ٹیگور کی ’’میری یادیں ‘‘اور فہیم انور۔۔۔ بحیثیت اردو مترجم

مذکورہ بالا خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فہیم انور نے رابندر ناتھ ٹیگور کی خود نوشت سوانح جیون شریتی (میری یادیں) کا بنگلہ زبان سے براہ راست اردو میں ترجمہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔حقیقتا ٹیگور کی جملہ تحریروں کی تفہیم کے لئے ان کی خود نوشت کلید کا درجہ رکھتی ہے ۔اس کتاب میں نابغۂ روزگار رابندرناتھ ٹیگور کے بچپن سے جوانی اور جوانی سے کبر سنی تک کے واقعات و سانحات کا بڑے ہی والہانہ انداز میں ذکر کیا گیاہے۔ان کا اسلوب بیان اور زبان کی چاشنی ‘ جملوں کی ساخت قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
واقعتا کسی بڑے فنکار کی سوانح حیات کو لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ قاری کو ایک عہد سے آشنا کرانے کا احسن کام انجام دے رہے ہیں اور اردو داں طبقے کو ٹیگور کے عہد سے روشناس کرانے کا یہ کام فہیم انور نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ بخوبی انجام دیا ہے۔دراصل یہ کتاب ٹیگور کی انسانی ہمدردی اور تخلیقی بصیرت کی ترجمان ہے نیز اردو داں حلقے کو رابندر ناتھ کی زندگی کے مختلف گوشوں نیز ان کے عہد کو سمجھنے کا ایک قیمتی موقع فراہم کرتی ہے ۔
اس کتاب کے مترجم فہیم انور کا تعلق غازی پور اتر پردیش سے ہے اور فی ا لوقت وہ کلکتہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ ایک شاعر‘ تخلیق کار اور ترجمہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔وہ کافی عرصے سے دور درشن کیندر کولکاتہ سے منسلک ہیں نیز انہوں نے ٹیگور کی نظموں کا بھی ترجمہ کیا ہے ۔اس کے علاوہ کرشن چندر کے متعدد ریڈیائی ڈراموں ‘ کئی رپورتاز کا ترجمہ کر کے اردو دنیا کو روشناس کرایاہے۔انھوں نے مولانا قاسم علوی کی کتاب ’’مقالات علوی ‘‘ کابھی بنگلہ میں ترجمہ کیاہے۔مختلف تنظیموں کے فعال کار کن اور ممبر کی حیثیت سے بھی ان کو جانا جاتا ہے۔
زیر تبصرہ کتا ب ’’میری یادیں‘’متعدد ابواب پر مشتمل ہے جس میں ٹیگور کی ابتدائی زندگی ‘ تعلیم و تربیت ‘ گھر اور باہر کا ماحول ‘ نظم گوئی کی ابتدا‘ مشق سخن ‘ ان کی حب ا لوطنی ‘ ولایت کا سفر ‘ ادبی دوست اور خاندانی شجرہ کے علاوہ ان کی 
(۲)
زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی مختلف النوع فنی و فکری جہات کا ذکر کیا گیا ہے۔
کسی کتاب کا ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا کام خوبی کے ساتھ تب تک نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک تخلیق کار کو ان دونوں زبانوں پر قدرت حاصل نہ ہو وہ جں کا وہ ترجمہ کرنے جا رہا ہے۔ فہیم انور کے اس ترجمے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہیں دونوں زبان پر یکساں طور پر عبور حاصل ہے۔ اس ترجمے کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اس میں خوبصورتی دلچسپی اور تسلسل کا حتی الوسع لحاظ رکھا ہے۔اس سلسلے میں وہ خٰود رقمطراز ہیں :
’’ترجمے کے دوران میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اسلوب بیان متغیر نہ ہو ‘ جملوں کی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے اور شیرنی برقرار رہے‘‘ 
ا س سلسلے میں اس کتاب میں اپنی ’دو باتیں‘ میں ڈاکٹر کوثر مظہری بھی فہیم انور کے مذکورہ بالا خیالات کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میری یادیں کے مترجم نے یہ اچھا کیا کہ ٹیگور کی اصل زبان کی اصل ساخت سے زیادہ چھڑ چھاڑ نہیں کی ۔اگر ترجمے میں Originality آ جائے تو یہ سمجھئے کہ قاری یا سامع اصل مصنف سے دور ہو گیا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ترجمے کو ہو بہو پیش کرنے میں۔کچھ ناہمواریاں در آ سکتی ہیں لیکن یہ قاری کی ذمہ داری ہے کہ اسے خلوص کے ساتھ قبول کرے ۔‘‘
ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت شعبہ اردو جامعہ نے مختلف پروگراموں ورکشاپ نیز تحریری مقابلوں کا انعقاد ٹیگور کے حوالے سے کیا ہے۔اسی سلسلے کی سب سے اہم کڑی ٹیگور کی تصنیفات کے اردو تراجم ہیں اور مذکورہ بالا کتاب بھی اسی کے تحت منظر عام پر آئی ہے۔
ٹیگور کی تحریروں میں جو بات سب سے زیادہ متاثر کن ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سوچا اسے 
من و عن قرطاس ابیض پراتارنے کی ہنر مندی ان کے اندر بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پروہ کولکاتہ کے جس مکان کی تیسری منزل پر رہتے تھے وہاں سے نیم تلہ شمشان گھاٹ صاف دیکھائی دیتا تھا ۔گھاٹ کی طر ف لوگوں کا ارتھی کے ساتھ ساتھ جانے اور بیچ بیچ میں ہری بول کے ابھرنے کا ذکر قارئین کو اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اس کے علاوہ ملازموں پر منحصر گھر کے قید و بند والے ماحول میں گھرے اپنے بچپن کا تذکرہ بھی قابل ذکر ہے۔فہیم انور نے ان تمام ذاتی حالات وکوائف کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بنگلہ زبان سے اردو کے سانچے میں ڈھالا ہے ٹیگور کے رفقاء میں راجندر لال مترا کی خورد نوازی ‘ بنکم چندر چٹرجی اور ایشور چند ودیا ساگر کے اذکار ‘ آشوتوش چودھری اور لوکین 
(۳)
پالت کی دوستی و ادب نوازی کا ذکر بھی اس کتاب کے خاص اجزاء ہیں۔
فہیم انور نے آخری صفحے پر ٹیگور کا خاندانی شجرہ بھی نسب کیا ہے ۔اس میں انکے پس رو کا تو تفصیلی ذکر ہے لیکن پیش رو کا تذکرہ نہیں ہے جوقاری کو تشنہ کر دیتا ہے۔ چونکہ ٹیگور کا تعلق اس خاندان سے تھا جہاں کا تقریبا ہرفرد اپنی مختلف النوع غیر معمولی صلاحیت کے لئے جا نا جاتا تھا۔ان کے والد بزرگوارکے سرہانے میں توحافظؔ کا دیوان ہوا کرتاتھا۔اس لئے فطری طور پر ایک قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ ٹیگور کے بعد والی نسل نے اپنے اسلاف کی اس روایت کی کس حدتک پاسداری کی ۔
مزید برآں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی بھی تصنیف کے منظر عام پرآنے کے بعد قاری کو ایک فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مصنف یا متر جم کے بارے میں بھی معلومات فراہم ہو ۔اس لحاظ سے فہیم انور کی اس کتاب میں ان کے ذاتی کوائف کا ذکر نہ ہوناایک ادھورے پن کا احساس دلاتا ہے۔میری اس سلسلے میں سبھی تخلیق کاروں سے گذارش ہے اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔
کتاب کی طباعت اچھی ہے اور کمپوزنگ کی کوئی فاش غلطی دیکھائی نہیں دیتی ہے۔مجموعی طور پر یہ ایک کامیاب کوشش ہے جو یقیناًقاری کو اپنی طرف متوجہ کریگی۔(

«
»

بس کر الٰہی

عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے