عیدالفطر کا پیغام اور اس کاتقاضہ۔

            اس کی ہر ادا میں پیار ومحبت، حسن سلوک،آپسی بھائی چارہ،اور  رواداری کا خوبصورت پیغام ہے

                                                       مولانا محمدشمیم ندوی
                                                    مدرسہ ریاض الجنۃ
                                                       عقب رحمانیہ مسجد، برولیا، ڈالی گنج، لکھنو

        عیدالطفر۔  رمضان  المباک کے پیغام اور اسکے تقاضوں کو پورا کرنے والوں کے لئے خالق کائنات کی مہمانی کادن اسکے انعام کا دن ہے، پھرنہ معلوم ہم میں سے کتنے لوگ تقدیرکے فیصلہ کے مطابق آئندہ رمضان تک موت کے دروازہ سے ابدی زندگی کے لئے رخصت ہوجائیں گے،جہاں صرف نیکیاں ہی کام آئیں گی،اسلئے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے ہم خود اپنااحتساب کریں،اور اپنے نفس کاجائزہ لیں،او  یہ جاننے کی فوری کوشش کریں کہ تقوی اور  اللہ کی عبا دت واعمال صالحہ کے ذریعہ ما ہ مبارک کے عظیم گرانقدرلیل و نہارکے کتنے حقوق اداکئے،جس سے ہم اللہ کے انعام اور اس سے مزدوری لینے کے مستحق ہوئے کہ نہیں،اور اس ماہ مقدس میں کیاپایا کیاکھویا؟ 
     یوں توقدیم زمانہ سے ہی دنیا کی تمام قومیں اپنے عقائد کے اعتبار سے عید وخوشی کا دن مناتی آئی ہیں،اورتاریخ میں سب سے پہلی عید ہابیل اور قابیل کے زمانہ میں  اس وقت منائی گئی جب ان دونوں کے درمیان جنگ کے بعد صلح ہوگئی،تو ان کی قوموں کے لئے عیدکادن قرار پایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس دن اپنے مشن (بت پرستی سے دور رہنے کی تلقین)کا آغاز کیا، اس دن کو قوم مسلم کے لئے”یوم عید“قرار دیا،اہل مصر نے اپنے دیوتاؤں کے جنم دن کی یاد میں ”عید“منایاکرتے تھے،جس کا نام ”نوروز“ رکھاگیاتھا،قدیم یونان کے باشندے فصل کاٹنے کے دن عیدمناتے تھے،عیسائیوں میں ۵۲/ دسمبر(کرسمس ڈے)عیدہی کی طرح منایاجاتا ہے، اس تاریخی منظر نامہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر قوم کا”یوم عید“کسی نہ کسی مقصد کے طور پر منایاجاتا ہے،توپھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ امت جو سب زیادہ بامقصداور عظیم قوم ہے اسی کی ”عید“ بغیر کسی مقصد کے طے پائے، کیونکہ دین اسلا م انسانی زندگی کے تمام گوشوں کی رعایت  کے ساتھ انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف لاتا ہے،جس میں پوری انسانیت کے لئے خوشی کا پیغام ہے۔
     حقیقت ہے کہ جہاں خوشی ومسرت، دکھ ودرد،راحت وآرام، بے چینی وبیقراری یہ سب انسان کے فطری تقاضے ہیں، اور بقول شاعر!
   خوشی کے ساتھ دنیامیں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں         جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں 
وہیں انسانی فطرت ہے کہ وہ خوشی ومسرت کے مواقع کا متمنی اور خواہشمند ہوتا ہے،اسی خواہش کی تکمیل کے لئے اسلام نے ہمیں دو ایسے تہوار (عید الفطر اور عیدالاضحی)عطا کئے،کہ روئے زمین پر اسکی  مثال نہیں مل سکتی۔
      بلاشبہ عید کا دن تہذیب وشائستگی کا جشن مسرت،اسلام کی اعلی اقداراو ر عظیم روایات کی علامت،اور  انعام کے طور پر عطیہ الہی اور ایسا عظیم تحفہ ہے،جو  ۷۲/مارچ ۴۲۶ء مطابق یکم شوال ۲/ہجری  جو جنگ بدر کی  فتح مبین کے بعدسے منایاجارہا ہے، اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے کتنا ایمان افروز تھا اس پہلی نماز دوگانہ کا دلکش منظرجسے آپ ﷺ نے اپنے جانثار صحابہ کرام ومقد س جماعت کے ہمراہ مدینہ منورہ سے باہر اپنے گھروں سے نکل کرتکبیر وتمحید کی صدائیں اللہ اکبراللہ اکبرلاالہ اللہ وللہ اکبر اللہ اکبروللہ الحمدبلندکرتے ہوئے عیدگاہ جاکرنماز عیداداکی تھی۔
     عہد الفطر  “جو اپنے دامن میں ہزاروں خوشیاں اور مسرتیں لیکر آتی ہے،اور  بندہ شکرانے کے طور پر دورکعت نماز دوگانہ اداکر کے خالق کائنات کاسجدہ شکر بجالاتا ہے، عید ایک طرف پیار ومحبت اتحاد واتفاق، آپسی بھائی چارہ کے ساتھ خوشیوں کو مل بانٹ کرمنانے کا پیغام دیتی ہے، تودوسری طرف رنج وغم کو بھو ل جانے اورمسرت وشادمانی کے دیپ جلانے کے ساتھ نفرت وکدورت کی خلیج کوقربت ومحبت میں بد ل دیتی ہے،اس سے اخوات انسانی وصلہ رحمی کا سبق ملتا ہے،نیزغریب،پریشان ومفلس بھائیوں کی دلجوئی اور غمخواری کا ذریعہ بھی ہے،اسکی ہر ادامیں پیار ومحبت، حسن سلوک، آپسی بھائی چارہ اور رواداری کا خوبصورت پیغام ہے۔
    عیدالفطر ہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے بہشت کو پیداکیا،اسی دن حضرت جبریل کو پیغام لے جانے کا شرف حاصل ہوا،اور یہی وہ دن ہے جس میں روزہ داروں کو یہ پیغام سنایاجاتا ہے کہ اپنے پروردگار کی عبادت کے لئے چلوجو تمہاری عبادت قبول کرتاہے،اور اس کا زبردست اجر وثواب دیتا ہے، اور گناہوں کو بخش دیتاہے،روزہ درحقیت یہ بتاتا ہے کہ دنیا پابندی اور امتحان کی جگہ ہے،اور عید اس امتحان کا نتیجہ اور پابندی سے چھٹکارہ کا دن ہے، جو اسمیں کامیاب ہوگیا اس کو آخر ت میں کامیابی او ر راحت ملے گی،، حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ عیدالفطر کے دن فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہوکر آواز دیتے ہیں،کہ اے مسلمانوں رب کریم کے دروازے پر آؤ،وہ تمھارے لئے بھلائی اور خیر کے خزانے لئے ہوئے ہے،اور بہت سارا  اجر عطافرمائے گا،تم نے اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے روزے رکھے،تراویح پڑھی،اب آؤ، اورانعام لو،یہ امیروں اور غریبوں سبھی کے لئے خوشی کا پیغام لیکر آتی ہے،اور ببانگ دہل اعلان کرتی ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کرو، اوربقول مولانا ابوالکلام آزاد”عید ہمیں دوستوں سے محبت، غیروں سے کرم نوازی کا سبق دیتی ہے“۔
     عید صرف رنگ، خوشبو،وزیبائش، مسرتوں قہقہوں اور عیدی و شیرینی کا تہوار نہیں،بلکہ یہ روحانی و قلبی مسرتوں کانام ہے،جو دوسروں کو بانٹ کر ہی حاصل ہوتی ہے، اسلام نے ہر موقع پرمسلمانوں کی باہمی اخوت اور بھائی چارے کا درس دیاہے، اسی لئے  ہم مسلمانوں پر یہ فریضہ بھی عائدکیاگیا ہے کہ  رنگ رلیا منانے اورکھیل تماشوں میں مگن ہونے کے بجائے امیر اپنے غریب بھائی کی اعانت کرے، ہم عید کی خوشیوں میں غریبوں،ناداروں،یتیموں کو نہ بھولیں، تاکہ غریب بھی اپنی دنیا کی نعتوں سے مستفید ہوسکے،ان سے نرمی کا برتاؤاور مساوات کا رویہ اپنائیں،جس سے ان کو بھی سماج میں اپنے وقار اور عظمت کا احساس ہو، اور وہ محرومی کا شکار نہ ہو نے کے ساتھ ہی انھیں اپنی غربت وناداری پردکھ درد کا احساس نہ ہو،، اور خوشی کے ساتھ اس موقع سے لطف اندوز ہوسکیں، اور زکوۃ وصدقات کا مقصد بھی یہی ہے کہ سارے مسلمان مل کر عید منائیں،کیونکہ خدائے پاک کے نزدیک ایسے انسان کی عید کوئی معنی نہیں رکھتی جو بے کس ونادار پڑوسیوں اور درشتہ داروں کو بھلاکربزم مسرت سجائے۔
    صدقہ فطر عیدکے دن کی عبادات میں سے ایک ایسی عبادت ہے جو روزہ دار کے روزہ میں کوتاہیوں ونقص کی تلافی کاذریعہ، اسکی پاکیز گی وتطہیر کاسبب،غرباء، فقراء،مساکین لئے راحت و غذا کاباعث،اسلامی معاشرہ کی سعادت مندی، مسلم سماج کاوقاور بلندہونے کے ساتھ اسلامی اخلاق کا اجتماعی مظاہرہ، اسلام کے فلسفہ اخوت کاعملی مظہر اور امت مسلمہ کی باہمی رواداری کا امتحان بھی ہے، جو عید کے دن صبح صادق کے وقت سے واجب ہوجاتاہے۔
         صدقہ فطر  جو اس سال ایک شخص کی فطرہ کی رقم ۵۴/ روپے ہوتی ہے،  عیدسے قبل ہی ادا کردینا چاہیئے تاکہ مسکین اور نادار افراد بھی عید کی خوشیاں سب کے ساتھ شانہ بشانہ منا سکیں،کوئی بندہئ خدارنجید وغمگین نہ ہو،  اور سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں، پڑوسیوں کا خاص خیال رکھنے کے لئے کہا گیا، کیونکہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں،جواپنی تنگ دستی اور ناداری کا ذکر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں،اور فقیر وفقراء کا تو سبھی لوگ خیال رکھتے ہیں، تبھی صحیح معنوں میں عیدالفطر کی حقیقی خوشی حاصل ہونے کے ساتھ عیدالفطر کے تقاضے پورے ہونگے۔
    عید کے مبارکباد کے حقیقی مستحق وہ ہیں جس نے رمضان المبارک کے تقاضے پورے کئے ہونگے، پورے روزے رکھے ہونگے،رمضان المبارک کی صداؤں پر لبیک کہاہوگا، جس نے رمضان المقد س کی روشنی سے اپنے دل کے مکان منور کئے ہونگے، ،قرآن مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی فکر کی ہوگی،اور انھیں کو حقیقی سعادتیں، برکتیں،رحمتیں،اور مسرتیں حاصل ہوں گی، کیونکہ اس دن کو خالق کائنات نے روزہ داروں کیلئے ہی خاص فرمایا ہے،بے روزہ دار تو ان کے طفیلی ہوتے ہیں،عیدکا دن اور دیگر بے روزہ داروں کے لئے ایک ہی جیسے  ہیں،اسلئے وہ خوشی ومسرت، روحانی تسکین ان کو کیسے میسر آسکتی ہے۔
    عید کا مقصد اور اس کا پیغام یہ ہے کہ ہم انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی خوشیاں اخوت ومحبت کے ساتھ منائیں، غریبوں کو سہارا فراہم کرکے، ٹو ٹے دلوں کو جوڑ کر، روٹھے عزیزوں کو مناکر عید منائیں، روحانی وجسمانی کدورتیں دلوں سے نکال کر بلاتفریق  ہرکسی سے ملیں، آپسی رنجشوں اور اختلافات کوفراموش کرکے محبت واخوت اوربھائی چارگی کا پیغام آپس میں گلے مل کردیں، کیونکہ عید دید بھی ہے، اور گفت وشنید بھی،اور اسلا م ہمیں اجتماعیت کا درس دیتا ہے،خود غرضی کا نہیں۔
    یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ عیدکادن ایک وقار اور شائستگی وسنجیدگی کے ساتھ منائیں،دوسری قوموں کی طرح لہولعب میں پڑنادین فطرت کے خلاف ہے،لہولعب میں پڑکر اپنے تہذیبی اسلامی تشخص اور وقار کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کریں، اسلامی ذوق، اسلامی ہدایات  و آداب کالحاظ کرکے ان بھائیوں کو یہ پیغام دیں جو غیر مہذب انداز میں تیوہار مناتے ہیں۔
    دعا ہے کہ اللہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عیدالفطر کی خوشیاں منانے، اور سال کے  بقیہ دن بھی اسی تقدس  وعظمت  سے گذارنے کی توفیق دے، الھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی، الے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں،اور معافی پسندکرتے ہیں،میری خطائیں معاف فرمائیے۔(آمین)ملت اسلامیہ وقارئین سے دعا کی درخواست،وعیدمبارک۔
         

«
»

عیادت کی اہمیت حدیث کی روشنی میں

کیا ہے ’صدی کی ڈیل‘؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے