نیپال میں مسلمان…مولانا محمد خالد صدیقیجنرل سکریٹری جمعیۃ العلماء نیپال کا انٹرویو

انہوں نے مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی کی نگرانی میں سبیل السلام سے تخصص فی الفقہ کی تکمیل کی۔ انہوں نے بتایا کہ کٹھمنڈو نیپال کا دارالحکومت ہے‘ جو سب سے زیادہ متاثر ہے‘ مسلمان یہاں آباد ہیں مگر منتشر ہیں۔ یشتر کسب معاش میں آئے ہیں۔ کرایہ کے مکانات میں رہتے ہیں۔ 95فیصد مسلمان ترائی (نشیبی) علاقہ میں رہتے ہیں جو زلزلہ کے اثرات سے محفوظ ہے۔
زلزلہ سے متاثر گورکھا ضلع میں مسلمان آباد ہیں۔ انہیں نقصان ہوا۔ مجموعی طور پر مسلمانوں کا جانی نقصان کم مالی نقصان زیادہ ہوا۔ بعض دینی مدارس اور مکانات کی دیواریں گرنے سے کچھ مدارس کے طلباء زخمی ہوئے۔ گورکھا ضلع میں دو مسلمانوں کے مرنے کی اطلاعات ملی ہیں جن کی نعشیں اب بھی ملبہ میں دبی ہوئی ہیں۔ مولانا خالد صدیقی نے بتایا کہ مسلمان نیپال کے دور دراز علاقوں میں بھی ہیں‘ جہاں ابھی تک امداد و راحت رسانی کی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں۔ اسلامی سنگھ جمعےۃ العلماء کے علاوہ دوسری مسلم جماعتیں امداد پہنچانے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیپال میں مسلمان آبادی کا پانچ فیصد ہیں۔ زیادہ تر آبادی ترائی علاقہ میں ہے جو ہمالیہ کے چھوٹے پہاڑی علاقوں اور میدانی علاقہ کے درمیان ہے۔ یہ علاقہ ہندوستانی سرحدی علاقہ کے قریب ہے۔ سب سے پہلے کشمیری مسلمان 1484-1520 کے درمیان نیپال آئے۔ انہوں نے راجہ رام ملہ کے دربار میں بھی رسائی حاصل کی۔ مساجد تعمیر کیں اور دہلی سلطنت کے ساتھ رابطہ کا کام انجام دیا۔ خوشبو کے سوداگروں، موسیقاروں، چوڑیوں کے بیوپاری کے طور پر خدمات انجام دیں۔ تبت کے ساتھ تجارت کی۔ اِن مہاجرین کی نئی نسلیں کٹھمنڈوں کو منتقل ہوئیں۔ یہ نیپالی اردو بولتی ہیں۔ 1970ء کے اوائل میں کشمیری تاجروں کی کثیر تعداد کٹھمنڈو پہنچی۔ 1990ء میں کشمیر میں گڑبڑ اور انتشار کے دوران کافی تعداد میں کشمیری تاجر دستکاری، صنعتوں، قالین اور فر کے کاروبار کے ساتھ یہاں پہنچ گئے۔
نیپال میں مادیشی مسلمان بھی ہیں۔ مادیش ترائی کو کہتے ہیں۔ جو ذات پات کو زیادہ مانتے ہیں۔ ان میں سے بعض بین فرقہ جاتی شادیاں بھی کرتے ہیں۔ نیپالی مسلمانوں کا ایک اور گروپ جو شمالی ہند سے آکر یہاں بس گیا ہے وہ چوراٹ مسلم ہیں جو سولہویں اور سترہویں صدی کے دوران یہاں آباد ہوگئے ہیں۔ اِن میں اکثریت کاشتکاروں اور چوڑی فروش کی ہے۔ یہ گورکھا، تناہی، کاسکی، سیانگجہ، پالیا، ارگا، کھانچی، ہولقان اور دیلیکھ میں بستے ہیں۔
تبت اور لداخ کے مہاجرین کی بھی کثیر تعداد یہاں موجود ہے۔ نیپال میں ہزاروں مساجد اور سینکڑوں دینی مدارس ہیں۔ انہیں اگرچہ مذہبی آزادی حاصل ہے تاہم انہیں آئینی حیثیت نہیں مل سکی۔ ان کی مذہبی، دینی، ملی، ثقافتی شناخت کے تحفظ کو آئینی ضمانت ابھی تک نہیں مل سکی۔ نیپال پر اصل حکومت یا غلبہ برہمن سماج کا ہے جو خوشحال ہے۔ مسلمانوں کی طرح غیر مسلم آبادی بھی زیادہ خوشحال نہیں ہے۔ یہ بھی استحصال کا شکار ہے۔ مسلمان دلتوں سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ تاہم نیپال سے وہاں کے مسلمانوں کو محبت ہے اسے وہ جنت نظیر کہتے ہیں۔ مسلمان ہر شعبہ حیات سے وابستہ ہیں۔ سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ 406 ارکان پارلیمان میں 19مسلمان ہیں۔ ذاکر حسین، آفتاب عالم اور رضوان احمد مسلمانوں میں کافی مقبول ہیں۔ جمعیت العلماء نیپال کافی سرگرم ہے۔ راشٹریہ مسلم سنگھ تمام مسلم جماعتوں کا فیڈریشن ہے جو مشترکہ مسائل پر متحدہ جدوجہد کرتا ہے۔

«
»

بس کر الٰہی

عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے