خاتمہ بالخیر ہی مومن اور مسلم کی زندگی کی اصل کامیابی ہے

  ابونصر فاروق

    ایک مولوی نما آدمی جو بہت معمولی حیثیت کے معلوم ہوتے تھے،راستے میں کھڑے ہوئے تھے۔وہیں پر ایک کتا بھی کھڑا ہوا تھا۔وہاں پر ایک نوجوان آکر کھڑا ہو گیا جوسر پر زعفرانی رنگ کی پٹی باندھے ہوئے تھا۔چند لمحوں کے بعد ایک کم عمر لڑکا بھی وہاں پرآ گیا۔تھوڑی دیر کے بعد زعفرانی پٹی والے نوجوان نے بزرگ سے پوچھا مولوی صاحب ! یہ بتائیے آپ اچھے ہیں یا یہ کتا اچھا ہے ؟  اُ س نوجوان نے بزرگ کو ذلیل کرنے کے لئے یہ سوال کیا تھا۔بزرگ چند لمحے اُس نوجوان کو دیکھتے رہے اور پھر بولے بیٹا،اگر میری موت ایمان پر ہوئی تو میں اس کتے سے بہتر ہوں گا اور میری موت ایمان پر نہیں ہوئی تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہوگا۔نہیں معلوم بزرگ کا یہ جواب اُس نوجوان کی سمجھ میں آیا یا نہیں۔کچھ دیر کے بعد وہ کتا بھی وہاں سے چلا گیا اور وہ نوجوان بھی۔اب اُس کمسن لڑکے نے بزرگ سے پوچھا، حضرت آپ نے اُ س نوجوان کو جو جواب دیا اُس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا ؟ بزرگ نے سمجھایا دیکھو بچے اللہ کی کتاب قرآن میں بھی یہ بات لکھی ہوئی ہے اور ہمارے پیار ے نبی ﷺ نے بھی یہی بتایا ہے کہ جو آدمی ایمان والا ہے اور جس کی موت ایمان کی حالت میں ہوتی ہے تو وہ جنت میں جائے گا۔اور جس کی موت ایمان کی حالت میں نہیں ہوئی وہ جہنم میں جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہاں آگ میں جلتا رہے گا۔قرآن اور حدیث میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جنت اورجہنم میں آدمی جائیں گے جانور نہیں جائیں گے۔تومیرے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ کتے کوا پنی موت کے انجام کی کوئی فکر نہیں اس لئے کہ موت کے ساتھ اُس کی زندگی کا کھیل ختم ہو گیا۔ لیکن انسان تو مرنے کے بعد بھی نہیں مرے گا،وہ ایمان کی بدولت ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہے گا یا کفر یا شرک کی حالت میں مرنے پر ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا۔کم سن لڑکے نے کہا جی ہاں آپ کی بات اب میری سمجھ میں آ گئی۔
    لڑکے نے پھر پوچھا یہ ایمان کیا ہوتا ہے۔ بزرگ نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے ؟ لڑکے نے اپنا نام مسلمان جیسا بتایا۔بزرگ نے پھر پوچھا تمہارے گھر والوں نے تم کو اسلام اور ایمان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے ؟  لڑکے نے کہا اسلام اور ایمان کا لفظ تو میں سنتا رہا ہوں لیکن یہ ہوتا کیا ہے نہ کسی نے بتایا نہ میں نے جانا۔آج آپ کے جواب کو سن کر ایمان کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔
        بزرگ نے کہا بچے جو لوگ اپنے آپ کو مسلم اور مومن کہتے ہیں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایمان والے ہیں۔ اور جو لوگ اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب اور عقیدے کے ماننے والے ہیں وہ ایمان والے نہیں ہوتے ہیں۔لڑکے نے کہا جب مسلم اور مومن ایمان والے ہوتے ہیں اور آپ بھی مسلم ہیں تو پھر آپ تو جنت میں ہی جائیں گے۔بزرگ نے کہا،میں نے یہ نہیں کہا کہ مسلم اور مومن کہلانے والے سب لوگ ایمان والے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ایسا سمجھاجاتا ہے۔لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی ظاہر میں مسلم نظر آتا ہے لیکن وہ مسلم نہیں کافر یا مشرک ہو۔ایسی حالت میں وہ آدمی مسلم ہونے کے باوجود جہنم میں چلا جائے گا۔
    لڑکے نے پھر پوچھا کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون جھوٹا ہے اس کا پتا کیسے چلے گا ؟  بزرگ نے کہا قرآن اور حدیث میں ہر مسلم اور مومن کو سات چیزوں پرایمان لانے کا حکم دیا گیاہے۔ اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کے آگے سر جھکایا جائے، اُس سے مدد مانگی جائے، اُس کے بارے میں سمجھا جائے کہ وہ اُس کی مدد کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی مانا جائے اور اُنہوں نے جس طرح زندگی کے سارے کام کرنے کا حکم دیا ہے ویسے ہی زندگی کے سارے کام کئے جائیں۔اُن میں الٹ پلٹ اور ہیرا پھیری نہیں کی جائے۔اس بات کا یقین رکھا جائے کہ جو آدمی شریعت کے مطابق زندگی گزارے گا وہ مرنے کے بعد جنت میں جائے گا اور جو آدمی شریعت کی خلاف ورزی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔اللہ نے فرشتے پیدا کئے جو پوری کائنات میں اللہ کے حکم سے سارے کام کر رہے ہیں۔ انسانوں کی ہدایت کے لئے کتابیں اور رسول بھیجے۔دنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے سب اللہ کو معلوم ہو گیا کہ کب کیا کیسے ہوگا۔اُس میں اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نہیں بدلا جیسے کا تیسا رہنے دیا۔چنانچہ اب انسان کی زندگی میں جواچھا برا ہو رہا ہے وہ انسان کے عمل کا نتیجہ ہے۔اللہ نے اُس کو اچھائی یا برائی کرنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ آزادی دی ہے۔چاہے تو انسان نیک بنے اور چاہے تو برا بن جائے۔اللہ کو معلوم ہے کون اپنی آزادی اور اختیار سے شیطان بنے گا اور کون نیک انسان بنے گا۔کون جہنم میں جائے گا اور کون جنت کا حقدار ہوگا۔ اسی کو تقدیر پر ایمان کہتے ہیں۔
    لڑکے نے پوچھا لوگ کہتے ہیں کہ جب تقدیر میں جنت یا جہنم لکھی ہوئی ہے تو پھر اس میں انسان کا کیا قصور ؟  بزرگ نے کہا غلط کہتے ہیں، ایسے لوگ تقدیر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔دیکھو جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے وہ فرشتے کی طرح معصوم اور بے گناہ ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر بچہ پیدائشی طور پر جنت کا حقدار ہوتا ہے۔لیکن اُس کے گھر سماج اور دنیا والے اُس کو اسلام یا کفر و شرک کا عقیدہ دے کر اُس کو جنتی یا جہنمی بناتے ہیں۔ پھر وہ بچہ بڑا ہو کر اپنی مرضی اور خواہش اور عقل کے خلاف کسی کی بات نہیں مانتا ہے یہاں تک کہ ماں باپ کی بات بھی نہیں مانتا ہے۔تو سوچو وہ بچہ اپنے سارے عمل کا ذمہ دار خود ہوا یا اُس کے گھر سماج اور دنیاوالے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو ایسا بننے پر مجبور نہیں کیا اس لئے اُس کے عمل اور انجام کی ذمہ داری اللہ کے طے کئے ہوئے منصوبے(تقدیر) پر نہیں ہوگی۔
        لڑکا کچھ سوچنے لگا۔بزرگ نے کہا دیکھو میں تم کو یہ بات ایک دوسرے طریقے سے سمجھاتا ہوں۔مان لو کہ  دوآدمی روپے کمانے کے لئے دبئی چلے جاتے ہیں اور خوب دولت کمانے لگتے ہیں۔ایک آدمی وہاں ڈھیر ساری دولت کما کر بڑا سا شاندار محل کرایے پر لے لیتا ہے۔بہت عمدہ اور قیمتی سامانوں سے اپنے مکان کو ایسا سجاتا ہے کہ لوگ اُس کی تعریف کرتے ہیں۔اُ س کے پاس سب سے مہنگی موٹر کار اور نوکر چاکر ہوتے ہیں۔پوری شان و شوکت کے ساتھ وہ دبئی میں رہنے لگتا ہے۔دوسرا آدمی دبئی میں کمائی ہوئی دولت اپنی ذات پر صرف ضرورت بھر خرچ کرتا ہے اور بچائی ہوئی ساری دولت اپنے وطن میں اپنے گھروالوں کو بھیج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس روپے سے کھیتی کرنے والی زمین زیادہ سے زیادہ خریدو اور اُس میں ہر طرح کے پھل کا درخت لگاؤ۔ایک مدت کے بعد زمین خریدنے والے کا کئی ایکڑ میں پھلوں کا ایک باغ بن جاتا ہے اور اُن پھلوں کی آمدنی سے لاکھوں کی آمدنی ہونے لگتی ہے۔تیس سال کے بعد دبئی کے قاعدے کے مطابق دونوں آدمیوں کو دبئی چھوڑ کر اپنے وطن آنے کا حکم دیا جاتا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر دبئی چھوڑ دیجئے۔جو وہاں شان و شوکت کی زندگی گزار رہا تھا اُس کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ کبھی دبئی چھوڑ کر جانا پڑے گا۔یہ سن کر اُس کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ جو اپنی ساری دولت اپنے وطن بھیج رہا تھا اُس کو معلوم تھا کہ ساٹھ سال کے بعد کوئی دبئی میں نہیں رہ سکتا ہے،اس لئے وہ اپنے وطن واپس ہونے کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔دبئی کی حکومت کا یہ حکم سن کر اُس کو پریشانی نہیں ہوئی۔اُس نے اپنی ضرورت کا سامان چھوٹے سے سوٹ کیس میں رکھا اور وطن واپس چلا آیا۔شان و شوکت کی زندگی گزارنے والا اپنی ساری دولت دبئی میں چھوڑ کر خالی ہاتھ وطن لوٹا۔ا ب تم بتاؤ کہ ان دونوں میں عقل مند کون ہوا اور بد عقل کون ٹھہرا۔
    نوجوان نے جواب دیا وہ جو اپنا سب کچھ دبئی میں چھوڑ کر چلا آیا بد عقل تھا۔بزرگ نے سمجھایا کہ دیکھو دنیا میں جو  سچے مومن اور مسلم ہیں وہ کفایت شعار ی کے ساتھ سادہ زندگی گزارتے ہیں اور بچائی ہوئی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں جو اللہ کے بینک میں جنت کے خریدار کے کھاتے میں جمع ہوتی رہتی ہے۔اور جو کافر ومشرک یا انہیں کے جیسے مسلمان ہوتے ہیں وہ اپنی ساری دولت دنیا کی شان و شوکت پر خرچ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں کچھ بھی خرچ نہیں کرتے اور پھر موت کے پنجے میں گرفتار ہو کر اپنی ساری کمائی ہوئی دولت اور جائیداداسی دنیا میں چھوڑ کر خالی ہاتھ جہنم میں جلنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔
    لڑکا بولا آپ کی اسلامی تعلیم کے مطابق سچا مومن یا مسلم شریعت کے قانون کے مطابق زندگی گزارتا ہے، کفایت شعاری سے خرچ کرتا ہے اور بچائی ہو ئی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے۔بزرگ نے کہا ماشاء اللہ تم بہت جلد اعلیٰ درجہ کی بات سمجھ گئے۔ اللہ نے تم پر علم اور حکمت کے دروازہ کھول دئے۔ ان باتوں کی تفصیل خود قرآن اور حدیثوں میں پڑھ لینا۔تم کو یہ دن اور یہ وقت مبارک ہو۔
    بزرگ نہیں معلوم کہاں گئے لیکن وہ لڑکا بڑا ہو کر ایک انتہائی کامیاب انسان بنا۔ اُس نے اپنی دولت سے ایسے ہسپتال کھولے جہاں غریبوں کا سستا اور مفت علاج ہوتا تھا۔ اُس نے اپنی دولت سے ایسے اسکول کھولے جہاں غریب خاندانوں کے بچوں اور بچیوں کی اعلیٰ درجے کی تعلیم ہوتی تھی۔اُس نے اپنی تعلیم گاہوں میں اردو زبان کو ایک لازمی پرچہ بنا یا جس سے اُس کے اسکولوں سے پڑھ کر فارغ ہونے والے بہترین اردو زبان بولنے والے ہوتے تھے۔ اُس نے اپنی دولت سے ایسے ورک شاپ کھولے جہاں غریب خاندانوں کے بچوں کو موٹر میکینک، اے.سی. میکینک،ٹی.وی. میکینک،واشنگ مشین میکینک،اسکوٹر اور بائک میکینک، پلمبر اور الکٹریشین بنایا جاتا تھا۔ اُس نے اپنی دولت سے اپارٹمنٹ بنانے کا کام شروع کیا جہاں ان پڑھ نوجوانوں کو راج مستری بنانے کی تربیت دی جاتی تھی۔ایسے تجارتی ادارے کھولے جہاں غریب خاندانوں کو کاروبار کا شیر ہولڈر بنایا اور ہر مہینے ان کو گھر کا خرچ چلانے کے لئے منافع ملنے لگا۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُس نوجوان کو ایسی عزت اور شان و شوکت بخشی کہ ہر طبقہ میں وہ عزت، محبت اور مقبولیت کی معراج پر پہنچ گیا۔وہ جدھر سے گزرتا سلام کرنے والوں کی لائن لگ جاتی۔
    ایک نادان نے اُس کو مشورہ دیا کہ تم الیکشن میں کھڑے ہو جاؤ۔ زبردست اکثریت سے جیت جاؤ گے۔اُس نوجوان نے جواب دیا، اللہ تعالیٰ نے مجھے جو عزت بخشی ہے، سیاست کے گندے گلیارے میں جا کر میں اُسے کھونا نہیں چاہتا۔ دوسرے یہ کہ میرے پاس ایسی کالی دولت ہے ہی نہیں جس کو سفید بنانے کے لئے مجھے سیاست کے گندے نالے میں ڈبکیاں لگانی پڑیں۔
    کاش ہماری ملت کے موجودہ رہبروں اور رہ نماؤں کو اللہ اُس نوجوان کی طرح ایسی عقل اور سمجھ دیتا کہ وہ ملت کو جلسوں اور پنڈال کے تماشے دکھا کر بے وقوف بنانے سے دور رہتے۔کہنے کو تو یہ ملت کے رہبر اوررہ نما ہیں لیکن ان کے آس پاس صرف ان کے خوشامدی اور مطلب پرست لوگ رہتے ہیں۔ ملت کے مخلص اور پسماندہ طبقات کا اُن سے نہ تو کوئی رشتہ ہے اور نہ وہ اُن کو پسند کرتے ہیں۔
    ہمارے بزرگوں نے دور حاضر کے مسلمانوں پر یوں تبصرہ کیا ہے:

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جا کر
کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی.اے. ہوئے نوکر بنے پنشن ہوئی اور مر گئے
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

«
»

بنگال کے انتخابات ۔۔۔۔یوپی الیکشن کا پیش خیمہ ثابت ہو!!

دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا قرآنی نسخہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے