نصف صدی پر محیط اس عرصہ میں دیوار برلن گر گئی‘ یوروپ سے کمیونزم کا خاتمہ ہو گیا اور بیشمار مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی ‘ نفرت‘عداوت‘بد اعتمادی کی دیواریں اسی طرح قائم رہیں جس طرح اسرائیل اور فلسطین یا اسپین اور مراقش یا شمالی و جنوبی کوریایا امریکہ اور میکسیکو کے درمیا ن قائم ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان بد ترین قسم کی بداعتمادی کے ساتھ معاندانہ رویہ نہ صرف بدستورجاری ہے بلکہ اب تو دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف نیوکلیائی اسلحے استعمال کرنے کی کھلی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں جس کا آغاز پاکستان کی جانب سے ہوا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں ممالک کے سربراہان جب بھی اور جہاں بھی ملتے ہیں‘ ان کی ملاقات کا بنیادی پیغام یہی ہوتا ہے کہ ’’گفتگو بند نہ ہو‘بات سے بات چلے‘‘۔ گزشتہ جمعہ کوروس کے شہر اوفا میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے درمیان جو ملاقات ہوئی اور جو مذاکرات ہوئے اس کا بھی بنیادی نکتہ یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی استواری کے لئے باضابطہ مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے جوپچھلے 13 ماہ سے تعطل کا شکارتھے۔
بہرحال ہندوستان اور پاکستان کے درمیان یہ شروعات ایک نئے باب کا آغاز ہے جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے اور امیدبھی کی جانی چاہئے کہ یہ سلسلہ کسی منطقی انجام تک ضرور پہنچے گابشرطیکہ دونوں ممالک نیک نیتی کے ساتھ رشتوں کو بہتر بنانے کی سمت میں کاربند رہیں۔ دونوں وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان بھی تبادلۂ خیال ہوا جس میں دہشت گردی کی لعنت کے سدباب کے سلسلے میں باتیں ہوئیں اور اعلیٰ فوجی افسران کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی گئی۔2008کے ممبئی دہشت گردانہ حملہ کیس میں دونوں ملکوں کے وکلأ کی جلد ملاقات ہونا بھی طے پایا ۔دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر بھی اتفاق ہوا جس سے ترقی کا عمل تیز ہوگا۔دونوں ملکوں کے درمیان ماہی گیروں کو 15 دن میں رہا کرنے پراتفاق ہوا اور اسکے لئے میکانزم بھی تشکیل دیدیا گیا۔دونوں ملکوں کے زائرین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کا پاکستانی وزیر اعظم کا دعوت نامہ بھی وزیر اعظم مودی نے قبول کر لیاجس کے بعد یہ طے ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی آئندہ سال پاکستان کا دورہ کریں گے ۔
دنیا بھر میں ملکوں کی حکومتیں وقفہ وقفہ سے بدلتی رہتی ہیں لیکن عام طور پرخارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوتی۔پاکستان کے حوالے سے سابقہ کاگریسی حکومت کی پالیسی یہی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بند نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ بات چیت جاری رہنے سے ہی مسائل کے حل ہونے کی امید رہتی ہے۔ بھارتہ جنتا پارٹی‘جو اس قت اپوزیشن میں تھی‘ ہمیشہ کانگریس حکومت کی اس پالیسی کی مخالفت پر آمادہ رہتی تھی اور اس کا بنیادی نکتہ یہ رہتا تھا کہ دہشت گردی(پاکستان کی جانب سے) اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔گزشتہ سال جب بی جے پی خود اقتدار میں آگئی تو بجا طور پریہ امید کی جا رہی تھی کہ اسکی حکومت پاکستان سے اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گی جب تک سرحد پار سے دہشت گردی یا کشمیر میں دہشت گردی کی اعانت بند نہیں ہوگی لیکن حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی بی جے پی نے اپنی ہی پالیسی سے انحراف کر کے اس وقت سب کو چونکا دیا جب تمام سارک ممالک کے سربراہان کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی مودی کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کئے گئے۔بہر حال یہ ایک اچھا آغاز تھا لہذٰا اس قدم کی ستائش کی گئی۔ لیکن پھر اگست میں پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیری علاحدگی پسند لیڈروں سے ملاقات کو بنیاد بناکرپاکستان کے ساتھ بات چیت منسوخ کر دی گئی۔اب ایکبار پھر خود ہندوستان نے ہی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
خارجہ تعلقات کے حوالے سے مودی حکومت کا ڈھلمل رویہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں بھی عیاں ہوا ہے۔حکومت کئی موقعوں پر ہندوستانی عوام کو ‘جن کی اکثریت فلسطین حامی ہے ‘یقین دلاتی رہی کہ ملک کی دیرینہ روایتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی لیکن حال ہی میں جب اقوام متحدہ حقوق انسانی کونسل میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف قرارداد پیش ہوئی تو ہندوستان نے غیر حاضر رہ کر اسرائیل کی حمایت کی۔اس نوعیت کی خارجہ پالیسی یقینی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
وزیر اعظم مودی اگرچہ تابڑتوڑ بیرونی دورے کر کے باقی دنیا سے ہندوستان کے رشتوں کو نئی جہت دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ اور چین کا بھی دورہ کیا لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ دورے خاص کر ان دو طاقتور ممالک کو ہمنوا بنانے میں کوئی خاص سودمند ثابت نہیں ہو سکے ہیں ۔امریکی صدر اوباما اس سال جنوری ہندوستان کی یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت فرما کر جب وطن واپس لوٹے تو انہوں نے فوراً ہی پاکستان کیلئے ایک بلین ڈالر کی سول وملٹری امداد کو منظوری دے دی۔ ظاہر ہیکہ ہندوستان کے نقطۂ نگاہ سے پاکستان کیلئے امریکہ کی یہ ملٹری امدادماتھے پر شکن پیدا کرنے والی تھی کیونکہ پاکستان اس امداد کا استعمال یقینی طور پر ہندوستان کے خلاف ہی کرے گا۔ اسی طرح ہندوستان نے جب ممبئی حملے کے گنہگار لکھوی کی عدالت سے رہائی کے معاملے پر پاکستان کے خلاف کارروائی کیلئے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی تو اسے چین نے ہندوستان کے بجائے الٹا پاکستان کی حمایت کی اور جب وزیر اعظم مودی نے اس سلسلے میں گزشتہ ہفتہ ملاقات ہونے پر چینی صدر سے استفسار کیا تو ان کودو ٹوک لفظوں میں بتایا گیا کہ چین کا فیصلہ حقائق اور مقاصد پر مبنی تھا۔ اسکے علاوہ چین 46بلین ڈالر کی خطیر لاگت سے پاکستان چین اقتصادی راہداری کی تعمیر بھی کر رہا ہے جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے گزرتے ہوئے چین کے شمال مغربی خودمختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ‘ ریلوے اور موٹر وے کے ذریعہ تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ظاہر ہیکہ ہندوستان اس راہداری کے مقبوضہ کشمیر سے گزرنے پر معترض ہے لیکن پاکستان کے ساتھ چین نے بھی ہندوستان کے اس اعتراض کو نظرانداز کر دیا ہے ۔ان وجوہات سے اس وقت پاکستان کے حوصلے بلند ہیں۔وہ امریکہ اور چین دنیا کی دونوں بڑی اور فیصلہ کن کو اپنی پشت پر کھڑا پاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی جب اوفا میں مودی نواز ملاقات ہو رہی تھی‘ پاکستانی فوج جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔اس سے پاکستانی حکومت اورپاکستانی فوج کے بیچ ہندوستان کے حوالے سے پالیسی کا تضاد عیاں ہوتا ہے۔ یوں بھی اندرون ملک نواز شریف ہدف تنقید بنائے جا رہے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے ساتھ بات چیت میں نہ کشمیر ذکر کیا نہ بلوچستان کا اور نہ کراچی کا ۔یہ ملاقات آئندہ کیا رخ اختیار کرے گی اس کا انحصار اس بات پر ہیکہ پاکستان لکھوی‘ حافظ سعید‘داؤد ابراہیم‘کشمیری علاحدگی پسندوں کی اعانت‘ ہندوستان میں دہشت گردوں کی دراندازی جیسے معاملات پر ہندوستان کی منشا کے مطابق کوئی قدم اٹھاتا ہے یا نہیں یا یہ کہ ہندوستان اپنی ایجنسی RAW پر سندھ اور بلوچستان میں دہشت پسندی کو بڑھاوا دینے کے الزامات پر کیا جواب دیتا ہے۔ ان دیرینہ ایشوز کی موجودگی میں ہندوستان اور پاکستان امن اور دوستی کی شاہراہ پر کتنا آگے بڑھ سکیں گے‘یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا ۔ سردست یہی کہا جا سکتا ہے کہ آغاز اچھا ہے اور گفتگو چلتی رہے تو بہتر ہے
جواب دیں