ان دو حضرات نے نہ صرف پوری ایمانداری سے اردو صحافت کی خدمت کی بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اردو زبان اور املے میں اہم اور دور رس تبدیلیاں کرکے اسے عالمی معیار کا بھی بنایا۔ دونوں قومی آواز کے بانیوں میں سے تھے اور اسے بام عروج پر پہنچانے میں دونو ں کا خون جگر شامل تھا۔ قومی آواز کی خصوصیت صرف یہ نہیں تھی کہ وہ کثیر الاشاعت تھا بلکہ اس کی معتبریت اس کا سب سے بڑ اثاثہ تھی۔ بیشک یہ اخبار پنڈت جواہر لال نہرو نے جاری کیا تھا اس وجہ سے اس کی پالیسی کانگریس نواز تھی لیکن کانگریس کی حمایت میں اس نے کبھی حد اعتدال کو نظر انداز نہیں کیا یا ایسا نہیں کیا تھا کہ مخالفین کی خبروں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے ۔ کوئی سیاسی پارٹی یا کوئی ثقافتی مذہبی تنظیم یہ شکایت نہیں کرسکتی تھی کہ قومی آواز میں اس کی خبریں شائع نہیں ہوتیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ کس کی خبر کس صفحہ پر شائع ہوگی یہ فیصلہ شعبہ ادارت کا اختیار تھا اور اسی حساب سے خبریں شائع ہوتی تھیں۔ عشرت صاحب نے اس معاملہ میں ہمیشہ نہ صرف خود اعتدال پسندی کا ثبوت دیا بلکہ اپنے ماتحت عملہ کو بھی اس پر کاربند رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ یہ عشرت صاحب کا ہی دم خم تھا کہ ایمر جنسی کے تاریک دور میں پوری مدت یعنی تقریباً ڈیڑھ سال تک اخبار میں سنجے گاندھی کی فوٹونہیں شائع ہوئی تھی حتی یہ کہ ان کی فوٹو والا اشتہار شائع نہیں کیا گیا تھا۔ انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عثمان صاحب مرحوم کے دور ادارت میں جب بابری مسجد شہید ہوئی تو قومی آواز کا صفحہ اول پورا سیاہ شائع ہوا تھا حالانکہ مرکز میں کانگریس برسراقتدار تھی ۔
حیات اللہ انصاری کی طرح عشرت صاحب بھی پکے گاندھیائی تھے ۔ کھدر کی شیروانی اور کرتہ پائجامہ صرف ان کا لباس ہی نہیں تھا بلکہ مزاج میں بھی ویسی ہی سادگی تھی اور ویسی ہی سادگی کی تلقین وہ اپنے ماتحت عملہ کو بھی کرتے رہتے تھے۔ وہ اخبار کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے شعبہ ادارت کے افسر اعلیٰ تو تھے ہی لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کا رویہ خاندان کے بزرگ والا تھا۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ اور سختی میں بزرگانہ شفقت عیاں رہتی تھی ۔ جسے وہ جتنا ڈانتے تھے وہ خود کو ان سے اتنا ہی قریب سمجھتا تھا وہ اپنے ماتحتوں کی تربیت ایک مشفق استاد کی طرح کرتے تھے۔ اس زمانہ میں اردو خبر رساں ایجنسی شروع نہیں ہوئی تھی انگریزی کی خبریں اردو میں ترجمہ ہوتی تھیں ترجمہ کے دوران اگر کبھی کوئی بات یا کسی لفظ کے معنی اور استعمال کے سلسلہ میں ان سے مدد لی جاتی تھی تو وہ پورا منظر پس منظر سمجھادیتے تھے۔ اس طرح معلومات عامہ کے سلسلہ میں وہ اکثر جنرل ڈیسک پر آکر ایک سخت گیر استاد کی طرح سوال پوچھ بیٹھتے تھے جس کا جواب صرف جونیئر عملہ کو دینا ہوتا تھا اور اس کے بعد وہ خود ہی پوری تفصیل سمجھادیتے تھے کہ پھر بھولنے کا سوال ہی نہیں۔ قومی آواز کے سینئر عملہ میں عشرت صاحب، عثمان صاحب، بابا فاروق انور مرحومین اور اختر یونس قدوائی، محمد حسن معلومات کا خزانہ یا چلتی پھرتی انسائیکلو پیڈیا تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ سب اپنی معلومات کے اس خزانہ کو دل کھول لٹاتے بھی تھے۔
قومی آواز کی اشاعت تقسیم وطن کے المیہ کے ماحول میں ہوئی تھی۔ اس کی اشاعت کے پس پشت پنڈت نہرو کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں میں متحدہ ہندوستانی قومیت پر اعتماد بحال کرنا تھا تاکہ وہ مسلمان جو پاکستان نہیں گئے ہیں اور جنہوں نے ہندوستان کے سیکولر جمہوری نظام پر اعتماد کیا ہے ان کا اعتماد متزلزل نہ ہو اور وہ بھی دیگر برادران وطن کے ساتھ مل کر نئے ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور اس ترقی کے ثمر سے مستفید بھی ہوں۔ اس دور میں ایک طرف آر ایس ایس کی فرقہ پرستی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کررہی تھی تو دوسری جانب مسلم لیگ کے بچے کھچے لوگ اور اس کی ذہنیت کے عناصر مسلمانوں میں بد اعتمادی پھیلاکر ان پر دوہری مار کررہے تھے خود کانگریس بھی اعتدال پسند اور سخت گیر یا بائیں بازو اور دائیں بازو کے عناصر میں منقسم تھی لیکن جواہر لال نہرو کی شخصیت کے آگے دائیں بازو کے عناصر اپنی مرضی چلا نہیں پارہے تھے لیکن وقتاً فوقتاً پیٹھ میں چھری ضرور گھونپ دیتے تھے فرقہ وارانہ فساد دونوں طرح کے عناصر کا کارگر حربہ تھا لیگی ذہنیت کے لوگو ں کو مسلمانوں کو ورغلانے اور سنگھیوں کو انہیں مارنے کا موقع مل جاتا تھا۔ قومی آواز کو اسی ماحول میں متحدہ ہندوستانی قومیت پر اپنے قارئین خصوصاً مسلمانوں کا اعتماد بحال رکھنے کی لڑائی لڑنی پڑرہی تھی ۔ حیات اللہ انصاری اور عشرت علی صدیقی نے یہ لڑائی پوری بہادری اور ایمانداری سے لڑی انہیں اپنوں نے بھی زخم دےئے اور غیروں نے بھی۔ حیات اللہ صاحب پر تو باقاعدہ قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا لیکن دونوں عظیم صحافیوں نے قوم اور ملک کے عظیم تر مفاد میں کبھی اس لڑائی میں پیٹھ نہیں دکھائی۔
عشرت صاحب کو پدم شری سمیت نہ جانے کتنے ایوارڈ ملے تھے۔ تقریباً سبھی ریاستی اردو اکادمیوں نے بھی انہیں اعزاز سے نوازا تھا۔ حالانکہ ان کی شخصیت ان تمام ایوارڈوں سے بلند تر تھی۔ انہوں نے جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی وغیرہ کے ساتھ کئی غیر ملکی دورے بھی کئے تھے۔ عشرت صاحب کی موت جدید اردو صحافت کا ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن انہوں نے اردو صحافیوں کی جو نسل تیار کی ہے وہ کئی اخباروں اور یونیورسٹیوں میں ان کا نام روشن کررہی ہے
جواب دیں