کشمیر میں عالمی طاقتیں اور ہماری بے حسی

محمدصابر حسین ندوی

عالمی طاقتوں نے ثالثی کے نام پر اور امن و آشتی کی دہائی دیتے ہوئے، جنگ کے خطرات سے ڈراکر، ایٹمی طاقتوں کا خوف دلا کر، دہشت گردی کی بخیہ ادھیڑنے اور مذہبی تشدد کی آڑ لے کر نہ جانے کتنے ممالک کو برباد کیا ہے، بالخصوص مسلم ممالک تہس نہس کر ڈالے ہیں، خلیجی ممالک میں ڈیرے ڈالے، اسرائیل کو وجود بخشا، عراق کو تباہ کیا، لیبیا اور یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، شام کو آگ کے حوالے کردیا، غزہ، فلسطین کو انہیں کے باشندوں پر تنگ کر دیا، افغانستان کی بنیاد یںہلا کر رکھ دیں، کروڑوں کی جانیں گئیں، مال ضائع ہوئے، بھوک مری، ہیبت اور انسان کشی کا دور چلا اور انسانیت کے ماتھے پر ایسا زخم دیا؛ کہ اس کا کوئی مداوا نہیں، دنیا کی خوبصورتی پر وہ داغ لگایا؛ کہ کوئی میک اپ اس کے کام کا نہیں، اسلامو فوبیا کا چہرہ لے کر انسانیت کو تڑپایا گیا،نفرت کا بیج بویا گیا، عداوت کا بازار گرمایا گیا، محبت کو سولی دی گئی، آپسی میل ملاپ پر کاری ضرب لگائی گئی اور امن کا بھونپو بجا کر سب کو خاموش کیا گیا، اپنی طاقت کا زور اور جدید ہتھیاروں کی خوفناکی اور ترقی کی چمک میں سب کو مدہوش کیا گیا۔
جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، فتنوں کی سوداگری میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ مزید کھل کر اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانے اور دنیا کو سلوگن میں الجھائے رکھنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ وہ عالمی گروہ اپنے آپ کو چودھری سمجھتے ہیں، اور اپنی چودھراہٹ میں دوسروں کی نیند حرام کردینا چاہتے ہیں،جس رخ مشرق کی سب سے خوبصورت وادی کی طرف ہے، چنانچہ اب وہی کھیل کشمیر کی حسین سرزمین پر کھیلے جانے کی تیاری ہے، عالمی میڈیا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا ہے، یونائٹیڈ نیشن کی جانب سےکانفرنس بلائی جا چکی ہے؛حالانکہ وہ خود انہیں سرداروں کی گرد پا کو آنکھوں کا سرمہ سمجھتا ہے،ادھرپاکستان پیش قدمی کر چکا ہے، ہندوستان بھی پیچھے نہیں، وہ ایک طرف اپنا بچاؤکرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف ایک طالبعلم کی طرح عالمی طاقتوں کو صفائی پیش کئے جاتا ہے، خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، مستقبل تاریک ترین محسوس ہوتا ہے، ایسے عالم میںاندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ عالمی پلیٹ فارم پر کشمیر کو پیش کرنے سے کچھ مسئلہ حل ہوسکتا ہے، تو یہ محض خام خیالی ہے، جنہوں نے دنیا کو جنگوں کی سوغاتیں دی ہیں، امن کے پس پردہ آبادیوں کو اجاڑ دیا ہے، اور انسانیت کو شرمندہ کردیا ہے، ان سے کیسے امید کی جا سکتی ہے؛ کہ وہ مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہوں گے؟ اگر پاکستان سے بھی وفا کی امید کر لی جائے تو کس منہ سے؟ جنہوں نے اپنے ہی پڑوس افغان کو تباہ کرنے کیلئے امریکہ کو زمین دیدی، جنہوں نے اپنے مدارس و مساجد اور طلباء پر گولیوں کی بارش کردی یا یہ کہ جو خود غریبی، بے روزگاری اور مہنگائی سے جوجھ رہا ہے، وہ کیونکر لاکھوں لوگوں کی تیمارداری کرنے لگا؟ ہمیں ترکی سے امیدیں ہیں، جناب طیب اردوغان بھی مدد کرنے اور کشمیر کے مسئلہ میں دخل دینے کی بات کر چکے ہیں، لیکن اس سے کیا ہوگا؟ ان کے پاس فوجی طاقت اتنی بھی مضبوط نہیں کہ تمام عالمی پروٹوکال کو درکنار کرتے ہوئے ہندوستان کی سرزمین پر دستک دیدیں؟ رہ گئے وہ جبہ اور دستار کے مالکان تو ان سے کسی خیر کی امید رائیگاں ہے، بلکہ وہ وہ دوست ہیں جن کی موجودگی میں کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں۔
  ان سب کے درمیان قابل غور امر یہ ہے کہ اگر مستقبل کا تاریخ داں (بشرطیکہ کوئی سچا تاریخ لکھنے والا پیدا ہوگیا، جس کی امید کم ہے) جمہوریت کے مظالم پر اور کشمیر کی عصمت دری پر لکھے گا، تو ہمارا کونسا کردار نمایاں کرے گا؟ یقینا اس کے قلم میں تھر تھراہٹ سما جا ئے گی، اس کے ہاتھ میں جنبش آجائے گی، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی الفاظ و استعارات سے محتاجی کی شکایت کرے گا، وہ کنارہ کرے گا کہ لکھے تو آخر کیا لکھے؟ ایک پورے صوبے کو قید خانہ بنانے کے دور میں اہل دل اپنے سینہ میں دل سے محروم ہوگئے تھے، مسلمانوں کی اکثریت فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں ہچکولے کھا رہی تھی، لیکن انہیں اس بات کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ جھتے کے جھتے نکل پڑیں، راستوں کو ابن آدم سے بھر دیں، اپنے بستروں کا چین چھوڑ کر اپنے دینی و ایمانی بھائیوں اور بہنوں کیلئے سر بکف ہو جائیں، حالانکہ جن کے آباء و اجداد کا حال یہ تھا؛ کہ ایک بوڑھی خاتون پر ہو رہے ستم کی بنا پر پورا کا پورا ملک تباہ کردیا تھا، اور حکومت کی جڑیں تک اکھاڑ پھینکیں تھیں، لیکن بیسویں صدی میں ان کے اولادوں کی کیفیت یہ تھی کہ ان کی بہنوں کی عزت و آبرو کو سر عام اچھالنے کی بات کی جارہی تھی، انہیں انسانی برادری میں جانور کے گوشت کی طرح تقسیم کر کے کھا جانے اور بوٹی بوٹی نوچ ڈالنے کی تمنائیں پالی جا رہی تھیں اور مسلمان اپنی آرام گاہوں میں خراٹے کی نیند لے رہے تھے۔
ستم ہیں آب و گل پر آب و گل کے چمن لوٹا چمن والوں نے مل کے
اس سے زیادہ قابل عبرت مقام وہ ہوگا جہاں قلم کے نیچے یہ قصہ بھی آئے گا کہ سر پر پگڑی باندھے غیر مسلموں (سکھ)کی بھی رگ غیرت حرکت میں آگئی تھی، انہوں نے اکثریت سے لوہا لیتے ہوئے کشمیری دوشیزاوں کیلئے راحت کا سامان کیا تھا، گرونانک کے متبعین اپنے گرو کے عمامہ کا لاج رکھے ہوئے تھے؛ لیکن محمد مکی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار اور قرآن و سنت کی دہائیاں دینے والے مسلمانوں کے جسم کا قطرہ قطرہ جل گیا تھا، وہ سوکھ گئے تھے، ان کے دلوں کی حرکت بند ہوگئی تھی، وہ زندہ لاش بن کر زندگی گزار رہے تھے، انہیں اس سے کوئی مطلب نہ تھا؛ کہ ان کے بھائی زندگی کی رونق سے محروم ہوجائیں، ان کی بہنیں اپنے سروں سے دوپٹے کھو دیں، ان کے بچے بلک بلک کر مر جائیں، مورخ کا قلم یہی نہیں رکے گا وہ آگے بڑھے گا اور ستم کی داستان لکھتا جائے گا، اور یہ لکھے گا کہ یہی مسلمان تھے جو اس وقت آپسی انتشار کی محفلیں گرم کئے ہوئے تھے، نسبتوں پر لڑ کر، بھڑ کر مرے جارہے تھے، انہیں قرآن پر بھی اتفاق نہ تھا، ان کی عبادات کا جنازہ نکل رہا تھا، ان کے سامنے انسانیت دم توڑ رہی تھی اور وہ بد مست جانور کی طرح خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچائے جا رہے تھے۔
مورخ ابن اثیر نے تاتار کی بر بریت کو لکھتے ہوئے جن احساسات کا اظہار کیا تھا، شاید اس سے بڑھ کر اکیسویں صدی کے مسلمانوں کی بے حسی کے بارے میں لکھا جائے گا، بالخصوص فلسطین اور جدید پیرائے میں ابھرتا ہوا ایک نیا فلسطین یعنی کشمیر کے بارے میں لکھا جائے گا، اس حقیقت کو قبول کرنے میں کوئی باک نہیں کہ مسلمانوں کی بے دلی نے ہی ان مسائل کو جنم دیا ہے، آزادی ہند کے بعد سے کشمیر کا معاملہ گرم رہا ہے؛ لیکن وہاں کے سیاسی رہنماؤں نے اس کا فائدہ اٹھایا، نہ صرف اپنی سیاست چمکانے کیلئے بلکہ خاندانی برتری اور اقتدار کی ہوس نے پورے کشمیر کو جیل خانہ بنا دیا، اب عالم یہ ہے کہ وہ اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے، اپنی آخری سانس کی طرف بڑھ چکا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہوگا، جب کرفیو ہٹا دیا جائے گا تو کس طوفان کی آمد ہوگی؟ کونسان سیلاب اٹھے گا اور کس موڑ پر اس کا اختتام ہوگا؟ کسی کو نہیں معلوم!!!!
اندیشے بہت ہیں اور قیاس آرائیوں کی کمی نہیں ہے، عالمی طاقتوں کا دخول ممکن ہوتا جارہا ہے، پاکستان ہر محاذ پر سرگرم دکھ رہا ہے، خبروں کی مانیں تو افغانستان کے مجاہدین بھی کشمیر کا رخ کرنے والے ہیں، لیکن ان سب سے کیا ہوگا؟ یہی کہ جنت نما صوبہ جہنم کی آگ میں جھلس جائے گا، اس کے ماتھے کا جھومر خون آلود ہوجائے گا، جس کا اثر پورے ہندوستان پر پڑے گا، مسلمانوں کو بھی گاجر مولی کی طرھ کاٹا جائے گا، ان کی آرام گاہوں میں ان کی گردنیں پڑی ہوں گی، ان کے سروں پر تلواریں لہرا رہی ہوں گی اور وہ سب اپنی کرتوتوں کا مزہ چکھ رہے ہوں گے، جو لوگ کشمیر کو صرف ایک صوبہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، وہ جان لیں! وہ محض ایک صوبہ نہیں؛ بلکہ مسلمانوں کا اعزاز ہے، جسے دبوچنے کی کوشش ہے، پھر باری آئے گی، سب کی باری آئے گی، اعزاز نہیں تو زندگی نہیں، طاقت نہیں تو جینے کا حق بھی نہیں۔ کلیم عاجز کا یہ طنز بر محل لگتا ہے:
تم تو بے درد ہو بے تابی غم کیا جانو اہل دل پر جو گزرتے ہیں ستم کیا جانو
شمع کیوں جلتی ہے سر تابہ قدم کیا جانو ہائے کیا چیز ہے مجبوری غم کیا جانو
تم سے نا حق ہے مجھے چشم وفا کی امید تم بھلا شیوہ ارباب کرم کیا جانو
رسن و دار کو خاک کف پا بھی نہ ملا کس جگہ اہل جنوں کا ہے قدم کیا جانو
دل تو یہی کہتا ہے کہ کشمیر خود اٹھے، پیروں کو مضبوط کرے، اپنے ایمانی جوش و حمیت اور گرماہٹ کو تازہ کرے، اہل دل ان کا ساتھ دیں، انسانی حقوق کا خیال کرنے والے ان کے قدم سے قدم ملائیں، آر ایس ،ایس کی سوچ کا مقابلہ کریں، فاشزم کی بیخ کنی کریں، اپنے خدا کو ہی اپنا حامی و ناصر مانیںاور اپنا لائحہ عمل تیار کریں، افغان اور افغانستان سے سبق لیں۔اگر ایسا نہ ہوا تو یقین جانئے! رواں حکومت اسرائیلی پالسی رکھتی ہے، ایک اور فلسطین کے وجود میں دیر نہ لگے گی، شیاطین خود اتر آئیں گے، آبادیاں تنگ کردی جائیں گی، زمین سکڑ جائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا کشمیر سبزہ سے محروم ہوجائے گا، اور زعفرانیت کا غلبہ ہوجائے گا، یاد رکھئے! ہتھیاروں کا خوف ہوتا ہے؛ لیکن حکومت سیاست کی ہوتی ہے۔ طاقت کا دبدبہ ہوتا ہے؛ لیکن بصیرت کی فتح ہوتی ہے۔ جھنڈے مضبوط بازو گاڑتے ہیں؛ لیکن اسے بلندی حکمت و دانائی سے ملتی ہے۔
گزر کے منزل دار و رسن سے دیکھ لیا یہ کام سہل ہے ہمت اگر کیا جائے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

04ستمبر2019  (فکروخبر)

 

«
»

رویش کمار کے ویڈیو، ناگپور کی ریلی اور گوتم گمبھیر کے ٹوئٹ کا سچ

قندیل اثاثہ ہے ، اثاثہ جو میں سمجھوں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے