ہم نے خدا گواہ ہے کہ ان میں سے کسی میں برسوں سے مشاورت کا نام بھی نہیں پڑھا تھا۔ کئی برس پہلے شہاب الدین صاحب کا بیان پڑھا تھا جس میں انہوں نے مولانا مسلم صاحب سے نام کی تبدیلی کی درخواست کی تھی جس کا ذکر کرچکے وہ تو ہوا جو ہوا۔ ہم سب سے پہلے خدا کو گواہ کرکے ڈاکٹر ظفر خاں صاحب اور ان کے عظیم الشان آفس میں کام کرنے والے ہر بڑے اور چھوٹے عہدیدار اور کارکن سے معافی مانگتے ہیں جن کی ہمارے مضمون سے دل شکنی ہوئی۔ اللہ گواہ ہے اگر ہمیں تفصیل معلوم ہوتی تو ہم ہرگز ایک لفظ نہ لکھتے۔ اب رہی بات کہ ہم برسوں سے نسیان کی چادر میں دبے پڑے تھے تو اس کی وضاحت کردیں کہ 11 برس سے مختلف اسپتالوں میں چیرپھاڑ کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ دل کے سہارے کے لئے تین مرتبہ پیس میکر لگوانا پڑچکا ہے اور ٹانگ کی ہڈی کے تین میجر آپریشن برداشت کرچکا ہوں۔ برسوں جب بیٹھ نہیں سکا تو کیا لکھتا اور کیا پڑھتا؟ ڈاکٹر ظفر کی اس محبت کا کیسے شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے اس کم علم کی تحریروں کو قالب بدل کر ملّی گزٹ کی زینت بنایا۔
بات صرف اتنی ہے کہ مشاورت لکھنؤ میں بنی تھی ہم ورکر تھے اور ہمیں فخر ہے کہ کبھی اپنا نام کبھی کہیں نہیں دیا لیکن مشاورت کا انعقاد اور اس کی جزئیات قیام طعام استقبال اور واپس۔ ہم اسی کو اصل کام سمجھے بیٹھے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب حقیقت تو یہی ہے کہ مشاورت کے بانی جس دن بددل ہوکر اعظم گڑھ چلے گئے اُن کی مشاورت اسی دن مرگئی تھی مفتی صاحب نائب صدر تھے انہیں طالع آزماؤں نے صدر بنا دیا اور وہ برسوں سے کسی قابل اثر جماعت کے صدر اس لئے بننا چاہتے تھے کہ وہ اس زخم کی تکلیف ہمیشہ محسوس کرتے رہے جو اُن سے مولانا حفظ الرحمن کی نیابت اسعد میاں نے لاٹھیوں کے بل پر چھین لی تھی اور خون خرابہ کو روکنے کیلئے جو پنچ بنے تھے وہ حیات اللہ انصاری اور شاہ نواز خاں تھے انہوں نے ہی خون خرابہ سے ڈرکر مفتی صاحب کو جمعیۃ کا ورکنگ صدر بننے پر آمادہ کرلیا تھا۔
ڈاکٹر سید محمود کے دل کو جتنی لگی تھی اس میں وہ منفرد تھے۔ اُن کے درد کو سمجھنے والے سب سے زیادہ مولانا منظور صاحب مولانا ابواللیث صاحب مولانا علی میاں ڈاکٹر اشتیاق مولوی مسلم۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جمشید پور راوڑ کیلا کلکتہ تینوں جگہ کا اُن حضرات نے دورہ کیا تھا اور پوری تباہی اور بربادی کو اندر جاکر دیکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس کا علاج ہندو مسلم اتحاد سمجھتے تھے مشاورت 1964 ء میں بن گئی اور 1967 ء تک اس نے ملک کے چپہ چپہ پر دورے کئے۔ مشاورت کے تمام عمائدین ان دَوروں میں شریک رہتے تھے اور پنڈت سندر لال بھی۔ ہر جگہ کے لوگوں سے ڈاکٹر صاحب کی فرمائش ہوتی تھی کہ جلسہ میں ہندوؤں کو ضرور بلایا جائے۔ مولانا علی میاں اسلام کی دعوت میں ڈوبے ہوئے تھے وہ جب کھڑے ہوتے تھے تو چند منٹ پیام انسانیت پر بول کر دعوت پر آجاتے تھے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ لیکن ڈاکٹر محمود صاحب چاہتے تھے کہ ہر تقریر کا حاصل یہ ہو کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر یہ ملک برباد ہوجائے گا۔
ڈاکٹر صاحب ہر جلسہ میں پنڈت سندر لال کو ضرور لے جاتے تھے۔ ایک بار سب پلیٹ فارم پر پنڈت جی کا انتظار کررہے تھے اور جب ٹرین نے سیٹی دے دی تو سب سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے رخصت کرکے کہا کہ میں ہوائی جہاز سے پنڈت سندر لال کو لے کر آؤں گا اور وہ دوسرے دن دوپہر میں اُن کو لے کر آگئے۔
1964ء سے 1967 ء تک مجلس مشاورت کی جس نے عظمت دیکھی ہو۔ جو بجلی کی طرح ملک میں رواں دواں رہتا ہو جس کے سنبھل سے لے کر لکھنؤ تک پچاس سے زیادہ بہت جگری ہندو دوست ہوں جس کا ہر شہر سے تعلق ہو اور جس نے پورے ملک کے ذمہ دار سیاسی ہندوؤں کو صرف ایک جملہ کہتے سنا ہو کہ مشاورت کے فیصلہ کا انتظار ہے؟ وہ سب پڑھے لکھے اور منجھے ہوئے تھے لیکن کہتے مشاورات ہی تھے۔ اور وہ جب اسی مشاورت کہی جانے والی کی گولڈن جبلی کی خبرایسی حقیر طریقہ سے چھپے ہوئے ڈھکے جیسے خدا نخواستہ بچہ چوروں کے گروہ کے پکڑے جانے پر خبر بتادی جائے؟ تو میرے پیارے ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں صاحب آپ ہی بتایئے کہ اس پر کیا بیتے گی؟ جس خبر میں یہ تک نہ ہو کہ کس نے جاری کی ہے دفتر کہاں ہے ذمہ دار کون ہے۔ صدر استقبالیہ کون ہے؟
ثبوت کے لئے جس خبر کو میں نے ابتدا میں ہی چھاپ دیا ہے آپ کے اس سات کروڑ کی عمارت کے دفتر سے ہی جاری ہوئی ہوگی جس میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ کون کیا کرے گا؟ اتنے اہم فنکشن میں ملت کے کسی ایک بڑے کا نام یا کسی عالم کا نام حد یہ کہ مولانا سالم شہاب الدین اور ڈاکٹر صاحب کا نام بھی نہ ہو تو دس برس سے ٹوٹی ٹانگ لئے گھر میں بیٹھے حفیظ کے قلم سے انگارے نہ نکلتے تو کیا نکلتا؟
ڈاکٹر صاحب نے 1964 ء سے 1967 ء تک شاید پندرہ صوبوں کا دورہ کیا۔ اس وقت ملک میں ڈاکٹر ظفر صاحب نے بھی دیکھا ہوگا کہ بس مشاورت ہی مشاورت تھی۔ کانگریس کے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کے فیصلہ کا ہر جگہ خیرمقدم ہوا تھا اس کی وجہ صرف وہی تھی کہ جس بیدردی سے مسلمانوں کی بستیوں کو تاراج کیا گیا تھا انہیں دیکھنے کے لئے پتھر کے کلیجہ کی ضرورت تھی۔ اندرا سے شکایت یہ تھی کہ کسی ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کو تبدیل نہیں کیا۔ نہ ناراضگی کا بظاہر اظہار کیا اور نہ خود جاکر دیکھا کہ ان کے کانگریسیوں نے کیا کیا؟ حد یہ کہ نہ کوئی اپیل کی کہ کانگریس کے سرگرم ہندو سامنے آئیں اور ماحول کو بگڑنے سے بچائیں۔ حد یہ ہے کہ ہر جگہ سے شکایت تھی کہ پولیس بلوائیوں میں شریک رہی اندرا گاندھی نے کہیں نہیں کہا کہ جس پولیس والے کی طرف مسلمان انگلی اٹھائیں اسے معطل کردو اور انکوائری کراؤ۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کا یہ اقدام کہ اندرا اور سبھدرا کو مستثنیٰ رکھا جائے کس کے حلق سے اتر سکتا تھا؟ والد ماجد مولانا منظور نعمانی جنہیں ڈاکٹر صاحب کہیں زیادہ اہمیت دیتے تھے انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے پوری طاقت لگادی لیکن وہ اس پر بھی آمادہ نہیں ہوئے کہ بیان نہ دیجئے نہ چھپوایئے اپنے دوستوں سے ذاتی ملاقات ہی فرمادیجئے۔ لیکن وہ آخری درجہ کے ضدی تھے وہ نہیں مانے اور جب ان کے پاس استعفے آئے اور ان سے کہا گیا کہ مشاورت پھٹ جائے گی تو ہر انجام کو نظرانداز کرتے ہوئے بیان چھپواکر جاری کردیا اور ردّعمل کے سلسلہ میں جو دھول اُڑی اس سے بچنے کے لئے وہ اعظم گڑھ کے اپنے گاؤں میں چلے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشاورت صرف ڈاکٹر محمود کا خواب تھا اور جب وہی چلے گئے تو پھر کٹی پتنگ کی لوٹ رہ گئی کہ کسی کے ہاتھ میں پتنگ کسی کے ہاتھ میں ڈور۔ والد ماجد اور مولانا علی میاں اور پھر نہ جانے کون کون سب الگ ہوگئے تھے بس وہ طالع آزما رہ گئے تھے جو کچھ لینے آئے تھے۔ جیسے ہمارے ڈاکٹر فریدی صاحب کہ انہوں نے مشاورت ہٹاکر مسلم مجلس بنالی وہ مشاورت سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن مولانا علی میاں نے بہت مشکل سے انہیں منایا۔ ڈاکٹر صاحب ذوالفقار اللہ صاحب حبیب صاحب حافظ اکرام فضل الباری صاحب اسعد حسین ایڈوکیٹ سید مجتبیٰ صاحب مولانا عاقل صاحب وغیرہ وغیرہ یہ ڈاکٹر فریدی صاحب کی مسلم مجلس تھی اور انہوں نے الیکشن لڑا اپنے حوصلے نکالے اور آخرکار وہ بھی تاریخ کا ایک ورق ہوگئی۔ میرے پیش نظر ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کے مضمون کا جواب نہیں ہے میں صرف وضاحت کررہا ہوں اس لئے کہ وہ اس وقت میدان میں نہیں تھے۔ یہ میری بے خبری ہے کہ میں اتنے بڑے ملّی قائد سے ناواقف ہوں۔ جن کی محبت مجھے نہال کر چکی ہے۔
میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ 1961 ء سے 1963 ء تک جو دوسرا غدر ہوا ہے اس کا علاج ڈاکٹر محمود صاحب نے ہندو مسلم اتحاد سمجھا تھا۔ اس کے لئے دورے کئے گئے کئی کئی شہروں کا تو ایک دوسرے میں اور پورے ملک مسلمان سمجھنے لگے تھے کہ اب دن بدل جائیں گے۔ لیکن ڈاکٹر محمود صاحب مشاورت کو وقف کرکے گاؤں جابسے۔ مفتی صاحب کی مجبوری میں نے شروع میں بتادی ڈاکٹر فریدی صاحب کو سیاست کا صرف شوق تھا۔ کبھی ملاقات ہوگی تو میں کئی گھنٹہ میں اس کی تفصیلات ڈاکٹر صاحب کے گوش گذار کروں گا۔ اس کے بعد جب کبھی دہلی سے مشاورت کی کوئی خبر آتی تھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اردو بازار دہلی میں مجلس احرار کے خاتمہ کے بعد بھی مکان پر قبضہ کے لئے (شاید) برسہابرس مجلس احرار الاسلام کا بورڈ لگا رہا اللہ جانے اب ہے کہ نہیں۔ خاکسار تحریک ہو یا احرار تقسیم کے بعد سب کا کام ختم ہوچکا تھا۔ لیکن خاکسار تحریک آج بھی ہے۔ مشہور ناول نگار مؤرخ ادیب اور دانشور مائل ملیح آبادی صاحب اس کے کمانڈر تھے اور اب پروفیسر خان محمد عاطف اس کے سربراہ ہیں۔ یہ کچھ مسلمانوں کا مزاج جو کچھ اُن کے بڑوں نے بنا دیا اسے مسجد کا درجہ دے دیا۔ کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ مشاورت کا مقصد فسادزدہ مسلمانوں کی ہمت افزائی اُن کی مالی امداد، ہندوؤں کے دلوں سے دشمنی کا نکالنا اور بہتر سے بہتر امیدوار پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بھیجنا تاکہ وہاں وہ ایسا ماحول بنائیں کہ فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو۔ جب ڈاکٹر سید محمود صاحب بددل ہوگئے تو آج تک کوئی دورہ نہیں ہوا مجلس مشاورت پر جس نے بھی اپنا حق بتایا اس نے کچھ بھی کیا ہو، وہ نہیں کیا جس کے لئے اسے بنایا گیا تھا۔ پھر جب کام وہ نہیں کرنا تھا تو نام وہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور نام ہی رکھ لیا تھا تو اس کا شجرہ 1964 ء سے ملانے کا کسی کو کیا حق ہے؟ اب جو بھی مشاورت ہے اس کی پیدائش 1967 ء کے بعد ہوئی اور صر ف نام کی مشاورت ہے اس کام کی نہیں جس کے لئے اسے بنایا گیا تھا۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب نے وہ کام گنائے ہیں جو اب وہ کررہے ہیں وہ کام خدا نخواستہ فضول نہیں ہیں۔ مشاورت بلیٹن کا نکلنا ریاستوں میں اس کی شاخیں ہیں۔ جو مقامی سطح پر مسلمانوں کی آواز اٹھانے اور دادرسی میں مصروف ہیں۔ مستقل بیانات شائع ہوتے ہیں پریس کانفرنس ہوتی ہے اور اہم مسائل کے وقوع ہونے پر اس کے وفود جائے وقوع پر پہونچتے ہیں اور حسب ضرورت مدد میں کارروائی کرتے ہیں۔ مجھے اس سلسلے میں اتنا عرض کرنا ہے کہ جو ریاستی شاخیں مسلمانوں کی مدد کررہی ہیں ان میں اُترپردیش جہاں اصلی سماجی مشاورت پیدا ہوئی تھی وہاں بھی ایک شاخ ہے جو ایک مکان پر ایک بورڈ کی شکل میں ہے اسی مکان میں اس کے برابر آل انڈیا مسلم مجلس کا بورڈ بھی لگا ہے۔ ہوسکتا ہے 30-25 برس پہلے وہ آفس ہو لیکن اب وہ ایک رہائشی مکان ہے جسے رینٹ کنٹرول سے الاٹ کرالیا گیا ہے کرایہ زیادہ سے زیادہ 100 روپئے مہینہ ہوگا۔ اس میں مسٹر توفیق جعفری کے بیوی بچے رہتے ہیں۔ توفیق صاحب ڈاکٹر فریدی صاحب کے ملازم تھے نہ ان کے جونیئر تھے نہ کمپاؤنڈر بلکہ بڑے مطب کے کارکنوں میں سے ایک تھے۔ دفتر کی حفاظت کے خیال سے ان کا قیام وہاں کرا دیا گیا تھا فریدی صاحب کے انتقال کے بعد مجلس بھی جس نام کی رہ گئی مکان پر توفیق صاحب کا قبضہ تھا انہیں آفس سکریٹری بنا دیا اب وہاں شاید ایک باہری کمرہ ان لاخیروں کے لئے ہے جو ہوٹل میں قیام کے اہل نہیں ہیں وہ ہی مشاورت یا مجلس کے کسی آدمی سے سفارشی خط لے کر دو چار دن رہ کر چلے جاتے ہیں رہی صوبائی مشاورت کی سرگرمی تو آج 28 واں روزہ ہے اور میرا 26 واں ہے ان سب کو قربان کرنے کے جذبہ سے کہہ رہا ہوں کہ اترپردیش میں کم از کم 30 سال سے مشاورت کی کوئی میٹنگ اس بند کمرہ میں بھی نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی ہیں تو صرف مسلم مجلس کی۔ اب رہیں ملک کی دوسری ریاستیں تو وہاں کا حال وہاں کے لوگ ہی بتاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمود صاحب کی آخر عمر میں جمیل مہدی صاحب نے ان کے گھر جاکر دو دن قیام کیا تھا وہ انٹرویو کے لئے تیار نہیں ہوئے قسطوں میں باتیں کیں۔ ایک جملہ یہ پڑھ لیجئے۔ میں نے مجلس مشاورت ہندو مسلم اتحاد کے لئے بنائی تھی۔ یا وسعت اخلاک میں تکبیر مسلسل کے لئے نہیں بنائی تھی۔ یہ اُن تقریروں کی طرف اشارہ ہے جو مولانا علی میاں دعوتی کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہ ظفر الاسلام صاحب فیصلہ کریں کہ جو وہ کررہے ہیں کیا وہ اسی مشاورت کے کام ہیں جو ڈاکٹر محمود کرگئے تھے؟ انگلش بلیٹن پریس کانفرنس بیانات، مضامین اور اس ملت مظلوم کے وہ کام ہیں۔
مشاورت 1964 ء میں بنی 1967 ء میں پھٹ گئی اس کے بعد کیا ملک میں امن و امان ہوگیا؟ ہزاروں میں سے چندہوئے ہیں سنبھل میں فساد ہوا ، مسلمانوں کا کروڑوں کا نقصان ہوا، 1980 ء میں مراد آباد کی عیدگاہ میں نمازیوں کو پولیس کی گولیوں سے شہید ہوئے ، 1987 ء میں میرٹھ میں ہوا وہ بار بار پھوڑا پھوٹتا ہے اور پوری کہانی اخبار دہراتے ہیں۔ 1992 ء میں بابری مسجد شہید ہوئی، کانگریس کے اخبار قومی آواز نے اپنا پہلا صفحہ پورا کالا کردیا جبکہ ایڈیٹر کمیونسٹ ذہن کے تھے۔ مسجد کے معاملہ کو لے کر مسلمان نکل پڑے۔ ممبئی میں دو ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے دو سو کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ ردّعمل میں بم دھماکے ہوئے ، 257 ہندو مرے اور 27 کروڑ کا نقصان ہوا مہاراشٹر کا ہر وزیر بے ایمان ہر پارٹی بے ایمان ہر عدالت بے ایمان کہ257 کی موت کے بدلہ میں درجنوں مسلمان سڑ رہے ہیں اور دو ہزار مسلمانوں کے قتل سے لکھی ہوئی کہانی اور جسٹس کرشنا کی رپورٹ رو رہی ہے کہ مسلمانوں کا کوئی نام لیوا بھی نہیں۔ ہم نے نہ جانے کتنی بار اسی مسئلہ پر لکھا ہے اور لکھتے رہیں گے۔ لیکن ہمیں ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں معاف فرمائیں کہ مہاراشٹر مشاورت یونٹ کی دوسری خبر بھی نظر سے نہیں گذری اور ان تمام حادثوں میں سب روئے سوائے مشاورت کے جسے ہم نے غلطی سے مردہ سمجھ لیا۔ نہ وہ سنبھل میں نظر آئی نہ مراد آباد میں نہ میرٹھ میں نہ ممبئی نہ بابری مسجد میں۔ کیا محترم نے یوپی یونٹ مہاراشٹر یونٹ، گجرات یونٹ سے معلوم نہیں کیا کہ کیا کررہے ہو کسی کو کیوں دکھائی نہیں دیتے؟
ڈاکٹر ظفر صاحب کا شکریہ کہ میری پیرانہ سالی اور مفلسی کا خیال کرکے انہوں نے دہلی آنے جانے کے پیسے دینے کے لئے بھی مجھے خوشخبری بھیجی ہے۔ وہ ناواقف ہیں اس لئے کیا ہوں۔ بس اتنا بتادوں کہ لکھنا شوق ہے پیشہ نہیں ہے۔ پاک پروردگار نے اتنا دیا ہے کہ اگر آنا ضروری ہوا تو اپنی ٹوٹی ٹانگ کی رعایت سے اپنا ہیلی کاپٹر بنواکر آپ کی سات کروڑ کی بلڈنگ کی چھت پر ہی اتروں گا۔ اس فقیر کے نزدیک سات کروڑ کا ہندسہ تو بہت چھوٹا ہے میرے جن کروڑوں اداروں کو میرے دو بیٹے دیکھ رہے ہیں وہ سرسری نظر میں 25 کروڑ سے زیادہ مالیت کے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر صاحب سے سنجیدگی سے عرض کررہا ہوں کہ کسی بھی ضرورت سے کبھی بھی لکھنؤ تشریف لائیں تو توفیق جعفری صاحب کو لے کر میرے ہوٹل آجائیں اور وہیں قیام کریں۔ ان کے شایان شان بھی ہوگا اور پرسکون بھی۔ اور ہوٹل سے میں اپنے دو کروڑ والے غریب خانہ میں بلالوں گا۔
مجھے روزہ میں وضاحت کرنے میں زیادہ محنت پڑگئی۔ لیکن میرے نزدیک یہ ضروری تھا۔ آخر میں پھر عرض کررہا ہوں کہ دل سے ہر بات نکال دیجئے گا میں اچھا نیاز مند اور اہل علم کا قدرداں ہوں معصوم صاحب اور سہیل انجم صاحب دونوں کسی حد تک واقف ہیں۔ اور مولانا ارشد مدنی یا محمود مدنی زیادہ اچھی طرح۔(یو این این)
جواب دیں