ڈاکٹر حافظ حقانی
اسلام میں سن ہجری کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی مناسبت سے ہوا ہے۔اسلامی کینڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام کا ہے۔ماہ سال ہر لحظہ و ساعت اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے ہیں۔اور قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ان ماہ و سِنین کا ذکر آیا ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن ماہ و ایام اور لیل ونہارکو ایک دوسرے پر فضیلت و برتری بخشی ہے۔مقصد اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی اللہ تبارک وتعالیٰ کے ان انعامات و احسانات اور فضائل و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹ سکیں اور اس کی تاکید خود قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرما دی ہے فرمایا’’اُن کو اللہ کے دنوں کی یاد دلائو‘‘اب اللہ عزوجل جب دنوں کی یاد دلانے کی تاکید فرما رہے ہیں وہ دن ہیں کہ جن دنوں میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر اپنے انعامات و احسانات فرمائے ہیں۔ اب ان انعامات و احسانات کو یاد کرنے اور اُن پر خوش ہونے کے مختلف طریقے ہیں۔
مختلف ادیان و مِلل خوشیوں کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں مسلمانانِ عالم اپنے رب کے احسانات و انعامات کے حصول پر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔تلاوت قرآن مجید سے اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔تسبیح و تحمید اور تہلیل سے اپنی زبانوںکو تر کرتے ہیں۔اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ باہرکات پر درودوسلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں اس کے اصحاب اور ان کی طیب و طاہر اھل بیت کے تذکروں سے اپنی آنکھوں کو نم کرتے ہیں اسی حوالے سے یہ ماہ محرم الحرام بھی فضیلتوں بھرا مہینہ ہے ۔
پیرانِ پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ غنیتہ الطا لبین‘‘ میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ ماہ ذی الحجہ کے آخری دن اور ماہ محرم الحرام کے پہلے دن روزہ رکھا یہ ایسا ہی ہے کہ گویا اس نے گزشتہ سال کو روزہ پر ختم کیا اور آئندہ اس آنے والے سال کوبھی روزہ پر شروع کیا اللہ تعالیٰ اِس روزے کواس کے پچاس سال کے روزوں کا کفارہ بنادیا پھر اِسی طرح ماہ محرم الحرام کے پہلے دس دنوں میں روزہ رکھنے کی بھی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔
اسی طرح عاشورہ کا دن بھی بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل ہے۔محرم الحرام کے دسویں دن کو عاشوراء کیوں کہاجاتا ہے؟ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ چوں کہ یہ ماہ محرم الحرام کا دسواں دن ہے اسی لئے اس کو عاشورہ کہا جاتا ہے۔’’عشرۃ‘‘ عربی گنتی میں دس کو کہتے ہیں اسی لیئے عاشوراء یعنی دسواں بعض بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ علی صاحبھا السلام کو جو فضیلتیں اور کرامات عطافرمائیں ہیں ان میں یہ دن فضیلت و کرامت کا تھا اس لیئے اس دن کو عاشورا کہتے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دن اللہ تبارک و تعالیٰ نے دس مختلف انبیائے کرام کو مختلف انعامات سے نوازا تھا اس لیئے اس مناسبت سے اس کو عاشوراء کہاجاتا ہے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ کے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے۔تو مدینہ کے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزے دار پایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا یہ کیسا دن ہے کہ تم لوگ اس دن روزہ رکھتے ہو۔انہوں نے بتایا کہ یہ دن بڑی شان والا ہے فرعون سے نجات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور تشکر اس د ن روزہ رکھا تھا تو ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیںنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلق میں تمہاری نسبت ہم زیادہ حق رکھتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اس دن دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ماہ محرم الحرام میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت سی احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
رمضان المبارک کے مہینے کے روزوں کے بعد ماہ محرم الحرام کا روزہ بڑی فضیلت والا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ’’مجھے اللہ سے یقین ہے کہ محرم کے عاشورے کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہوں کو محو کردیتا ہے ۔رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا لیکن ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اب عاشورہ کا روزہ جس کا دل چاہے رکھے اور جس کا دل نہ چاہے تو نہ رکھے۔
ایک صحابی رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو اوہ چادر لپیٹ کر چاہ زم زم سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔میں نے ان سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ محرم کا چاند دیکھ کر پہلی محرم کو کھائو اور پیو، اور نویں محرم کو روزہ رکھو میں نے پھر استفسار کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیاکرتے تھے تو انہوں نے فرمایا۔
ایک اور حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہود کی مخالفت کرتے ہوئے محرم کی نویں اور دسویں کوروزہ رکھا کرو۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ ہمیں رمضان المبارک کے بعد کس ماہ میں روزے رکھنے چاھئیں تو سید نا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجھہہ الکریم نے ارشاد فرمایا میں نے ایک شخص کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سناتھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ا گر تم رمضان کے مہینہ کے بعد روزے رکھنا چاھو تو محرم کے مہینہ میں روزے رکھو کیوں کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ۔اور اِس ماہ میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کی دعاقبول فرمائی ہے اور کچھ لوگوں کی دعا قبول فرمائے گا۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ’’ غنیتہ الطالبین‘‘میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث بیا ن فرماتے ہیں کہ
جس شخص نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کو ثواب عطاکیا جائے گا جس نے یومِ عاشورہ پر کسی یتیم کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرا اللہ تعالیٰ اس یتیم کے سر کے ھر ھر بال کے عوض جنت میں اس کا درجہ بلند فرمائے گااور جس شخص نے عاشورہ کی شام کو روزہ دار کو افطار کرایا تو گویا اس نے اپنی طرف سے ساری امت محمدیہ کو افطار کرایا۔ اللہ تعالیٰ نے یومِ عاشوراء کو تمام ایام پر فوقیت و فضیلت بخشی ہے پھر صحابہ کرام کے ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا ۔اللہ تعالیٰ نے یوم عاشورہ کو آسمانوں زمینوں پہاڑوں اور سمندروں کو پیدا فرمایا لوح وقلم کو یو م عاشور میں پیدا فرمایا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق عاشورہ کے دن ہوئی اور عاشورہ کے دن ان کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل فرمایا۔ حضرت ابراھیم عاشورہ کے دن پیدا ہوئے۔فرعون کو عاشورہ کے دن غرق کیا گیا۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی تکلیف اور بیماری سے عاشورہ کے دن نجات عطا فرمائی حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ عاشورہ کے دن قبول ہوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یوم عاشورہ کو پیدا ہوئے قیامت عاشورہ کے دن آئے گی۔
اور بے شمار تاریخی و اسلامی واقعات محرم الحرام کے یوم عاشورہ کو وقوع پزیر ہوئے۔
اسی ماہ محرم الحرام کے یوم عاشورہ کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے دیگر حضرت اھل بیت اور وفا شعار ساتھیوں کے ہمراہ میدان کربلا میں مرتبئہ شہادت پر فائز ہوئے۔حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اسلامی سال کے پہلے ماہ میں ہونا ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے نئے سال کی ابتداء بھی قربانی سے ہوتی ہے ۔اولیائے کرام اور بزرگان دین اور سلفِ صالحین مختلف ایام میں اپنے دینی معمولات اور اذکار سے امت کو مستفید کرتے ہیں تو ماہ محرم الحرام میں بہت سے معمولات کا ذکر ملتا ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں جو شخص یوم عاشورکو آٹھ رکعات نماز پڑھے اللہ تعالیٰ اس نماز کے پڑھنے والے کو بے حد ثواب عطا فرماتا ہے آپ مزید فرماتے ہیں کہ ہمیں اس نماز کا پچاس سالہ تجربہ ہے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے فراخی ء رزق نصیب فرماتا ہے ۔چوں کہ ماہ محر م الحرام ’’اشھر الحرم‘ کاپہلا مہینہ ہے باقی تین مہینے رجب ذی القعدہ اور ذی الحجہ ہیں ان مہینوں کا بڑا احترام و اکرام ہے لڑائی جھگڑا قتل وغارت فتنہ وفساد دیگر ایام میں بھی منع ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ ان ماہ میں منع ہیں ان ماہ میں عبادت وریاضت ،ذکراذکار،صدقات وخیرات کے بڑے فضائل ہیں اسی طرح فسق وفجور اور ار تکابِ گنا ہ کا عذاب بھی دیگر ایام سے زیادہ ہے۔
اسلامی سال یعنی سن ہجری کی ابتداء حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے ہوئی ۔ابتدا سے ہی خلیفہ دوم امیرالمئومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ چاھتے تھے ہمارا اپنا اسلامی سن اور تاریخی شناخت ہونی چاھئیے اس سلسلہ میں آپ نے صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ سے مشورہ طلب کیا۔ صحابہ کرام میں بعض کی رائے یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت وسعادت سے اسلامی سال کا آغاز کیا جائے۔بعض صحابہ کرام کا مشورہ تھا کہ اعلان نبوت سے سن ہجری کاآغاز ہو لیکن باب مدینتہ العلم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اسلامی سال کا آغاز و ابتداء ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تاریخی واقعہ سے ہو کیوں کہ یہ عظیم اور انقلابی واقعہ ہے۔اسی واقعہ کے بعد سے اسلام کو فروغ و قوت نصیب ہوئی۔اسلامی ریاست مدینہ منورہ وجود میں آئی چناں چہ اس رائے کو سب نے باتفاق پسند کیا اور منظور کرلیا چوں کہ سال کے بارہ مہینے پہلے سے موجود تھے اور اِن بار ہ ماہ کا پہلا مہینہ محرم الحرام اور آخری مہینہ ذی الحجہ تک پہلے سے ہی رائج تھے تو اب یہ سوال پیدا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت تو ربیع الاول کے مہینہ میں فرمائی ہے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ فارمولہ پیش فرماتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ ماہ محرم الحرام کو سال کا پہلا مہینہ مقرر کیا جائے اور سن ہجری کا آغاز و ابتداء دو ماہ آٹھ دن پیچھے سے شمار کیا جائے۔
لہذا ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یکم ہجری قرار دیا گیا۔ اور اس کے بعد کے تمام واقعات کوخلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک مرتب کیاگیا اور اس طرح باقاعدہ طور سے اسلام کی ابتداء ہوئی۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔’’محرم اللہ کے لیئے ہے اس کی تعظیم کرو‘‘
جواب دیں