پھر سے اْجڑی دِلّی

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

دِلّی میں آگ بجھ گئی اور دھواں بھی کہیں سے اٹھتا نظر نہیں آتا۔۔۔ ہاں! جلے ہوئے مکانوں‘ دکانوں‘ عبادتگاہوں پر بے حرمتی اور تباہی کے سیاہ نشانات موجود ہیں۔ جن گھروں میں میتیں آئیں‘ جہاں کسی کی گود اجڑی‘ مانگ سونی ہوئی یا کسی کے سر سے سایہ چھین لیا گیا‘ وہاں بھی اب کہرام نہیں ہے۔ روتے روتے تھک چکے ہیں۔ آنسو بہتے بہتے خشک ہوچکے ہیں۔ ریاستی‘ مرکزی حکومتیں‘ پولیس کے عہدیدار دعویٰ کررہے ہیں کہ صورتحال کنٹرول میں ہے مگر ان کا یہ دعویٰ اپنی جگہ اس لحاظ سے درست ہوگا کہ اب کہیں لاٹھیوں‘ ہتھیارو سے لیس بھیڑ نظر نہیں آرہی ہے۔ سنسان سڑکوں اور گلیوں میں آمد و رفت بحال ہورہی ہے مگر جو گھر لٹ گئے‘ جو کاروبار تباہ ہوگئے‘جو جانیں چلی گئیں ان کے لواحقین سے اگر کوئی یہ سوال کرے تو اس کا کیا جواب ہوگااس کا تصور بھی محال ہے۔
دہلی کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔ کیایہ شاہین باغ جیسے مظاہروں کو ختم کرنے کے لئے ایک وارننگ تھی؟ سیاہ قوانین کے خلاف آواز بلند کرنے والوں‘ جمہوری طریقہ سے اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لئے پرامن جدوجہد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی سازش تھی یا پھر حالیہ اسمبلی انتخابات میں شرمناک شکست کا دلی والوں سے اور دلی کی سرکار سے یہ ایک انتقام تھا۔ جن بی جے پی لیڈروں نے علی الاعلان سیاہ قوانین کے مخالفین کو دھمکایا‘ گولی مارنے کے لئے اکسایا‘ جن کے خلاف کاروائی کے لئے دلی ہائی کورٹ میں پولیس کو ہدایت دی‘ اس کی سرزنش کی‘ انہوں نے دلی کو اجاڑنے کیلئے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے غلط وقت کا انتخاب کیا۔ ایک طرح سے انہوں نے اپنی پارٹی‘ اپنے قائدین‘ اپنی مرکزی حکومت کے منہ پر کالک تھوپ دی۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دہلی میں موجودگی کے دوراناس قدرشرمناک پرتشدد واقعات پیش آئے‘ اسے ا اگر چہ کہ امریکی صدر نے ہندوستان کا داخلی معاملہ قرار دیا مگر یہ بات یقینی ہے کہ وہ کچھ اچھے تاثرات کے ساتھ یہاں سے واپس نہیں گئے۔ احمد آباد اسٹیڈیم میں ایک لاکھ ہندوستانیوں کی جانب سے والہانہ استقبال‘ ایرپورٹ سے اسٹیڈیم تک صف بستہ دونوں جانب قطار میں کھڑے ہزاروں افراد کی موجودگی سے یقینا وہ خوش ہوئے ہوں گے اور صدارتی انتخابات سے قبل ہندوستان جیسے بڑے ملک میں اس قدر پذیرائی سے ان کی اہمیت میں اضافہ ضرور ہوا ہوگا مگر ان کی دہلی میں موجودگی کے دوران بدترین فسادات‘ پرتشدد واقعات نے ہندوستان کی ساکھ کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کی شبیہ کو بھی مسخ کردیا۔ٹرمپ کے ہندوستان آنے سے پہلے وہاں کے ارکان پارلیمنٹ اور یوروپین یونین کے بیشتر ارکان نے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی جو شکایتیں کی تھیں‘ وہ حق بجانب ہوگئیں۔ وزیر اعظم مودی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرتا جارہا ہے۔دہلی الیکشن اور پھردلی فسادات نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ جو کچھ ہوااس کی پابجائی ممکن نہیں۔ ایک حقیقت کھل کر ساری دنیا کے سامنے عیاں ہوگئی کہ سی اے اے‘ این پی آر اور این آر سی سے متعلق مسلمانوں اور دیگر طبقات کو جو اندیشے اور خدشات لاحق ہیں وہ بے بنیاد نہیں ہیں۔سنگھ پریوار‘ جس کے تابع بی جے پی اور اس کے حکومت ہے‘ ان عناصر کی کھل کر پشت پناہی کررہی ہے جنہوں نے مذہبی اقلیتوں کو اپنا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ بعض علاقوں میں مارکٹس کو نذرِآتش کیا گیا تو اس بات کو ملحوظ رکھا گیا کہ نذر آتش کی جانے والی دوکان مسلمان ہی کی ہو۔بعض محلوں میں دونوں فرقوں کے عوام نے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف اتحاد اور انسانیت کا مظاہرہ کیا۔ ایک دوسرے کو بچایا اور ایک دوسرے کی عبادتگاہوں کی حفاظت کی۔ اگرچہ کہ ایک درگاہ‘ ایک مسجد کو نسل حرام دہشت گردوں کی یلغار سے محفوظ نہیں رکھ سکے۔حالانکہ بعض غیر مسلم نوجوانوں نے عقیدت اور احترام کے ساتھ مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر کو جس کے تقدس کو پامال کیا گیاتھا‘ اسے بصد احترام اکھٹا کرنے میں مدد کی۔
دلی میں جو کچھ ہوا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ الیکشن سے پہلے کوششیں کرلی گئیں بلکہ دلی پولیس کے ساتھ فرقہ پرستوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جبر و تشدد کی انتہا کردی۔ جامعہ ملیہ کے طلبہ کے جلوس پر پولیس کی موجودگی میں فائرنگ کی گئی۔ ایک اور بھکت نے شاہین باغ کے قریب ہوائی فائرنگ کی مگر جب انہوں نے دیکھ لیا کہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین کے پایہ استقلال میں کسی قسم کی لغزش نہ آسکی تو انہوں نے الیکشن تک انتظار کیا۔ الیکشن میں بری طرح سے ہارے تو اس کے صدمہ سے کچھ دن نڈھال رہے اور جب اوسان بحال ہوئے تو تازہ دم ہوکر انہوں نے یلغار کی۔ ان کے قائدین نے حوصلہ بڑھایا۔ پولیس تو پہلے بھی ان کے ساتھ تھی اور اب بھی ساتھ ہی رہی مگر جب نقصان دونوں جانب ہوا تو کسی قدر ہوش آیا۔ اس وقت تک سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ ہندوستان کی عزت‘ عظمت‘ وقار‘ سیکولر کردار‘ انسانی حقوق کے تحفظ کے دعوے‘ مذہبی آزادی کے تیقنات کی حقیقت سامنے آگئی تھی۔ اگر دلی گجرات کی طرح صرف ایک ریاست ہوتی اور ہندوستان کی دارالحکومت نہ ہوتی تو شاید این ایس اے کے سربراہ اجیت ڈوبھال کو لاء اینڈ آرڈر کی برقراری یا اسے بحال کرنے کی ذمہ داری نہ سونپی جاتی۔اجیت ڈوبھال ایک تجربہ کار سوپر کاپ ہیں۔ پاکستان میں ایک عرصہ تک پاکستانی بن کر رہ چکے ہیں۔وہ انٹلیجنس بیورو کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔فی الحال وزیر اعظم کے سیکوریٹی اڈوائزر ہیں۔کشمیر میں دفعہ 370کی برخواستگی کے بعد وہاں کے امور کے ذمہ دار بنائے گئے تھے۔اب دہلی کے حالات سدھارنے کی ذمہ داری دی گئی۔انہوں نے متاثرہ علاوں میں ہر دو فرقوں کے متاثرین سے بات کی۔ہندو?ں نے ان کی موجودگی میں دلی پولیس زندہ باد کے نعرے لگائے تو دوسری طرف مسلمانوں نے پولیس کی جانبداری‘ ان کے ظالمانہ سلوک سے واقف کرواتے ہوئے دوٹوک لہجے میں کہا کہ وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔دلی پولیس واقعی قابلِ اعتبار نہیں رہی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر ان کے ظلم و ستم کی وائرل ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کی اصلیت سے دنیا واقف ہوچکی ہے۔ فساد کے دوران مسلمانوں نے اگر 100 پر فون کیا تو انہیں جواب دیا گیا کہ ”بیٹا جیسا کیا‘ ویسا بھگتو‘ آزادی چاہئے تھی نہ تمہیں“
آج کے ایک ایسے دور میں جب دلال قسم کے ٹی وی اینکرس جو ارباب اقتدار کی خوشامد اور مسلم دشمنی کے لئے جانے جاتے ہیں‘ ان کی جانبدارانہ رپورٹنگ کے باوجود سوشیل میڈیا کے ذریعہ پل پل کی خبر اور ایسی ایسی تصاویر اور ویڈیو کلپنگز کے ذریعہ ساری دنیا حقائق سے واقف ہورہی ہے۔ پولیس اور ان کے ساتھ سنگھ پریوار کے غنڈوں کا اصل چہرہ منظر عام پر آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے ارباب اقتدار کو متحرک ہونا ہی پڑتا ہے ورنہ عالمی برادری پہلے ہی کئی سوال اٹھارہی ہے۔ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ہندوستان کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کر بیٹھے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا رویہ بھی کچھ ایسا ہونے لگا ہے کہ اب اس پر یقین ڈگمگانے لگا ہے۔ حال ہی میں ایک اجلاس کے دوران سپریم کورٹ نے جسٹس مشرا کی جانب سے وزیر اعظم کی مدح سرائی نے جہاں عدلیہ کے رویہ اور کردار کو مشکوک بنادیا ہے وہیں دلی فسادات کی آگ بھڑکانے کے لئے بی جے پی کے قائدین کو مورد الزام قرار دینے اور ایف آئی آر درج نہ کرنے پر سرزنش کرنے والے دلی ہائی کورٹ کے جج مرلی دھر را? کے راتوں رات تبادلہ کئے جانے سے ایک طرف اپوزیشن کو بجا طور پر موقع ملا کہ وہ یہ کہہ سکے کہ بعض مجرمین کو قانون کے شکنجہ سے بچانے کے لئے یہ تبادلہ کیا گیا ہے۔ جسٹس مرلی دھر کے تبادلہ کے لئے سپریم کورٹ Collegium کی سفارش پر بار اسوسی ایشن نے احتجاج بھی کیا اور تنقید بھی۔ جو بھی ہو جو ارباب اقتدار کو عدلیہ پر یہ ڈھاگ بٹھانی تھی کہ جو فیصلے اس کی مرضی کے خلاف کئے جائیں گے انہیں معتوب کردیا جائے گا۔
دلی فسادات کے دوران کجریوال کے رول پر بھی کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ کجریوال کو ان کے کام کی بنیاد پر ووٹ دیا گیا‘ ایسا خیال قومی میڈیا کا بھی ہے اور دوسری ریاستوں کے عوام کا بھی کیونکہ اسکول اور ہاسپٹلس کے لئے ان کے کام کی کافی تعریف کی گئی تھی مگر دلی فسادات کے دوران ان ہاسپٹلس کی کارکردگی کی پول کھل گئی جب زخمیوں کو علاج کے لئے اسکینگ کے لئے دوسرے ہاسپٹلس سے رجوع ہونا پڑرہا ہے۔ جی پی ٹی ہاسپٹل جہاں سب سے زیادہ مریض لائے گئے‘ اسکیننگ مشین خراب ہونے کی وجہ سے علاج کے لئے دوسرے ہاسپٹل سے رجوع ہونا پڑرہا ہے کیونکہ یہاں لگ بھگ 30 سال پرانی مشین ہے۔ ویسے کجریوال نے 27 فروری کی شام پریس کانفرنس میں اعلان ضرور کیا کہ سرکاری ہاسپٹلس کی مشینیں کام کررہی ہیں‘ اس کے علاوہ اگر کوئی زخمی پرائیویٹ ہاسپٹل میں زیر علاج ہے تو اس کا خرچ دہلی حکومت برداشت کرے گی۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں غذائی اشیاء کی فراہمی کے انتظامت کا اعلان کیا۔ مہلوکین کے ورثاء کو ایکس گریشیاء اور زخمیوں کو معاوضہ۔ نقصانات کی پابجائی کے اقدامات کا بھی اعلان کیا گیا جو وقتی طور پر زخموں پر مرحم لگانے کے مماثل ہے۔
دلی فسادات نے مرکزی حکومت‘ دہلی پولیس کی نااہلی کو بے نقاب کیا وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوگیا کہ جس طرح سے فرقہ پرستی کو پروان چڑھایا جارہا ہے‘ کس طرح سے سنگھ پریوار نئی نسل کی ذہنی اور فکری تربیت کررہا ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ خواب تو کبھی پورا نہیں ہوگا۔ اس بات کا یقین ہے اس لئے کہ فرقہ پرستی کے ڈھٹاٹوپ اندھیروں میں انسانیت اور سیکولرازم کے دیپ ہر جگہ روشن ہیں۔ اس کا ثبوت وہ گرودوارے ہیں جن کے دروازے سکھ بھائیوں نے فسادات کے دوران تمام متاثرین کے لئے بلالحاظ مذہب کھول دیئے ہیں۔ وہ ہندو پریوار ہیں‘ جنہوں نے اپنے پڑوسی مسلمانوں کو فسادیوں سے بچایا۔
دہلی فسادات نے اپوزیشن کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ کانگریس‘ جو احتجاجی مظاہروں اور احتجاجیوں سے یگانگت کے اظہار تک سمٹ کر رہ گئی ہے‘ اس نے صدر جمہوریہ سے بھی نمائندگی کی ہے مگر کانگریس کے بشمول تمام سیاسی جماعتوں کے نام نہاد قائدین آزمائش اور ضرورت کے وقت لاپتہ ہوگئے تھے جس سے عوام بالخصوص مسلمانوں میں یہ احساس پید ا ہوا ہے کہ انہیں اپنا درد خود سہنا ہے۔ اپنے مسائل اور مصائب کا بوجھ خود اٹھانا ہے۔ یہ احساس انہیں اپنے پیروں پر آپ کھڑا کرنے میں مدد دے گا۔ آج کے حالات میں یہ ضروری ہے کہ اپنی مدد ہم آپ کریں۔ دوسروں پر تکیہ نہ کریں۔ ورنہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ
'جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 
03مارچ2020

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے