھیتوں میں بھگایا گیا۔ بابری مسجد کو شہید کردیا گیا اور جب اس پر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان کے سروں اور سینوں پر گولیاں داغی گئیں اور انہیں ٹاڈا کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیا۔تو ایسے حالات میں ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہم بھی آزاد ہیں؟ اور ایک آزاد ملک میں جمہوریت کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں ؟

«
»

دشمن کا دشمن دوست

بھاگلپور فساد کمیشن کی رپورٹ مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑا فراڈاور بھونڈہ مذاق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے