ایمان کی سرحد کب اور کہاں ختم ہوتی ہے؟

ایک حدیث رسولؐ کی روشنی میں 
تحریر: مولانا ابو الکلام آزاد        ترتیب: عبدالعزیز 

 

    ایک حدیث جس میں ایمان کے درجات بیان ہوئے ہیں۔ اس کی تشریح بہتوں نے کی ہے مگر مولانا ابوالکلام آزاد نے جس پیرائے اور انداز بیان سے کیا ہے وہ بہت پر اثر اور دل کو چھولینے والا ہے۔ افادہئ عام کی خاطر من و عن پیش خدمت ہے:۔ 
    اسی فرق مراتب اور تفضیل اصحاب عزائم دعوت و مقومین علیٰ اصحاب الرخص و ضعفاء الطریق کی طرف حدیث ابو سعید خدریؓ عند مسلم، میں اشارہ فرمایا، اور اس کو بھی آیاتِ کریمہ متذکرہ صدر کے ساتھ بیک نظر دیکھنا چاہئے کہ من رای منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ وان لم یستطیع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ  و ذلک اضعف الایمان: تم میں سے جب کبھی کوئی شخص برائی کو دیکھے، تو چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے کام لے کر اس کو دور کردے، اگر اس کی طاقت نہ پائے تو زبان سے، اگر اس کی بھی طاقت نہ پائے تو دل سے، اور یہ آخری درجہ ایمان کی بڑی ہی کمزوری کا درجہ ہے۔ پس اس حدیث میں بھی تین درجے فرمائے اور جس طرح آخری درجہ اضعف الایمان کا ہوا، اسی طرح پہلا درجہ اقویٰ و امثل کمال مرتبہ عزیمت دعوت کا ہوا۔ اس سے بھی واضح تر حدیث ابن مسعودؓ ہے کہ ما من نبی بعثہ اللّٰہ فی امتہ قبلی، الا کان لہ فی امتہ حواریون و اصحاب، یاخذون بسنتہ، و یقتدون بامرہ، ثم انہا تخلف من بعدہم خلوف، یقولون مالا یفعلون، و یفعلون مالا یومرون، فمن جاہدہم بیدہ فھو مومن، ومن جاھدہم بلسانہ فھو مومن۔ ومن جاھدہم بقلبہ فھو مومن، ولیس وراء ذلک من الایمان حبۃ خردل (مسلم) 
    یعنی سنتِ الہیٰ یہ ہے کہ ہر نبی اپنے ساتھیوں اور تربیت یافتہ یاروں کی ایک جماعت امت میں چھوڑ جاتا ہے۔ یہ جماعت حواری یا اصحاب کے لقب سے ملقب ہوتی ہے اور درسگاہ نبوت کی سب سے پہلی تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ یہ لوگ نبی کی سنت کو قائم رکھتے اور ٹھیک ٹھیک اس کی پیروی کرتے ہیں یعنی شریعت الہٰی کو جس حال اور جس شکل میں نبی چھوڑ گیا ہے، اس کو بعینہ محفوظ رکھتے اور اس میں ذرا بھی فرق آنے نہیں دیتے ہیں۔ لیکن ان کے بعد بدعات و فتن کا دور آتا ہے اور ایسے لوگ پیدا ہونے لگتے ہیں جو اسوہئ نبوت سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ ان کا فعل ان کے دعوے کے خلاف ہوتا ہے اور ان کے کام ایسے ہوتے ہیں جن کیلئے شریعت نے حکم نہیں دیا، سو ایسے لوگوں کے خلاف جس کسی نے قیام حق و سنت کی راہ میں اپنے ہاتھ سے کام لیا، وہ مومن ہے؛ جو ایسا نہ کر سکا، مگر زبان سے کام لیا، وہ بھی مومن ہے؛ جس سے جہاد لسانی بھی نہ ہو سکا، صرف دل کے اعتقاد اور نیت کے ثبات کو ان کے خلاف کام میں لایا، وہ بھی مومن ہے؛ لیکن اس آخری درجہ کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہیں، حتیٰ کہ رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوسکتا، تو اس حدیث میں بھی وہی تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ اصحاب عزیمت کا، دوسرا اصحاب رخص کا، تیسرا اضعفائے طریق کا و ذلک اضعف الایمان، اور اس آخری درجے پر ایمان کی سرحد ختم ہوجاتی ہے کہ: و لیس وراء ذلک من الایمان حبہ خردل! یہاں ذکر اگر چہ صرف مبتدعین ومحرفین شریعت کے خلاف جہاد ید و لسان کا ہے۔ لیکن اصل تقسیم اس میں محدود نہیں، مقصود نفسِ عزیمت و اسبقیت بالخیرات ہے۔ اور یہ کہ ہر میدانِ علم و عمل میں ایک درجہ عزیمت کا، ایک رخصت کا، اور ایک ضعف و انحطاط کا ہوتا ہے۔ البتہ اس تقسیم کا سب سے بڑا میدان عمل مقام دعوت و تبلیغ حق ہے۔ اور قیام امر بالمعروف ونہی عن المنکر، ومقاومت مبتدعین فی الدین و اعدائے حق و اسلام، واحیائے سنت و اخمادِ بدعت، وکشف و ابراز علوم حقہئ نبویہ و غوامض وسرائر حکمتِ شرعیہ، کہ اسی وادی فصل اور عقبہ آزمائش میں اصحاب طریق کے ادبار و اقدام کا فیصلہ ہوتا، اور مدارج ایمانیہ و مراتب علمیہ کے جوہر کھلتے اور امتیاز پاتے ہیں۔ یرفع اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات

«
»

عدم مساوات کی بڑھتی خلیج کو کیسے پاٹاجائے؟

ماہ محرم الحرام فضیلت و اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے