جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا

مولانا طارق شفیق ندوی
نائب ناظم ، دارالعلوم فیض محمدی
مہراج گنج ، اترپردیش

مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی نائب ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور کاروان رفتہ میں شامل ہو گئے ، نہ جانے کتنے ادارے سنسان ، کتنے میکدے ویران اور خم و ساغر اداس ہو گئے ، مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے . واقعہ یہ ہے کہ مولانا مرحوم ایک بھری دنیا کو سوگوار کر گئے ، ولا نقول الا ما یرضی بہ ربنا وانا على' فراقك لمحزونون .
 رہنے  کو  سدا  دہر  میں  آتا  نہیں  کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
نجیب الطرفین خانوادہ علم اللہی کے چشم و چراغ مولانا سید محمد حمزہ حسنی 1950 میں پیدا ہوئے تھے ، دعا و مناجات کے شاعر ، ترانہ ندوہ کے تخلیق کار ، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن شوری' مولانا سید محمد ثانی حسنی  ( وفات 16 /فروری 1982 ) رحمہ اللہ کے اکلوتے فرزند تھے. ان کی والدہ ماجدہ بی بی سیدہ خدیجہ تھیں جو سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی ( وفات 07 / مئی 1961 ) رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھیں . مولانا حمزہ اپنے والدین کی تمناؤں اور آرزؤں کے مرکز تھے چنانچہ وہ نیک روحیں ہمیشہ اپنے وارث و جانشین کے لئے  مستجیب الدعوات رب کائنات سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگتی رہتی تھیں کہ
یا رب  دل حمزہ کو  ایمان ویقین سے بھر
عرفان  محبت  دے  ،  مالک  اسے  اپنا  کر 
دے صدق وصفا اسکو اور علم میں یکتا کر
حمزہ  ہے  میرا  لڑکا ،  میرا  ہے  جگر  گوشہ
علماء ، صلحاء کے فیض یافتہ مولانا حمزہ حسنی ندوی ایک جہاں دیدہ شخصیت حضرت مولانا علی میاں ( وفات31/ دسمبر 1999 ) نور اللہ مرقدہ اور ایک کریم و شفیق ، جاں سے زیادہ عزیز خسر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی مدظلہ العالی کے تربیت یافتہ تھے.
مولانا علی میاں کے تو بہت ہی چہیتے تھے ہمیشہ اپنے سے قریب رکھتے تھے ، خصوصی نگہداشت اور حکمت کے ساتھ ان کی صلاحیت و صالحیت کو نکھار رہے تھے ، مستقبل کے واضح امکانات کے پیشِ نظر ان کے علم و عمل میں سنجیدگی ، فکر و شعور میں بالیدگی پیدا فرما رہے تھے اور انتظامی لیاقت و قابلیت کو پروان چڑھا رہے تھے ، مولانا حمزہ آنکھوں سے ذرا دیر کے لئے بھی اوجھل ہوجاتے تو بے چین ہو جاتے ، الجھن میں پڑ جاتے .
مولانا رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور تھے ، معتمد و مشیر تھے اور بے لوث رفیق کار اور شریک کار تھے ، خلیفہ و مجاز تھے اور مجلس تحقیقات و نشریات کے سکریٹری تھے ، جن کی وجہ سے مولانا رابع حسنی صاحب مختلف النوع افکار و احوال سے آزاد تھے لیکن ان کے سانحہ وفات سے ٹوٹ پھوٹ سے گئے اور پے در پے حادثات و مسلسل اموات نیز ایک بیمار ذہن کے لغویات و خرافات سے اس پیرانہ سالی اور ضعیف العمری میں گھر گئے ، ان ناگفتہ بہ حالات کی عکاسی و ترجمانی کرنے سے بندہ ناچیز عاجز و قاصر ہے. لیکن مایوس و ناامید نہیں ہے کیونکہ اللہ کی ذات حامی و ناصر ہے.
غزالہ تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ ہو گیا رخصت تو ویرانے  پے کیا گزری
فاضل ندوہ مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی نے دارالعلوم دیوبند سہارنپور کے مایہ ناز اساتذہ سے بھی استفادہ کیا اور وہاں سے فن حدیث میں اختصاص کیا ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی فیض حاصل کیا اور ان کے أرادت مندوں میں اپنا نام درج کرایا . 1976 میں مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی بڑی دختر بی بی سیدہ میمونہ حسنی سے عقد ہوا اور فکر معاش کے لئے اپنے والد کی قائم کردہ دارالاشاعت مکتبہ اسلام کو اپنی دلچسپی کا محور بنایا ،  1982 کے بعد خواتین کا ماہ نامہ رسالہ رضوان کی اشاعت و مقبولیت میں معتد بہ اضافہ کیا ، ڈاکٹر محمد عبد الجلیل فریدی ( وفات 1974 ) کی سیاسی پارٹی مسلم مجلس ( قیام 1968 ) کے پلیٹ فارم سے میدان سیاست میں حصہ بھی لیا ، چونکہ خار زاروں سے گزر کر یہ ڈگر جاتی ہے اور کچھ اپنی طبعی میلان کی وجہ سے بہت جلد قدم کھینچ لیا ، 1984 میں مولانا محمد ثانی حسنی میموریل ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی قائم کی اور اس کے تحت جامعہ ام المومنین عائشہ للبنات ، مدرسہ سید احمد شہید لتحفیظ القرآن ، صفیہ بانو اسکول کی بنیاد رکھی ، ملی و تعلیمی ، سماجی و رفاہی کاموں میں نمایاں دلچسپی لی اور دیگر تحریکات و تنظیمات کو بھی تقویت پہنچائی اس طرح ان کی زندگی کا مقصد دین کی سرفرازی قرار پائی اور ان کے والدین کی آہ سحر گاہی قبول ہوئی .

حمزہ ہے تیرا بندہ ، محتاج ترے در کا
تو اس پر کرم اپنا اے مالک و مولا کر

راقم الحروف 1993 تک مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی سے کم کم واقف تھا ، تین چار بار خانقاہ تکیہ رائے بریلی جانا بھی ہوا تو دل کسی طور ان کی طرف مائل نہ ہوا اور ملاقات کا شرف حاصل کئے بغیر چلا آیا ، لیکن جب آل انڈیا ملی کونسل مشرقی اترپردیش کا آرگنائزر بنا تو ملی و سماجی کاز کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوا اور متعدد بار مکتبہ اسلام امین آباد میں ملنا ہوا ، اندازہ ہوا کہ یہ ایک عام ، سادہ اور انتہائی کم آمیز انسان ہیں ، دل اب بھی نہ کھینچا ان کی جانب پر ان سے مشورہ لیتا رہا اور ملی کونسل کا ممبر بنا لیا اس کے باوجود ان کے اندر کی گہرائی و گیرائی کو پا نہ سکا اور ان کی ذات و شخصیت کو سمجھ نہ سکا.

کوئی  لگا  نہ  سکا  اس کے قد کا اندازہ
وہ آسماں تھا مگر سر جھکا کر رہتا تھا

1999 میں مولانا محمد حمزہ حسنی کو ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی میں شامل کیا گیا اور 2000 میں ندوۃ العلماء لکھنؤ کے معتمد تعلیم اور نشاط کار شخصیت ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لئے ایک نیا عہدہ ناظر عام کا ایجاد کیا اور اس پر ان کو باصرار براجمان کر دیا. 2006 میں ندوہ کا ترجمان تعمیر حیات کا بھی نگراں مقرر کیا گیا پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کایا پلٹ گئی ، خوبیاں اجاگر ہونے لگیں ، اب وہ ایک عام آدمی نہیں تھے ، خاصان خاص تھے ، ندوہ کی دھرتی کے آسمان تھے ، اب ان کی ذات و شخصیت لکھنؤ کی چہار دیواری میں مقید اور ہندوستان تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ عالم اسلام کے مشہور و معروف ادارے کے فعال سربراہ تھے ، بااختیار حاکم وقت تھے ، تمام حرکت و عمل کے لئے ان کی منظوری لازمی اور ضروری تھی . کامیابی آگے بڑھ بڑھ کر قدم چوم رہی تھی اور مناصب کی ذمہ داریاں بھی آداب زندگی اور عشق خلیل کو جلا بخشتی جا رہی تھیں . زندگی جہد مسلسل اور تگ و تاز سے عبارت ہونے لگی تھی ، ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی اسپتال ، جدید درسگاہیں ، مسجد کی تزئین و توسیع ، رواق ابو الحسن علی ندوی ، اور رواق محمد علی مونگیری کی تعمیر اپنی نگرانی میں کرائی اور ندوہ کے ارباب حل و عقد نے ان کی محنت و جفاکشی ، خود اعتمادی و ثابت قدمی پر مہر ثبت کردی اور اس طرح ان کی زندگی قابل رشک بنتی چلی گئی.
مولانا سید محمد حمزہ حسنی 2018 میں ندوۃ العلماء کے نائب ناظم منتخب ہوئے تو ان کے ساتھ راقم الحروف کے مراسم بھی بڑھے ، وہ میرے والد مولانا شفیق الرحمن ندوی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد تھے ، جس کا بڑا پاس و لحاظ رکھتے اور برادرانہ تعلقات نبھاتے ، اکثر دولت کدہ پر کھانے کی دعوت دیتے اور ہر بار میری طرف سے معذرت پر ناراضگی کا اظہار کرتے تھے. 2020 آتے آتے قربتیں مزید بڑھ گئیں ، کھل کر ملاقاتیں ہونے لگیں ، دل کی باتیں کہی اور سنی جانے لگیں اور مت پوچھئے وقت رخصت کا عالم !

میری  آنکھوں  میں  آگئے  آنسو
میں نے جب بھی کہا خدا حافظ 

ایک مرتبہ انہوں نے ندوہ کے قیام گاہ پر ملنے کی خواہش ظاہر کی ، حاضری پر بہت تپاک سے ملے ، مبارکباد دی کہ " آپ نے سوشل میڈیا پر بہت مضبوطی سے محاذ سنبھال رکھا ہے اور ندوہ کے موقف کی صحیح ترجمانی کر رہے ہیں ، میں نے آپ کی تمام تحریروں کو پڑھا ہے اور اپنے ملنے والوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ مولوی طارق شفیق نے تو حق ادا کر دیا." میں نے کہا کہ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے . پھر چند اہم امور پر مختصر مگر کار آمد باتیں ہوئیں اور چلتے وقت از راہ محبت اپنی مندرجہ ذیل کتابیں ھدیہ کیں ، 

سیرت امہات المؤمنین 
تذکرہ صحابیات 
تذکرہ سیرت سید احمد شہید 
اس حسن اخلاق کا اثر یہ ہوا کہ اپنا دل ان کے پاس چھوڑ آیا.
الہٰی  ایک  دل  ہے  تو  ہی  اس  کا  فیصلہ کر دے 
وہ اپنا دل سمجھتے ہیں ہم اپنا دل سمجھتے ہیں

ماہ اپریل 2020 میں مولانا حمزہ حسنی کا تبلیغی جماعت پر بیان اور ندوہ کے منڈیروں پر چراغاں کو لے کر جب بڑا واویلا مچایا گیا تو ناچیز نے دونوں پر اپنا ذمہ دارانہ پریس نوٹ جاری کیا اور معاملہ تھم سا گیا ، اس پر انہوں نے میری جم کر تعریف اور حوصلہ افزائی . دونوں تحریریں یہاں پیش کی جا رہیں ہیں. 
" مولانا طارق شفیق ندوی صدر آل انڈیا ملی کونسل مشرقی اترپردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کل مورخہ 02 / اپریل 2020 کو ندوۃ العلماء لکھنؤ کے نائب ناظم مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی مدظلہ نے ایک معتدل ، متوازن اور حکیمانہ بیان جاری کیا تھا ، جس میں حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے انھوں نے تبلیغی جماعت کے سلسلہ میں رونما ہونے والے حالات کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا تھا اور بڑے تجربہ کے ساتھ حکیمانہ انداز میں اپیل  کی تھی کہ سبھی لوگ اس تنازع کے خاتمہ کے لئے متحد ہوں . اس بیان میں یہ بھی وضاحت تھی کہ '' تبلیغی جماعت کا ندوہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کا کوئی ممبر یہاں نہیں ہے.'' بس پھر کیا تھا گھات میں بیٹھے اغیار کو موقع ہاتھ لگ گیا ، بیمار ذہن کے افراد پر ہسٹیریا کا دورہ پڑنے لگا ، آستین کے سانپ باہر نکل آئے اور کمین گاہیں سج گئیں .
میرا ان طالع آزما لوگوں کو مشورہ ہے کہ وہ ندوہ کے قیام کے بنیادی مقاصد کو ازسر نو پڑھیں تاکہ انھیں معلوم ہو کہ روز اول ہی سے ندوہ کا رشتہ تبلیغی جماعت ( سن قیام 1926 ) سے ضابطہ کا نہیں رہا ہے . اس کے باوجود یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف کا تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے ہمیشہ گہرے تعلقات رہے ہیں . آج بھی ہمیں اس کی افادیت اور نافعیت سے انکار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے فضلاء اور طلباء تبلیغی جماعت میں سرگرم وابستگی رکھتے ہیں .
اتحاد ملی اور اخوت اسلامی کے جذبات کو فروغ دینا نیز نزاع باہمی کا خاتمہ ہمارے اولین مقاصد میں سے ہیں اس لئے ہم ہر خیر کا تعاون کرتے ہیں اور ان سے رشتہ ہموار رکھتے ہیں . ہم تمام دینی جماعتوں اور تحریکوں کو اپنا حریف نہیں بلکہ حلیف سمجھتے ہیں . اس اخلاقی رابطہ کو کوئی ضابطہ کا رشتہ سمجھ بیٹھے تو قصور ندوہ کا نہیں خود اس کا ہے . 
جو لوگ ندوہ کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں وہ اس بات کو ذہن نشیں کر لیں کہ ندوہ تبلیغی جماعت کا کوئی مدرسہ نہیں ہے بلکہ ایک مستقل مکتب فکر اور تحریک ہے . اس کی اپنی شناخت ہے . اس کے ساتھ عالمی شہرت کا ایک دارالعلوم ہے جو اہل علم اور اصحاب فکر و دانش کا گہوارہ ہے.      ( 03 /04 / 2020 )

بہی خواہان ندوہ سے مخلصانہ اپیل
 کل عالمی شہرت یافتہ ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ  میں پیش آنے والے ایک انہونی واقعہ سے پوری دنیا میں فطری بے چینی پائی گئی اور اضطراب کا سلسلہ جاری ہے . یہ معاملہ اب تحقیق و تفتیش کے مرحلہ میں آگیا ہے . ایسے کسی موقع پر نہ زخموں کو کریدا جاتا ہے نہ آگ میں تیل ڈالا جاتا ہے اور نہ ہی اپنی کسی قسم کی بھڑاس نکالی جاتی ہے ؛ بلکہ انتہائی سنجیدگی سے مسئلہ کا ہمدردانہ حل ڈھونڈا جاتا ہے ، تدارک کی کوشش کی جاتی ہے اور اٹھنے والے فتنہ کے سد باب کے لئے مخلصانہ لائحہ عمل پیش کیا جاتا ہے. ہمیں امید ہے کہ ملکی تناظر میں آپ لوگوں کی خاموشی ماحول کو ساز گار بنانے میں ممدد و معاون ثابت ہوگی اور آپ اجر عظیم کے مستحق قرار پائیں گے. 
ملک کے حالات آپ کے علم میں ہیں ، مزید ابتر سے ابتر ہونے کے خدشات ہیں ، مساجد و مدارس نشانہ پر ہیں ، ایسے میں ندوہ کو ایک ترجمان کی ضرورت ہے ، جس کے اندر عالمانہ بصیرت و دور رسی ہو ، مفکرانہ بصارت و دانشوری ہو ، صحافت و ترجمانی کی اچھی صلاحیت ہو ، ندوہ کے منہج اور موجودہ ذمہ داران کے عندیہ سے واقف ہو اور جو حکومت کے منشا اور پالیسی پر گہری نگاہ رکھتا ہو ، ساتھ ہی میڈیا کے شر انگیز سوالات کا منھ توڑ جواب دینے کی جرأت رکھتا ہو. 
طارق شفیق ندوی  06/04/2020
میں ندوہ ہر ماہ جاتا اور ہر بار مولانا محمد حمزہ حسنی سے ملتا ، اس میں ان کی وارفتگی اور استاذ گرامی مولانا عبدالعزیز صاحب بھٹکلی ندوی حفظہ اللہ کی تاکید کا بڑا دخل تھا. مارچ 2021 میں ناچیز ندوہ میں داخل ہو رہا تھا اور مولانا حمزہ حسنی صاحب گاڑی سے کہیں باہر تشریف لے جارہے تھے ، مجھ پر نظر پڑی تو گاڑی سے اتر پڑے ، مجھے شرمندگی ہوئی ، میں نے کہا یہ کیا کیا آپ نے! واللہ ظلم ہے ، سینے سے لگا لیا اور فرمایا استاذ زادے! یہ محبت ہے پیارے ، دیکھو! میں ایک ضروری کام سے شہر جارہا ہوں ، جلد لوٹوں گا ، مجھ سے ملے بغیر واپسی کا پروگرام مت بنانا ، تنہائی میں کچھ تبادلۂ خیال کرنا ہے.
حکم بجا لایا اور والد مرحوم کے مضامین کا مجموعہ "متاع ذکر و فکر" کے ساتھ ان کے خلوت در انجمن پہنچا تو غیر معمولی خوشی کا اظہار کیا ، فرمایا اس کا تو مجھے انتظار تھا ، آپ نے بڑا اچھا کام کیا ، ممکن ہو تو مکاتیب شفیق کی اشاعت کا بھی اہتمام کیجیے ، مزید فرمایا کہ میں نے آپ کی شادی کی مسحور کن داستان بھی پڑھی ہے ، الفاظ کی رعنائی ، اسلوب کی دلکشی اور ادبی چاشنی سے محظوظ ہوا ہوں اور صحیح معنوں میں آپ کے ادبی ذوق اور فطری صلاحیتوں سے واقف ہوا ہوں . اس کے بعد رسم وفا کی بات چلی ، فرمایا کہ ناظم صاحب آپ کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں ، آپ کا ذکر خیر کرتے ہیں ، آپ کو ندوہ کا مستقبل سمجھتے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ آپ سے کچھ کام لیا جائے ، کیا آپ کوئی ذمہ داری قبول کریں گے ؟ میں نے کہا ، مادر علمی کی خدمت کو سعادت و عبادت سمجھتا ہوں ، جو کام بھی سپرد کیا جائے گا بندہ اسے احسن طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کرے گا. آپ کو شوریٰ کا ممبر بنانے کی بات چل رہی ہے ، اتنا سننا تھا کہ بےساختہ زور زور سے نہیں نہیں چلا پڑا کہ رسوائے زمانہ کے لئے یہ وقت مناسب نہیں ہے ، مولانا نے فرمایا گرد و غبار چھٹ چکے ہیں ، حقائق واضح ہو چکے ہیں ، میں نے کہا دو لوگ ابھی بھی زندہ ہیں جن کا کوئی معیار و سطح نہیں ہے ، ہنس پڑے کہ وہ ستم نہ ڈھائیں تو کیا کریں انہیں کیا خبر کہ وفا ہے کیا اور پھر یہ شعر پڑھا

وہ ستم کی حد سے نکل گئے ، تم وفا کی حد سے گزر گئے 
تری  زلف  اور  سنور  گئی  ،  ترا  حسن  اور  نکھر  گیا

آپ تو حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ ہیں ، اور بہ یک وقت کئی منصب اور عہدوں پر فائز ہیں ، آپ کا دائرہ وسیع ہے ، آپ کی ذات سے ندوہ کو فائدہ پہنچنے کی امید ہے ، یہ ان کی ذرہ نوازی تھی ، پر راقم کسی صورت تیار نہ ہوا ، البتہ ان کی خورد شناسی ، خورد پروری اور تعلقات کی اثر انگیزی کا قائل ہوا اور متعدد الفکر و مختلف المزاج لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی وافر مقدار میں ان کے اندر موجود صلاحیت کا اندازہ لگایا. 
11 اپریل 2021 کو ان سے آخری ملاقات رہی ، مسلسل صحت کی خرابی اور تشویشناک بیماری کی خبریں آ رہی تھیں ، اخلاقی تقاضا تھا کہ عیادت ومزاج پرسی کے لئے سفر کیا جائے ، اسٹیشن پر برادر عزیز و رفیق مولانا نجیب الحسن صدیقی ندوی کو منتظر پایا اور ان کے ساتھ سیدھے اسپتال پہنچا ، خیال تھا کہ پانچ منٹ میں خیریت دریافت کر کے لوٹ آؤں گا لیکن دو گھنٹے سے زائد کی طویل نشست ہو گئی ، ڈاکٹرز آتے اور جاتے رہے ، اس درمیان اٹھنا چاہا تو اٹھنے نہ دیا ، بار بار بیٹھنے پر مجبور کیا اور چائے کے لئے اشارہ بھی کر دیا ، چائے بہت دیر میں آئی ، ان کے فرزند سعید میاں  نے بتایا کہ آج بہت دنوں بعد والد صاحب اس قدر ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں ،  اس لئے آپ لوگ بیٹھیے ، ہماری چٹ پٹی باتوں اور انداز گفتگو پر اٹھ اٹھ کر بیٹھ جاتے اور ان کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہو جاتی . کمال تھا دیوانہ کا کہ مرض الموت میں بھی اسے ندوہ کی فکر ستا رہی تھی ، ندوہ اس کے رگ و ریشہ میں بسا ہوا تھا ، اور کچھ کر گزرنے کا سودا اس کے دماغ میں سمایا ہوا تھا ، میں نے آخر میں کہا کہ مولانا آپ اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتے ، آرام نہیں کرتے اور اپنی راحت جاں سے ملاقات نہیں کرتے ، اللہ اس پر بھی آپ سے سوال کرے گا اتنے پر آبدیدہ ہو گئے ، فرمایا کہ ندوہ کے کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ کسی دوسری جانب توجہ دوں ، آپ نے سچ کہا آئیندہ اس کا خیال رکھوں گا. میں نے عرض کیا کہ اب آپ جمعرات کو بعد نماز ظہر رائے بریلی کے لئے روانہ ہوں گے ، اور رائے بریلی سے سنیچر کو بعد نماز فجر ندوہ کے لئے واپس ہوں گے ، اس طرح تھکاوٹ بھی دور ہو جائے گی ، طبیعت میں نشاط و فرحت بھی محسوس کریں گے اور پوری تقویت کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو انجام دیں گے. 
یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مولانا رائے بریلی کا سفر عام بس سے کرتے ہیں ، میں نے مولانا نجیب الحسن صدیقی ندوی سے کہا ، نجیب بھائی ،  رائے بریلی آمدورفت کے گاڑی کا انتظام آپ کر دیا کریں اور اخراجات مجھ سے لے لیا کریں ، انہوں نے کہا کہ طارق بھائی! آپ مطمئن رہیں ، اب یہ میری ذمہ داری ہے اور آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا.
جس نے اپنی صبح ، اپنی شام ندوہ کے نام کر دیا ہو ، بطور معاوضہ کے نام پر ایک حبہ بھی نہ لیا ہو اور جس کی تمام عمر اسی احتیاط میں گزری ہو کہ یہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو ، وہ کیا کسی کا احسان لیتا ، خدمت کا موقع ہی نہیں دیا اور حقیقی صلہ کے لئے مالک حقیقی سے جا ملے .

عجب  قیامت کا حادثہ تھا
کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

ان کے انتقال کے معا بعد میں نے لکھا کہ
 حمزہ بھیا! آپ بھی روٹھ گئے ، ہم تو آپ کے ساتھ تھے ، آپ تو اس وقت تنہا کر گئے جب آپ کی ضرورت تھی ، ہر نگاہ آپ پر ٹکی ہوئی تھی ، مستقبل سے بے فکر اور مطمئن تھی ، آپ نے ان کا بھی خیال نہیں کیا جن کے لئے آپ کا وجود سراپا مسعود تھا. ابھی تو گیارہ اپریل کو ہسپتال میں ہم آپ ملے تھے ، دو گھنٹے کی تاریخی ملاقات میں نئے عہد و پیمان ہوئے تھے ، مستقبل پر کامیاب اور مؤثر گفتگو ہوئی تھی ، آپ کے عزم و حوصلہ سے امید کی کرن پھوٹی تھی ، پھر کیوں چلے گئے ، ایک قلندر کے جانے سے سارا میکدہ اداس ہے
اس کے بعد تو کئی فون آئے کہ اب تک ضبط کئے ہوئے تھا آنکھوں پر بھی قابو تھا مگر اس چھوٹی سی تحریر نے آنسؤوں کا سیلاب بہا دیا.
اللہ غریق رحمت فرمائے اور ابرار و صلحاء کی معیت و رفاقت نصیب کرے. آمین

9935 9936 88

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے