وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

محمد اویس سنبھلی

    ملک کے موجود حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک میں جنگل راج آگیا ہے۔عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔عوام پریشان ہے، مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، روزگار کم ہورہا ہے، ملک میں آبروریزی اور قتل کے واردات بڑھ رہے ہیں، پولیس اپنی ذمہ داری بھول کر معصوموں اور بے گناہوں کو نوچ کھا رہی ہے، گھوس خوری کا بازار گرم ہے، بدعنوانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ہر طرف افراتفریح کا ماحول ہے، شریف اور عزت دار شہری خوف کے سائے میں زندگی بسر کررہے ہیں اور سرکار اقتدار کے نشے میں کھوئی محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بنیادی اور اہم مسائل پر تو کوئی بات کرتا ہی نہیں۔ایسا لگتا ہے پورے ملک کے حالات بہتر بنانے میں صرف اور صرف CAA،NRCاور NPRاہم کردار ادا کریں گے۔عوام تشویشات میں مبتلا ہے، اپوزیشن جماعتیں سوال اُٹھاتی ہیں لیکن ان کے سوالوں کے جواب تو دیے نہیں جاتے البتہ انھیں تنقید کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔CAAدراصل ہندو اور مسلمانوں میں دوری پیدا کرنے اور بھید بھاؤ والا قانون ہے، ذات اور مذہب کی آڑ میں بنایا ہوا قانون ہے جسے عوام نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں جاری ہنگامے کے دوران مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے انڈین ایکپریس سے بار چیت کے دوران کہا کہ ”این آر سی نافذ کرنے سے قبل تمام ریاستوں سے بات چیت کی جائے گی اور ان کا فیڈ بیک لیا جائے گا“۔اس پر عمل ہوگا یا نہیں یہ کہہ پانا فی الحال مشکل ہے۔
    CAA،NRCاور اب NPRکو لے کر پورے ملک میں جو ہنگامی صورت حال ہے وہ ہر گھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔عوام حکومت کی نیت سے اچھی طرح واقف ہوچکی ہے۔انھیں معلوم ہے کہ CAAبنائے جانے اورپورے اہتمام کے ساتھ اتنی عجلت میں اسے منظور کرانے نیز اسے NRCکے ساتھ عملی جامہ پہنانے سے اس ملک کو کیا نقصان ہونے والا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس قانون کے خلاف جس بڑی تعداد میں ملک کے عوام و خواص احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئے ہیں اس کی دوسری نظیر آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید نہ پیش کی جاسکے۔کسی مذہب، کسی علاقہ، سماج، زبان، تہذیب کی تفریق کے بغیر ملک کے گوشہ گوشہ سے جس طرح اس کالے قانون کی مخا لفت ہورہی ہے نیز ترمیم کیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس سے ملک کے عوام کی بیچینی کو سمجھنا کوئی دشوار نہیں۔اب عوام کرو یا مرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اپنی جان تک کی بازی لگانے کو ہمہ وقت تیار ہے۔یہی وجہ ہے کہ اترپردیش سرکار بربریت پر آمادہ ہے۔اس نے عوام کو ڈرانے اور ان کے اندر خوف پیداکرنے کے لیے پولیس کے ذریعہ ظلم ڈھانے کا جو ننگا ناچ نچوایا ہے، اس سے ان کے ارادے کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔
    پورا میڈیا اترپردیش کی جنتا کے خلاف زہر اگل رہا ہے، پولیس معصوموں اور بے گناہوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔لوگ مررہے ہیں، جیلیں بھر رہی ہیں، ہسپتالوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ زیر علاج ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود عوام و خواص اس کالے قانون کی مخالفت پر کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں۔یہاں محمود بھی ہیں، ایاز بھی ہیں، ملک کا دانشور طبقہ، یونیورسٹیز کے اساتذہ، ڈاکٹرس، وکلاء، سیاست داں، صحافی سب شامل ہیں۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں اپنی بات رکھنے اور حکومت سے اختلاف کا حق سب کو ہے۔لیکن عجیب بات ہے کہ موجوہ سرکار نے پُرامن احتجاج کرنے والے اکھل گوگوئی، چندرشیکھر آزاد، صدف ظفر، روی شیکھر اور ان کی بیوی نیز ان جیسے سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ روی شیکھر کی محض ۴۱/ماہ کی دودھ پیتی بچی کو اس کی ماں سے الگ کردیاگیا۔اس وقت پورے ملک کی صورت حال یہی ہے، اترپردیش میں حالات سب سے زیادہ خراب ہیں۔یہاں گرفتار ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لوگوں کی زمین جائداد کو ضبط کیا جارہا ہے۔سی سی ٹی وی کیمروں میں جس کسی کی تصویر قید ہوجاتی ہے اسے مجرم قرار دیا جاتا ہے اور اسی سی سی ٹی وی کیمری کی ریکارڈنگ جو پولیس والے کار، بائک، آٹو رکشہ کو توڑتے نظر آرہے ہیں ان کے خلاف حکومت کے ذمہ داروں کی زبان پر تالے لگے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا، اس کا جواب دے پانا بہت مشکل ہے۔
    ہمارے پاس ووٹ کی طاقت ہے، جمہوریت میں یہی سب سے بڑے طاقت ہوتی ہے۔اس کے ساتھ لڑنا بھی آسان ہوتا ہے لیکن ایک طاقت جھونٹ ہوتی ہے جو ہوتی تو ہے وقتی لیکن اس سے لڑپانا مشکل ہوتا ہے، موجودہ بی جے پی نے جھونٹ کو اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے۔ حکومت کے ذمہ داران جھونٹ پرجھونٹ بولے جارہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ قانون شہریت دینے کے لیے بنایا گیا ہے نا کہ کسی کی شہریت چھیننے کے لیے۔یہ حکومت کا سب سے بڑا جھونٹ ہے۔ملک کا وزیر اعظم جب رام لیلا میدان میں کھل کر جھونٹ بول سکتا ہے تو اس کے پیادوں کا کیا کہنا۔وہ عوام کی تشویشات اور ان کے درمیان سے ڈر اور خوف کوو دور کرنے کی کوشش نہیں کررہے، وہ نہیں بتاتے کہ اس قانون سے کیا فائدہ ہونے والا ہے۔ وہ عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ دراصل سرکار کی نیت میں کھوٹ ہے۔یہ سب ایک پلاننگ اور ایک خاص ذہنیت کے تحت ہورہا ہے۔جسے سمجھنے اور اپنے علاقے کے لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہم اس کالے قانون کے خلاف ہیں۔ ہم اس ملک کے باشندے ہیں اور اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں اسی لیے ہمارا اعلان صاف ہے، ہم اس ملک میں نمبر دو شہری بن کر نہیں رہیں گے۔ اب اس کے لیے چاہے ہمیں کسی بھی طرح کی کوئی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔مولانا ابوالکلام آزاد نے مارچ ۰۴۹۱ء میں رام گڑھ کے ایک جلسہ میں کہا تھا:
    ”میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی 1300برس کی شاندار روایتیں مرے ورثے میں آئیں ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میدی دولت کا سرمایہ ہے۔ میرا فرض ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں۔ اب اسلام اس سرزمین پر ویسا ہی دعویٰ رکھتا ہے جیسا دعویٰ ہندومذہب کا ہے۔ اگر ہندومذہب کئی ہزار برس سے اس سرزمین کے باشندوں کا مذہب ہے تو اسلام بھی ایک ہزار برس سے اس سرزمین کے باشندوں کا مذہب رہا ہے۔“
    مولانا آزاد کے سامنے سرزمین کا ماضی بھی تھا اور وہ یہاں کے حال سے بھی بخوبی واقف تھے لیکن اس ملک کے مستقبل کے بارے میں شاید انھوں نے ایسا نہ سوچا ہوگا کہ ان کے انتقال کے محض 60/برس کے بعد ہی یہ وقت آجائے گا کہ یہاں ان باشندوں کو جن کے اجداد نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دی، اپنی شہریت ثابت کرنی پڑے گی نیزثابت نہ کرپانے پر آزادی کے 72سال بعد ان کے اندرسرزمین ہند سے باہر کا راستہ دکھادینے اور ڈٹینشن کیمپ میں ڈال دیے جانے کا خوف پیدا کیا جائے گا۔ہم نے دنیاوی ترقی تو بہت کرلی لیکن ذہنی طور پراتنے تنگ نظر ثابت ہورہے ہیں کہ چند برسوں ہی میں بقول مشرف عالم ذوقی”افسوس!ہم آزادی سے ڈٹینشن کیمپ تک آگئے“۔
    مسلمانوں نے اس ملک کو اپنے لیے خود چنا تھا۔ اس میں مولانا آزاد کی کوششیں اور گاندھی جی کا بھروسہ شامل تھا۔ہم نے جناح کی آواز کو نکارکر اس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا تھا جبکہ ہمارے پاس آپشن موجود تھا۔تقسیم کے بعد ہندوستان کو اپنا مسکن بنانے اور اس ملک کواپنا سمجھنے والے مسلمان خوش تھے۔لیکن انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ اس ملک میں گاندھی کی فکر اور اور ان کے نظریہ کی مخالفت کرنے والے اقتدار میں آجائیں گے۔آج اس ملک میں جو لوگ حکومت چلا رہے ہیں یہ گاندھی کی فکر کے برخلاف گوڈسے کے نظریہ کے حامی ہیں۔ یہ لوگ کل ملک کی آزادی کی تحریک سے پریشان تھے، آج یہی لوگ ملک کے نوجوان کے آزادی کے نعروں سے پریشان ہیں۔یہ ایک ہی نظریہ رکھنے والے لوگ ہیں۔ کل ان کے پرکھوں (ساورکر، دین دیال، شیام پرساد اور گوڈسے) نے تحریک آزادی سے غداری کی تھی آج یہ لوگ ہندوستان کے آئین سے غداری کررہے ہیں۔اس وقت یہ لوگ اقتدار کے نشے میں چور ہیں۔کم ظرفوں کے ہاتھ میں جب حکومت آتی ہے تو اسی طرح اپنے رنگ دکھاتے ہیں۔یہ پیتے کم ہیں چھلکاتے زیادہ ہیں۔آج انھوں نے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے، کل دلت ان کے نشانے پر ہوں گے او ر اس کے بعد ایک ایک کرکے یہ ملک کی اقلیت سے اس کے حقوق (ریزرویشن) چھیننے کی کوشش کریں گے۔لیکن انھیں نہیں معلوم کہ یہ اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا کام کررہے ہیں۔کبھی کبھی ہم(عوام) کچھ لوگوں کو زیادہ مقام دے کے بگاڑ دیتے ہیں۔ اگر وہ لوگ کم ظرف نکلیں تو وہ بدلے میں ہماری آنکھیں آنسوؤں اور دل درد سے بھر دیتے ہیں بس یہیں سے ان کی الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے اور عوام ارادہ کرلیتے ہیں  ؎
انتظام نئے سرے سے سنبھالے جائیں 
جتنے کم ظرف ہیں محفل سے نکالے جائیں 
    تمام تر فرقہ پرستی کے باوجود جھارکھنڈ کے عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے CAAاور NRCکی مخالفت میں ڈگری لینے سے انکار کردیا۔وہیں ”بولتا ہندوستان“ نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں جادھوپور یونیورسٹی کی ایک طالبہ دیومتا چودھری نے ڈگری لیتے وقت CAAاور NRCکے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنی ڈگری کو پھاڑ دیا اور کہا ”ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے، انقلاب زندہ باد“۔یوگیندر یادو، پروفیسر گُھا، کنہیا کمار، اروندھتی رائے جیسے سیکڑوں غیر مسلم لوگوں نے اس قانون کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ اس کے دور رس نتائج کو سمجھتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔بنارس میں جن 57لوگوں کو CAAاور NRCکی مخالفت کرنے کے جرم میں جیل بھیجا گیا ہے اس میں سے 40ہندو ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اُٹھنے والی آواز اگر بنارس ہندو یونیورسٹی تک پہنچ رہی ہے تو مسئلہ ملک کا ہے مذہب کا نہیں۔دراصل یہ لڑائی مذہب کی نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین کی حفاظت کی ہے۔لیکن ایک طبقہ ابھی بھی”اندھا بھکت“بنا ہوا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اندھی محبت میں کھو چکا ہے۔خوشونت سنگھ نے اپنے ناول ”دی اینڈآف انڈیا“ میں لکھا ہے کہ:
 ”فسطائی طاقتیں ہمیشہ ایک یا دو کمزور فرقوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ نفرت کی بنیاد پر کھڑی کی گئی تحریک مسلسل خوف و تشدد کا ماحول بنا کر ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔آج ہم میں سے جو لوگ یہ سوچ کر خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں کہ وہ مسلمان یا مسیحی نہیں ہیں، احمقوں کی جنت میں رہ رہیں ہیں۔“
    CAA،NRCاور NPRکے خلاف لڑائی صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ ہر ایک ہندوستانی کی ہے کیوں کہ یہ کالا قانون بنا کر ہندوستان کے آئین سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ یہ کالا قانون دونوں ایوانوں میں پاس ہو چکا ہے۔ حکومت نے پہلے پہلNPRکا اعلان کر دیا ہے،وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر صاف لکھا ہے:
NPR is th first step towards NRC.
    ابNPR کے ذریعہ آپ سے آپ کی اور آپ کے والدین کی تفصیلات مانگی جائیں گی۔گذشتہ NPR کے مقابلہ اس مرتبہ 8/اضافی سوالوں کے جواب آپ کو دینا ہوں گے۔ این پی آر میں جو تفصیلات مانگی گئی ہیں وہ دراصل این آر سی کا ہی حصہ ہیں۔ اسی NPR سے NRC کی راہ حکومت کے لیے آسان ہو جائے گی لیکن جب تک یہ سب ہوگا ملک تباہ ہوچکا ہوگا۔ہر طرف ہاہا کار مچ جائے گا، لوگ کاروبار چھوڑ کر دستاویز کی تلاش کرنے نیز انھیں بنوانے میں لگ جائیں گے۔حکومت کے ذمہ داران ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے بجائے اسے بدترین حالات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔لیکن اسے سے بہت خراب نتائج برآمد ہوں گے۔بی جے پی حکومت جس طرح سے تاناشاہی کرکے ملک کو لوٹنے، اسے بانٹنے اورعوام کو آپس میں لڑواکر حکومت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ وقت دور نہیں کہ یہ ملک جس کی آزادی کی خاطر لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانی فخر کے ساتھ پیش کی تھی، ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گااور اس ملک سے بی جے پی اور سَنگھ پریوار کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔
    اس اہم اصول کے برخلاف کہ مرکزی حکومت کو NRCکا آغاز کرنا چاہئے یا نہیں، اس سوال کے مثبت پہلو پرغور کرنا زیادہ اہم ہے کہ مرکزی حکومت اس طرح کے اہم اقدام کی صلاحیت بھی رکھتی ہے یا نہیں۔NRCکی غلطی پر عمل درآمدناقابل تصور حد تک انسانی حقوق کا مسئلہ پیدا کرسکتا ہے۔حکومت کے ذمہ داران کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے سرجوڑ کر اس پر غور کرنا چاہئے۔ورنہ ملک کے حالات اتنے خراب ہوجائیں گے کہ ہم نے 1947میں جس سفر کا آغاز کیا تھااور یہاں تک پہنچے تھے کہ دنیا ہماری طرف بڑی امید کی نظر سے دیکھ رہی تھی، کم و بیش دوبارہ وہیں پہنچ جائیں گے۔ عوام کو اتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ان کی چیخ نکل جائے گی۔ اور ان حالات کی ذمہ دار صرف اور صرف بی جے پی ہوگی، جسے اس کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی۔کیوں کہ جو رات کے بعد صبح دیتا ہے، جو گرمی کے بعد ٹھنڈ دیتا ہے، بے شک وہی خدا پریشانی کے بعد خوشیاں بھی دے گا اور جب وہ خوشیاں دے گا تو اپنے بندوں کی تکالیف اور ان ایک ایک آنسوں کا بدلا بھی لے گا۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

یکم جنوری 2020
 

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے