عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

 

 

تحریر:  احمد رضا مصباحی(گڈا)

 

  جن نفوس قدسیہ کو معرفت خداوندی کا جام پینا نصیب ہوا، ان کے دلوں نے اس فانی دنیا کے مال و زر، جاہ و جلال، اور خوبصورتی و رعنائی کو ایک مکڑی کے جالہ سے زیادہ حیثیت نہ دی۔ دنیا کی عظیم ترین منصب کی پیش کش انھوں نے اس طرح ٹھکرایا جسے دیکھ کر دنیا تصویر حیرت بنی رہی۔ پھر جنھوں نے درس گاہ نبوت سے حقیقت و معرفت کا درس لیا ان کی بے نیازی کا کیا کہنا!

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روم کی طرف ایک لشکر روانہ کیا۔ جس میں صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شریک تھے۔ آپ اولین سابقین میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کا شمار ان مقدس ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے جنگ بدر میں شرکت فرمائی۔ فتح و شکست جنگ کا لازمی حصہ ہے۔ کبھی ایک لشکر کسی جنگ میں فتح و نصرت کا پرچم بلند کرتا ہے تو کبھی جیت کا سہرا دوسری جماعت کے سر سجتا ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس جنگ میں رومیوں نے میدان مارا اور مسلمان فوج قید کر لی گئی۔

رومی بادشاہ نے پیغمبر اسلام کے صحابہ کی روحانی قوت و عظمت، اسلامی شان و شوکت اور ایمانی غیرت و حمیت کے چرچے سن رکھے تھے۔ اس نے فورا فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس کی آزمائش کر لی جائے؟ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے حضرت عبد اللہ کو بلوایا اور کہا: اسلام کی وجہ سے آج تم دنیا کی عیش و عشرت سے محروم ہو کر قید و بند کی ذلت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔ اگر تم عیسائیت قبول کر لو تو آزادی کی زندگی کے ساتھ ساتھ آدھی سلطنت بھی دے دوں گا۔ یہ پیش کش کرتے ہوے شاہِ روم سوچ رہا تھا کہ آج وہ محمد عربی کے غلام کی ایمانی دولت خریدنے میں کامیاب ہو جائےگا۔ مگر جب اس نے حضرت عبد اللہ کا جواب سنا تو اس کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔ حضرت عبداللہ نے انتہائی بے نیازی کے ساتھ، پر اعتماد لہجے میں، شاہِ روم کے ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوے ارشاد فرمایا: تیری آدھی سلطنت کیا، اگر پوری دنیا کی سلطنت بھی میرے قدموں میں ڈال دی جائے تب بھی تاج دارِ عرب و عجم کی غلامی کا پٹہ اپنی گردن سے جدا کرنا مجھے گوارہ نہ ہوگا۔ شاہ روم یہ جواب سن کے آگ بگولہ ہو گیااور غیظ و غضب سے بے قابو ہو کر حکم دیا کہ اس کو دیوار پر کھڑا کر کے سولی چڑھا دو اور جسم پر اس طرح تیر کی بارش کرو کہ روح پرواز کر جائے۔

حضرت عبداللہ اس حکم سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہوے نہ ان کے چہرے پر پزمردگی کے آثار  نظر آئے۔ بلکہ اس کے بر خلاف ان کے لبوں پر ایک دل نواز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ شاہ روم یہ دیکھ کر طیش میں آ گیا اور ایک بڑے کڑھاو میں پانی بھر کر اسے گرم کرنے کا حکم دیا۔ جب پانی کھولنے لگا تو بادشاہ کے حکم سے ایک دوسرے قیدی کو لایا گیا۔ بادشاہ نے اسے بھی وہی پیش کش کی جو حضرت عبداللہ کو کیا تھا۔ قیدی نے کہا: خدا کی ناراضی میں زندہ رہنے پر میں موت کو ترجیح دیتا ہوں اور آخرت کے جہنم میں مقابلے مین دنیا کی مصیبتیں قبول کرتا ہوں۔ اگلے ہی لمحے بادشاہ کے حکم سے سپاہیوں نے اسے کھولتے پانی میں ڈال دیا۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں: میں اپنی جگہ کھڑے کھڑے گوشۂ چشم سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحہ نہ گزرا کہ اس کا جسم نمک کی طرح پانی میں تحلیل ہو گیا اور ہڈیاں تیرنے لگیں۔ بادشاہ کا خیال تھا کہ موت کا یہ روح فرسا اور جاں گداز منظر دیکھ کر عبد اللہ کے ایمانی قلعے میں درار پڑ چکا ہوگا۔ مگر اسے معلوم نہ تھا کہ: ع

نبی کے نام لیواغم سے گھبرایا نہیں کرتے

اپنی اسی خوش فہمی کے ساتھ بادشاہ نے حضرت عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یا تو عیسائیت قبول کر لو یا اپنے بھائی کی طرح ذلت کی موت مرنے کو تیار ہو جاؤ۔ لیکن بادشاہ کے دھمکی بھرے اس حکم سے حضرت عبد اللہ کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ پڑی۔ وہ جبل مستحکم کی طرح اپنی جگہ کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر خوف کی پرچھائی تک نہ تھی۔ یہ حال دیکھ کر بادشاہ نے انھیں بھی کھولتے ہوے کڑھاو میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ جب سپاہی انھیں کڑھاو کے قریب لے گئے تو بے ساختہ ان کی چشمانِ مبارک سے آنسؤں کے موتی ٹپک پڑے۔ یہ منظر دیکھ کر بادشاہ کا دل باغ باغ ہو گیا۔ اس خیال سے اس کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے کہ آخر کار اس نے ایک مسلمان کو اس کے سب سے قیمتی سرمایہ سے محروم کر ہی دیا۔ اسی خوش فہمی میں، غرور و تکبر سے سر اٹھائے ہوے حضرت عبداللہ کے قریب  گیا اور استہزا و تمسخر بھرے لہجے میں کہنے لگا: عبداللہ! کیا موت کو قریب سے دیکھ کر گھبراہٹ ہو رہی ہے یا بیوی اور بچوں کی جدائی نے اشک بار کر دیا؟ یا پھر دنیا کی ناز و نعمت سے محرومی کا افسوس ہو رہا ہے؟ حضرت عبداللہ نے بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی پر اعتماد لہجے میں جواب دیا: نہ مجھے موت کی سختی کا خوف ہے اور نا ہی دنیا و ما فیہا کی جدائی کا غم۔ میری آنکھیں تو صرف یہ سوچ کر چھلک پڑیں کہ میرے پاس ایک ہی جان ہے جو اس کھولتے کڑھاو میں قربان ہو جائے گی، کاش! میرے پاس ایک لاکھ جانیں ہوتیں اور سب کو میں خدا کی راہ میں قربان کر دیتا۔ یہ سن کر بادشاہ کو یوں محسوس ہوا کہ ایک ہی جھٹکے میں اس کے غرور و تمکنت کا شیش محل چکنا چور ہو گیا ہو اور اس کے جسم میں بجلی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔

اب حضرت عبد اللہ کے تعلق سے اس کی سوچ و فکر کا زاویہ بدل گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ انسانی شکل و صورت میں کوئی آسمانی فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ اسے اذیت پہنچانا شاید نقصان دہ ثابت ہو۔ اس کی بجاے ان کی قربت حاصل کرنی چاہیے، شاید کچھ فائدہ ہو جائے۔ چنانچہ اس نے حضرت عبد اللہ سے گزارشانہ لہجے میں کہا: اگر آپ میری پیشانی کو بوسہ دے دیں تو میں آپ کو رہا کر دوں گا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس طرح میرے حکم کی تعمیل بھی ہو جائے گی اور اس مبارک ہستی سے میرا جسم بھی مس ہو جائے گا۔ لیکن یہاں بھی حضرت عبد اللہ نے ایمانی اخوت محبت کا بھر پور مظاہرہ فرمایا۔ آپ کے دل نے گوارہ نہ کیا کہ دوسرے ساتھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں اور وہ تنہا آزادی کی فضا میں سانس لے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: کیا اس صورت میں میرے تمام ساتھی رہا کر دیے جائیں گے؟ اس سوال سے بادشاہ کے دل میں آپ کی عظمت مزید بڑھ گئی اور اس نے بلا تأمل شرط منظور کر لیا۔

حضرت عبد اللہ نے بادشاہ کی پیشانی پر آستین رکھ کر بوسہ لے لیا۔ بادشاہ نے خوش ہو کر آپ کو تمام ساتھیوں سمیت رہا کر دیا۔ سب خوشی خوشی حضرت عمر کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ حضرت عمر نے خوش ہو کر عبد اللہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فارمایا: تمام مسلمانوں پر حق ہے کہ عبد اللہ کی پیشانی کو بوسہ دیں۔

(تاریخی کہانیاں، علامہ نسیم بستوی)

خلاصۂ کلام یہ کہ جس دل میں اللہ و رسول کی عظمتیں رچ بس جاتی ہیں وہ دنیا کی شان و شوکت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ نہ فانی زندگی کی عیش و عشرت اس کے ایمانی جذبے کو فنا کر سکتی ہیں نہ آزمائشوں اور مصیبتوں کی موجیں اس کی ایمانی کشتی میں شگاف ڈال سکتی ہیں۔ 

 

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

«
»

مسلم بھائیوں سے ایک دردمندانہ اپیل

لاک ڈاؤن میں نمازِ تراویح کیسے پڑھیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے