کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

ذوالقرنین احمد

ملک عزیر بھارت اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ درجنوں کمپنیاں بند ہوگئی ہے یا پھر بند ہونے کی کگار پر ہے۔ بڑے بڑے بزنس میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو اسکی اہم وجہ بتا رہے ہیں۔ ۲۰۱۴‌میں جب سنگھ پریوار کی سیاسی جماعت  مرکزی اقتدار پر قابض ہوئی تب ابتدائی دور سے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا ہوگیا اور فرقہ پرستوں کو کھولے عام دہشت گردی کرنے کی چھوٹ مل گئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیا کے یہ لوگ با قاعدہ کسی کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور انہیں حکومت کی طرف جیسے کوئی لائیسنس دے دیا گیا ہے۔ ای وی ایم میں ایک  گھوٹالے اور فرقہ پرستوں کے متحد ہونے کی بنا پر بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا۔ اور اب انھیں فرقہ پرست عناصر کے اشارہ پر اپنے مقصد کی طرف روا دوا ہے۔ بی جے پی نے صرف ۲۰۱۴ میں جیت حاصل کرنے کے بعد خوشیاں منانے میں مصروف نہیں رہی بلکہ ۲۰۱۹ کے انتخابات کیلئے بھی زمینی سطح پر کام کرتی رہی وہ کام فرقہ پرست عناصر کو اپنے پروپیگنڈا کے تحت مشتعل کرنا اور مسلمانوں اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہنا بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ جیسے مدعو کو اٹھاکر اپنے حواریوں کو بی جے پی کی طرف متوجہ کیا گیا۔ 

حکومت کے بے وقوفانہ اور غیر منصوبہ بند فیصلے کی وجہ سے ملک کی معیشت کو سب سے بڑا جھٹکا لگا جس سے ملک کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے اور جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ آج ڈگریاں لے کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ سرکار خالی جایدادوں کو بھرنا ہی نہیں چاہتی ہے۔ کیونکہ فلحال ملک کا معاشی نظام پوری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ جس میں تعلیمی بجٹ کو ہی مشکل سے پورا کیا جارہا ہے۔ نوٹ بندی کے وقت جو پریشانی عوام کو ہوئی وہ ملک کی عوام کبھی نہیں بھول سکتی ہے۔ اتنے پریشانیوں سے دوچار ہونے کے باوجود بی جے پی کے دوبارہ مرکزی اقتدار میں آنا معنی خیز ہے۔ اور بہت بڑا سوال کھڑا کرتا ہے۔ جی ایس ٹی کی مار نے عام انسانوں سے لے کر متوسط طبقے کے افراد کو معاشی طور پر متاشر کیا اور بڑے بڑے بزنس مین کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ ملک کے سرکاری اداروں کو حکومت کارپوریٹ کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ سرکاری اسکولیں کم ہوتی جارہی ہے۔ تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ سوسائٹی کے حوالے کردیا جارہا ہے۔ یا یوں سمجھے کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلانے سے عوام کو انکار کر رہی ہے۔ خالی جایدادوں کو پر کرنے کی کوشش تک نہیں کی جارہی ہے۔ ۱۰ سال کے بعد ٹیچرز کی بھرتی کی جارہی ہے۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں ڈی ایڈ بی ایڈ کامیاب نوجوان خالی بیٹھے ہوئے اور خالی جگہ صر ہزار میں بھری جارہی ہے۔ 

ملک کا معاشی نظام اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے کہ ایک عام آدمی کی مہنگائی کی مار نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دن بہ دن مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ملک کے پیسہ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں گرتی جارہی ہے۔ ٹیوٹا اور ہونڈئی میں کار مینوفیکچرنگ بند کردی گئی ہے۔ ۳۵۰ ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ جن ستا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک کروڑ ملازمین کی نوکریاں چلی گئیں ہے۔ ایسی سیکڑوں کمپنیاں جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی مار کی وجہ سے بند ہوگئیں ہیں۔ جس سے ملک کے اندر بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔  ۲۰۱۹ کے انتخابات جیسے جیسے قریب آرہی تھے اس وقت ملک کے اندر عجیب کیفیت تھی۔ ایک عجیب خاموشی بھی الیکشن کے دیڑھ دو سال قبل دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے پیچھے بہت سارے راز چھپے ہوئے تھے۔ اور بہت کچھ خاموشی کے ساتھ ملک کے اندر ہورہا تھا جس میں عوام کو دیگر موضوعات میں الجھا کر رکھا گیا تھا۔ اور پردہ کے‌ اندر اپنے میشن کے تحت کام کیا جارہا تھا۔

 

حال ہی میں مسلم مخالف اور مسلمانوں کو پریشانی کرنے کیلے ایسے بل کو  بہت ہی جلد بازی میں  پاس کروایا گیا جس کی امید نہیں تھی کہ ایسے بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے پر دورے جاری ہے۔ جس پر لاکھوں روپیہ حکومتی خزانے سے خالی ہورہا ہے۔ ملک بڑی سنگین دور سے گزر رہا ہے۔ حال ہی میں دفعہ ۳۷۰ دور ۳۵ اے کے ختم کردینے کے بعد سے کشمیر کے حالات کو فوج کے زریعے پوری طرح قابو میں رکھا گیا ہے۔ اگر حکومت یہ مانتی ہے۔ کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہیں تو پھر اپوزیشن کے لیڈروں کو کیوں سری نگر ائیر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا ہے۔ کیوں میڈیا پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کیوں کشمیریوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر پیلٹ گن کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ حکومت کو اور ملک کی عوام کو کشمیر تو چاہیے پر کشمیری نہیں !

 فوج کے زریعے تقریباً ۲۲ روز سے عوام کو خوف زدہ کیا جارہا ہے۔ اسکول اور سرکاری دفاتر کو بند کردیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ سروس اور موبائل فون سروس کو بند کردیا گیا ہے۔ یہ کیا انصاف ہے۔ معصوم بچوں کو پیلٹ گن کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کشمیر کی عزت دار پاکیزہ نفوس کی عزتیں تار تار کی جارہی ہے۔ بوڑھے والدین کے سہاروں کو قتل کیا جارہا ہے۔ معصوم بچوں کو یتیم کیا جارہا ہے۔  بنت حوا کو گودوں کو ویران کیا جارہا ہے۔ کشمیری ماؤں بہنوں کو بیوہ کیا جارہا ہے۔ انکے سامنے انکے نوجوان بچوں کو جیلوں میں قید کیا جارہا ہے۔ کرفیوں نافذ کردیا گیا ہے۔ ہر طرف خوف کا ماحول ہے۔ موت کا رقص جاری ہے۔ جس طرح فلسطین میں اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر ظلم کرتی آرہی ہے۔ آج کشمیر کے حالات بھی اسی طرح دیکھائی دے رہے ہیں۔ اور پھر عالمی میڈیا کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن وہاں کے حالات سے بلکل نہیں لگتا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ کیونکہ ٹھیک ہوتا امن بحال ہوتا تو اپوزیشن لیڈروں کو ائیر پورٹ سے ہی واپس نہیں بھیجا جاتا، کشمیری مائیں رو رو کر اسلامی ممالک سے مدد کی بھیک مانگ رہی ہے۔ آخر ان کشمیریوں کا کیا جرم ہے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ شیلا راشد کو حق بولنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 

کشمیر کے لیڈروں کو گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اگر حکومت کو کشمیر چاہیے تو بھر کشمیریوں کو بھی خوشی سے قبول کرنا ضروری ہے۔ اگر فوج کے زریعے اس خطہ پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں تو یہ حکومت کی بے وقوف ہے۔ ظلم جبر اور زیادتیوں سے کبھی فتح نصیب نہیں ہوا کرتی ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھتا ہےتو وہاں کی عوام بغاوت کے علم بلند کرنا شروع کردیتی ہے۔ پھر وہ اپنے حق کو حاصل کرے کیلے کسی کے بھی خوف تلے دبے نہیں رہتی ہیں۔ پھر وہ غلامی کی زندگی گزارنے سے بہتر آزاد اور باوقار موت کو پسند کرتی ہے۔ مسلم ممالک کو خوب خرگوش سے بیدار ہوجانا چاہیے جنہوں نے اپنے آستینوں میں سانپ پال رکھے ہوئے ہیں۔ اور جنہیں وہ اپنا خیر خواہ سمجھ رہے ہیں۔ یہ دراصل انکے ازلی دشمن ہے۔ یہ کبھی بھی‌ مسلمانوں کے خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتے ہے۔ بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ ایک ایسے شخص کو عرب ممالک نے سب سے بڑا امن ایوارڈ سے نواز ہے۔ جسکے سر گجرات کے بے قصوروں کے قتل کا الزام عائد ہے۔ مسلم قیادت اتنی بے ہس ہوچکی ہے کہ بے گناہوں کی چیخیں سن کر بھی وہ اپنی زندگیوں میں مست ہے۔ عالمی میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہاں غیروں کا رونا کیا رویا جائے جب اپنے ہی بے ہس و بے غیرت ہوچکے ہو۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

26اگست2019۰فکروخبر)

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے