اجول نِکم کا شرمناک اعتراف

۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک ہندوستانی کی حیثیت سے ہم بھی انہیں ایک ہیرو مانتے اور سمجھتے چلے آ رہے تھے لیکن اُن کے ایک حالیہ بیان نے ہمیں اب تذبذب میں ڈال دیا ہے اور ہم خود سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے انہیں جو مرتبہ اور مقام دے رکھا ہے کیا وہ درست ہے؟ 
آ ئیے پہلے اجول نِکم کے بیان پر نظر ڈال لیتے ہیں ۔ جمعہ کے روز جے پور میں ایک کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد انہوں نے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے نامہ نگار عامرخان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ : میڈیا کو ایک ذمے دارانہ کردار ادا کرنا اور چوکس رہنا چاہیئے۔میڈیا نے اس (اجمل قصاب) کے آ نسوو ں کو بڑھا چڑھا کر اور ایک بَلی کے بکرے کی صورت میں پیش کیا، ایک نوجوان لڑکا ، جودرست نہیں تھا ۔ میڈیا کے اس شورشرابے کے بعد مجھے لگا کہ عوامی رائے میں تبدیلی آ رہی ہے ۔ اس لئے میں نے ایک بیان گڑھا اور کہا کہ قصاب نے مٹن بریانی مانگی ہے ۔ یہ بیان صرف عوام کی سوچ کو بٹانے کے لئے تھا۔ اجول نِکم نے صاف لفظوں میں کہا کہ اجمل قصاب نے نہ ہی تو کبھی مٹن بریانی مانگی تھی اور نہ ہی کبھی اسے مٹن بریانی دی گئی تھی۔ 
اب اجول نِکم کے مذکورہ بیان کے بعد یہ بتاتے چلیں کہ ان کے بیان نے ایک پختہ عوامی رائے کے قیام میں سب سے موثر کردار ادا کیا، یہ رائے کہ انہیں مٹن بریانی کیوں کھلائی جائے کیوں نہ پھانسی پر لٹکادیا جائے ۔ اور واضح رہے کہ ہندوستان میں عدالتوں کے بہت سے فیصلے عوامی رائے اور ضمیر کی آ واز کے نام پر کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ اب تو فیصلے لوگوں کی دھارمک شردھا کے نام پر بھی کئے جانے لگے ہیں ۔ عدالت نے عوامی رائے کو قبول کرتے ہوئے قصاب کو پھانسی کی سزا دی اور ایک روز قصاب کو پھانسی پر لٹکادیاگیا ۔ ویسے ہم یہ مانتے ہیں کہ قصاب پھانسی ہی پر چڑھنے کا سزاوار تھا۔ کسی ملک کی آ زادی پر حملہ کرنے اور لوگوں کو جان سے مارنے کی سزا موت کے سوا کچھ ہوبھی نہیں سکتی تھی۔ اجول نِکم جھوٹ بولتے یا نہ بولتے عدالت قصاب کو پھانسی ہی کی سزا سناتی بس ہوتا یہ کہ اجول نکم کی غلط بیانی سے بننے والے ماحول سے عدالت نے سزا کا فیصلہ کرنے میں کچھ جلدی کردی، اگر بیان نہ آتا تو سزا شاید کچھ تاخیر سے سنائی جاتی ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ اجول نِکم کو ایک ایسے معاملے میں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی جس میں انہیں جلد یا دیر کامیابی ملنا ہی تھی؟ انہوں نے جو بیان دیا ہے اس نے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیایہ ممکن نہیں اُجول نکم نے ایسے ہی غلط بیانات دے کر مزید مقدمات میں بھی عوامی رائے تبدیل کرنے اور عدالت کو ایک غلط سمت میں ڈالنے کی کوشش کی ہو؟ اجول نِکم کے اعتراف نے جسے ہم شرمناک ہی قرار دیں گے ان کی کامیابیوں پر بھی اور ان کے جیتے ہوئے مقدموں پر بھی بشمول اجمل قصاب اور ممبئی کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمے پرایک سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ یہ اعتراف اس لئے بھی افسوسناک ہے کہ یہ انصاف کے لئے جھوٹ بولنے کے جواز کو درست قرار دیتا ہے جبکہ انصاف کی فراہمی کی اصلی بنیاد یہ ہے کہ بھلے سومجرم چھوٹ جائیں مگر کسی بے قصور کو سزا نہ ملے یعنی یہ کہ جھوٹ کی بنیاد پر کسی بے قصور کو سزا دلانے کی کوشش نہ کی جائے۔۔۔ ایک قانون دان کے لئے سب سے بڑا ہتھیار سچ اور حقیقت بیانی ہوتی ہے لیکن افسوس کہ اجول نِکم نے یہی فراموش کردیا تھا۔ 

«
»

میں اسے کیا جواب دوں؟

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے