ماہ مبارک میں برصغیر کے غیر سرکاری امدادیافتہ تمام مدارس اپنے سال بھر کے بجٹ کا انتظام کرتے ہیں ۔ہندوستان میں واقع مدارس کے اساتذہ اور سفراء حضرات رمضان میں تمام بڑے شہروں میں چندہ کی غرض سے نکل جاتے ہیں ۔ ہندوستان کی اقتصادی راجدھانی ممبئی اور قومی راجدھانی دہلی میں آنے والے سفراء کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ کچھ ارباب مدارس مداراس کی چوفہ طرفہ ترقی کے لئے لندن ، کناڈا ، افریقہ اور خلیجی ممالک کا بھی سفر کرتے ہیں ۔بیرون ممالک کا سفر کرنے والے کس حال میں ہوتے ہیں انہیں کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تومجھے اندازہ نہیں ہے لیکن جو حضرات اندرون ملک مدارس کے لئے چندہ کرتے ہیں ان کی پریشایناں دردناک اور حیرت انگیز ہے ۔ وہ قدم قدم پڑ ناگہانی مصائب کا سامنا کرتے ہیں ۔ پورے رمضان مشکلات کے سایے میں گھرے ہوئے رہتے ہیں ۔ذیل میں ہم سفراء کو در پیش مسائل کا ایک سرسری جائزہ پیش کررہے ہیں کہ رمضان میں مدارس کے سفراء کو چندہ کے نام پر کسی طرح کی پریشانیوں سے گذرنا پڑتا ہے لیکن ان سب کے باوجود ان کا عزم حوصلہ پست نہیں ہوتا ہے ۔
رمضان میں دوران سفر ایک اہم مسئلہ ان کی رہائش کا ہوتا ہے ۔ ممبئی ، دہلی ، کولکاتا ، چنئی بنگلو ر او ر دیگر شہروں میں چندہ کی غرض سے جانے والے علماء اور سفراء کی ایک کثیر تعداد ہوتی ہے لیکن بہت ہی کم ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کہیں رہائش مل پاتی ہے۔ اکثر وہ ہوتے ہیں جو کسی قریبی رشتہ دار کے نہ ہونے کی وجہ سے قیام کے نظم سے محروم ہوتے ہیں ۔ یہ حضرات ہوٹل میں بھی قیام نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ایک ماہ کے لئے الگ سے روم کرایہ پر لیتے ہیں کیوں کہ ان کے اخراجات کا بجٹ محدود ہوتا ہے ۔ ان کی فکر یہ ہوتی ہے کہ شب روز کی مشقت سے ملنے والی چندہ کی رقم میری ذات پر ذرہ برابر بھی صرف نہ ہو۔ وہ رقم اپنے صحیح مصرف میں استعمال ہوجائے ۔ مدارس کے نادار اور غریب بچے ہی مکمل طور پر اس سے استفادہ کریں ۔ چناں چہ یہ حضرات رہائش کا نظم نہ ہونے کی وجہ سے کبھی مسجد میں سوجاتے ہیں کبھی کسی کے کارخانے میں تو کبھی کہیں اور رات بسر کرلیتے ہیں ۔ اور اس طرح جد و جہد کی زندگی بسر کرکے یہ حضرات مدرسہ کے لئے کام کرتے ہیں۔ کچھ شہر ایسے ہیں جہاں مساجد میں نماز فجر کے بعدٹھہر نے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے جس سے ان کی آخری امید بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ دل والوں کی دلی بھی ان ہی شہروں میں شامل ہے جہاں کے متولی حضرات مسجد میں نماز کے قیام بعد سونے کو ممنوع قراردیتے ہیں ۔ممبئی کی مساجد کے ذمہ دار اس حوالے سے فراخدلی کا مظاہر ہ کرتے ہیں اور سفراء کے نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں آرام کرلینے پر کسی طرح کی پابندی نہیں لگاتے ہیں۔ چندہ کے دوران قیام کے ساتھ طعام بھی ایک اہم معاملہ ہوتا ہے ۔ جس کا کہیں کوئی مستقل نظم نہیں ہونے کی بناپر انہیں دقتوں کا سامنا ہوتا ہے۔
اس سفر کا سب سے کٹھن باب عوام سے ملنا اور ان سے چندہ لینے کا ہوتا ہے ۔یہ وہ موقع ہوتا ہے جہاں مدارس کے سفرا کو عوام انتہائی حقارت آمیز نظروں سے دیکھتی ہے ۔ چندہ کی غرض سے جانے والے علماء کو امراء کی جماعت ذرہ برابر عزت و احترام نہیں دیتی ہے ۔ پیسہ کے نشہ میں وہ اس قدر مست ہوتے ہیں کہ وہ از راہ انسانیت ایک عام انسان کا احترام و آداب بھی ملحو ظ نہیں رکھ پاتے ہیں ۔ اپنے ماضی کوفراموش کرکے کچھ اس انداز سے مخاطب ہوتے ہیں جیسے کہ دولت پر ان کی خاندانی اجارہ داری قائم ہے ۔کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو مولوی کو دیکھتے ہی طنزیہ جملہ کسنا شروع کر دیتے ہیں جیسے کہ’’ مدرسہ کے نام پر اب کارخانہ چلایا جارہا ہے ۔ چندہ کے نام پر دھندہ ہورہا ہے ‘‘۔یہ سب جملہ کہنے کے بعد جیب سے پچاس روپے نکال کراس طرح وہ دیتے ہیں جیسے انہوں نے ایک احسان عظیم کردیا ہو ۔کچھ صاحب ثروت وہ ہوتے ہیں جو سفیر سے دسیوں طرح کا تصدیق نامہ طلب کرتے ہیں پھر ناک بھوں چڑھا کر پچاس سور وپے نکا ل کر یہ کہتے ہیں کہ’’ آگئے ہیں کہ تو پچاس کی رسید بناہی دیجئے ہم کسی کو خا لی نہیں لوٹا تے ہیں‘‘ ۔کچھ لوگ مدرسہ کو بند کرنے کا مشورہ دینے لگتے ہیں کہ اب مدرسہ میں پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں رہ گیا مدارس کے طلبہ کو کہیں بھی ملازمت نہیں ملتی ہے یہ دس پندرہ سالوں تک مدرسہ میں زندگی گذارنے کے بعد بھی جاہل رہتے ہیں ۔ پھر کیا فائدہ ہے ان مدرسوں کا ۔یہاں چندہ دینا زکوۃ کی رقم ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اوپر کے یہ چندجملے بطور مثال ہیں جس کا سامنا ارباب مدارس اور اس سے وابستہ افراد شب و روز کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مدارس کے سفر ا ء کو انتی حقارت کے ساتھ کیوں دیکھا جاتا ہے ۔ چندہ کا لفظ جب مدرسہ سے جڑجاتا ہے تو اس کا مذاق اڑاناکیو ں شرع کردیا جاتا ہے ۔ حالاں کہ یہ یہی چندہ جب کسی اور ادارے سے وابستہ ہوتاہے تو اس کو بے پناہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ سیاسی پارٹیاں چند ہ کرکے پانی کی طرح انتخابی مہم میں اسے بہاتی ہے ۔اسکول والے ڈونیشن کے نام پر بڑی بڑی رقم گارجین سے لیتے ہیں ۔این جی اوز دن و رات چندہ اکٹھا کرنے میں ہی مصروف ہوتی ہیں ۔ مختلف طرح کے پروگرام ، جیسے جلسہ ، تعلیمی بیدار ی کانفرنس ، مشاعرہ، قوالی ، ڈانس بار اور دیگر پروگرام چندہ کرکے کئے جاتے ہیں۔ اخبارات والے بھی چندہ لینے کی تگ دو میں رہتے ہیں اور عوام ان سب مواقع پر خوشی بہ خوشی چندہ دیتی ہے لیکن جب یہی چندہ مدارس سے وابستہ ہوتاہے تو حکومت بھی مدارس کو قانی زدمیں لانے کی کوشش کرتی ہے عوام بھی نفرت آمیز رویہ اپنا تی ہے ۔ امراء بھی علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف مدارس اسلامیہ کو چندہ دینے سے کتراتے ہیں۔ جو کوئی دیتے ہیں و ہ دسیوں کڑوے جملے سنادیتے ہیں ۔ آنکھ بھوں چڑھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک گروہ ان جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا ہے جو مدارس کے چندہ کے خلاف عوامی سطح پر تحریک چلانے میں سرگرم ہے ۔ ان کی کوشش ہے کہ مدارس کو کسی طرح کا چندہ نہ دیا جائے ۔ زکوۃ کی رقم کا اہل مدارس کے غریب و نادار طلبہ کو نہ سمجھا جائے ۔
گذشتہ دنوں اسی طرح کا ایک واقعہ میں نے بذات خود مشاہدہ کیا ہے۔ دہلی کے ایک مدرسہ کے مہتمم ایک تاجر کے پاس بکار چندہ گئے ۔ مہتمم صاحب میرے دوستوں میں ہیں اور جن کے پاس گئے تھے وہ بھی میرے بچپن کے ساتھی ہیں اس لئے میں بھی مہتمم صاحب کے ساتھ گیا تاکہ ان سے ملاقات ہوجائے گی۔ نیز وہ تاجر صاحب ان کے قریبی دوستوں میں شامل ہیں لیکن جب ان سے مدرسہ کی رسید کٹانے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے پہلے کہاکہ ہم سے ابھی مت لیجئے بعد میں دیکھ لیجئے گا ۔ جواب میں انہیں کہاگیا کہ آپ رسید بنوالیں رقم بعد میں لے لیں گے گذشتہ مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی کیا تھااس جملے کے بعد لاجواب ہوکر انہوں نے اپنی دل کی بات کہی کہ اب ہم نے مدرسہ کی امداد کا دروزاہ بند کردیا ہے ۔ سال رواں سے کسی بھی مدرسہ والے کو ہم نے چندہ نہ دینے کا عہد کررکھاہے ۔ ان سے جب ہم نے پوچھا کہ پھر آپ اپنے زکوۃ کی رقم کسے دیں دیں گے تو انہوں نے کہاکہ ہم غریبوں کو دیں گے مدارس والے زکوۃ کے اہل نہیں ہیں ۔ان سے ملت کا کوئی بھی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ یقین دہائی بھی کرائی کہ ہماری دوستی برقرار رہے گی ۔ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
یہ حالات ہیں ۔مدارس کے اساتذہ اور سفراء کو چندہ کے لئے اس طرح کے ذلت آمیز مواقع سے گذرنا پڑتا ہے ۔ سب وشتم کے ماحول میں رہنا پڑتا ہے لیکن اس سب حالات کا سامنا کرنے کے باوجود قوت برداشت کا عظیم مظاہر ہ کرتے ہوئے اہل مدارس دینی تعلیم کو فروغ دینے میں روا ں دواں ہیں ۔ڈانٹ ڈپٹ سننے ، لوگوں کے برا بھلا کہنے، سب وشتم کے حالات کا سامنا کرنے اور حقارت آمیز نظروں سے دیکھے جانے سے لا پرواہ ہوکر اہل ثروت کی دہلیز پر پہنچتے ہیں ۔مدارس کی بقاکے لئے ان سے مدد کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ان کے زکوۃ و عطیات کی رقم لیتے ہیں کیوں کہ ان کا مشن علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت ہے ۔ اسلامی علوم وفنون کا بقا ہے ۔ ؑ قرآن کریم کی تعلیمات عام کرنا ہے ۔ قوم کے نو نہالوں کو اسلامی رنگ میں رنگنا ہے ۔مسلم فیملی میں جنم لینے والوں کو باعمل مسلمان بنانا ہے۔ ہندوستان میں اسلامی شناخت کو برقرار رکھنا ان کا دیرینہ خواب ہے۔ یہی ہے اغراض و مقاصد ہیں جس کے لئے وہ ہرطرح کی ذلت برداشت کرنے پر آمادہ رہتے ہیں ۔ در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔ پانچ منزلہ مکانوں پر تنگ زینہ ہونے کے باوجو د چڑھتے ہیں ۔ عوام الناس کی طعن وتشنیع کو نظر انداز کرکے چلتے ہیں۔کیوں کہ انہیں علماء معلوم ہے کہ دین کا کام ہر زمانے میں مشقت بھرا رہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ سے لے کر اب تک جن لوگوں نے بھی ملی مفاد کی خاطر کام کیا ہے انہیں اسی طرح کا حالات سے گذرنا پڑا ہے۔ کانٹوں بھرے راستہ سے گذر کر ہی دین کی خدمات انجام دی گئی ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے کہ ان حضرات نے دین کی خاطر کیسی کیسی مشقتیں جھیلیں ہے ۔ علماء ، سفراء اور اساتذہ کی انہیں عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان میں اسلام بلندو بالا ہے ۔مساجد آباد ہیں ۔ مکاتب اور مدارس زندہ ہیں ۔اسلام دشمن طاقتوں کی مسلسل ہورہی ریشہ دوانیوں کے باوجود اسلام کا بال بیکا نہیں ہوسکا ہے ۔اسلامی کلچر کا رواج ہے ۔ مذہبی اور اسلامی شعار اپنانے کا جذبہ ہنوزمسلمانوں کے دلوں میں برقرارہے۔مدارس کی خدمات کا جائزہ اگر ایک جملہ میں لیا جائے تو وہ یہ کہ ان مدارس نے ہندوستان کو اندلس بننے سے بچایا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس ان مقامات میں سرفہرست ہے جہاں زکوۃ و صدقات کی رقم کا صحیح استعمال ہوتا ہے ۔ اہل مدارس دو دو روپے جمع کرکے ملت کے لئے حفاظ اور علماء کی ٹیم تیار کرتے ہیں جو کل ہوکر ملت کا قیمتی سرمایہ بنتے ہیں ۔ان کی آخرت کو سنوارتے ہیں ۔ معاشرہ کی اصلاح کرتے ہیں ۔ مساجد و مکاتب کو آباد کرتے ہیں۔ ملک و ملت کو در پیش تمام مسائل سے نبر د آزما رہتے ہیں ۔ ہر محاذ پر ملی مفاد کی خاطر قربانیاں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف ہے کہ کچھ لوگ مولوی کی شکل اختیار کرکے فرضی رسیدیں چھپواکر چندہ کرتے ہیں۔ تو کچھ لوگ مولوی کا لباس پہن کر مدرسہ برائے دھندہ قائم کرتے ہیں لیکن کسی ایک دو کے اس طرح سے کرنے اور شاذ ونادر کے طور پر اس طرح کا واقعہ پیش آجانے کے بناپر نفس مدرسہ پر اس طرح کا الزام نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔ مدارس کی خدمات سے پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی ہے ۔جو لوگ اس طرح کے نادرو اقعات پر تمام مدرسوں کے حالات کو قیام س کرتے ہیں وہ کج فہمی کے شکار ہیں ۔ مدارس کے فوائد و ثمرات سے لاعلم ہیں ۔ دینی اداروں کی روشن تاریخ سے ناواقف ہیں ۔ اسلامی درس گاہوں کی خوبیاں ان تک نہیں پہچ سکی ہے ۔
مدارس کی اہمیت کل بھی تھی آج بھی ہے اور تاقیامت رہے گی۔اسی کی بدولت مسلمانوں کا شعار باقی ہے ۔ مذہب اسلام کی غیر ت و حمیت برقرار ہے ۔مسلم بچوں کو قرآن پڑھنا آیا ہے ۔ انہیں اسلام کی بنیادی تعلیم نصیب ہوسکی ہے ۔ مذہبی معلومات اور اسلامی تعلیمات سے وہ بحرہ ور ہوئے ہیں۔ان کے ذہن و دماغ اسلام کے تئیں حساسیت آئی ہے ۔ مذہب کی حفاظت اور اس کے فروغ کا جذبہ بیدار ہوا ہے ۔ سماجی اور اصلاحی افکار سے سرشار ہوئے ہیں۔ مدرسہ کو برا بھلاکہنا ، چندہ دینے کے نام پر احسان عظیم جتلانا، عوام کو مدارس کے خلاف ورغلانا اور من گھڑت الزام تراشی کرنا ایک بیمار معاشرہ اور زوال پذیر قوم کی علامت ہے ۔مسلمانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی ایک ناپاک سازش ہے لیکن ان سب کے باوجود مدارس کا سلسلہ جاری ہے ۔ بہی خواہان ملت کی ایک جماعت آج بھی موجود ہے جو مدارس کی دل کھول کر امداد کرتی ہے ۔ مدرسہ کی ترقی میں ہرطرح کا تعاون پیش کرتی ہے اور اس حقیقت پر قائم ہے کہ مدارس اسلام کا قلعہ ہیں ۔ جس دن یہ قلعہ منہدم ہوگا اسلام پر چو طرفہ حملہ شروع ہوجائے گا اور کوئی اس کا دفاع کرنے والا نہیں ہوگا۔
سچائی یہی ہے کہ مدارس ہندوستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں ۔ہندوستان کی آزادی انہیں مدارس اسلامیہ کی مرہون منت ہے ۔دنیا کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کا تعلق انہیں مدارس سے ہے جہاں چندہ کی رقم استعمال کی جاتی ہے ۔ اسی کی آغوش میں پلنے والوں نے ملت کی سربلندی کا کام انجام دیا ہے۔دنیا کو آج بھی انہیں سے توقع ہے اور آنے والے دنوں میں انہیں مدارس کے پروردہ ایک نئے انقلاب کی تاریخ رقم کریں گے۔
گوہواہے تند تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش حق نے جس کو دیئے ہیں انداز خسروانہ
جواب دیں