ہندستان کسی کی جاگیر نہیں ہے ’ٹوئیٹر پر نریندرمودی کیلئے سبق‘

عبدالعزیز

ایمرجنسی کے زمانے میں ڈی کے بروا انڈین نیشنل کانگریس کے صدر تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ "Indra is India – India is Indra" (اندرا انڈیا ہے اور انڈیا اندرا ہے)۔ یہ شخصیت پرستی کی انتہا ہوتی ہے جب انسان کسی شخص کو کسی ملک، قوم، جماعت یا فرقے کیلئے ناگزیر سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ ناگزیر لوگوں سے قبریں بھری پڑی ہیں۔ جولوگ مسٹر بروا کی طرح اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ آج بھی زندہ ہیں۔ لیکن اب وہ کانگریس کی پارٹی میں نہیں ہیں، بی جے پی میں ہیں۔ نریندر مودی کو ملک ہندستان کیلئے محض اس لئے ناگزیر سمجھتے ہیں کہ مودی پہلے سے کہیں زیادہ بی جے پی کو ووٹ دلانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ ڈی کے بروا کی جگہ امیت شاہ نے لے لی ہے جو اپنے صاحب کو آسمان پر چڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نریندر مودی بھی اپنے آپ کو کوئی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ 
ان دنوں ملک تناؤ میں ہے لیکن نہ مودی کی زبان پر سنجیدگی اور پابندی ہے اور نہ ہی ان کے شاگرد رشید امیت شاہ کی زبان پر سنجیدگی اور پابندی ہے۔ پی ایم او سے مودی کی ایک تقریر کے ایک حصہ کو ٹوئیٹ کیا گیا ہے : ’’نہایت افسوس ہے کہ کچھ پارٹیاں مودی سے نفرت کرتے کرتے اس حد کو پہنچ گئی ہیں کہ وہ ہندستان سے نفرت کرنے لگی ہیں۔ جب سارا ہندستان ہمارے فوجیوں کی حمایت کر رہا ہے تو یہ لوگ فوجیوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں‘‘۔ اسی تقریر میں نریندر مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کی پذیرائی اور تعریف نام لے کر کی جارہی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اپوزیشن کی کسی پارٹی کے لیڈر کا نام تو پاکستان کی پارلیمنٹ میں نہیں لیا گیا ہے لیکن پاکستانی ٹی وی چینل اور پارلیمنٹ میں بی جے پی کے لیڈروں کا نام لیا جارہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ کرناٹک اور بی جے پی کے لیڈر یدو رپّا کا بیان پاکستان کے اخباروں، ٹی وی چینلوں میں اور پارلیمنٹ میں حوالے کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ یدو رپا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’پاکستان پر فضائی حملے سے مودی لہر پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے کرناٹک میں بی جے پی کو 28سیٹوں میں سے 22 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوجائے گی‘‘۔ اسی طرح گجرات کے ایک بی جے پی لیڈر نے کہا ہے کہ ’’فضائیہ کے حملے سے اور پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے سے نریندر مودی ملک کے دوبارہ وزیر اعظم ہوجائیں گے‘‘۔ بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کی غیر معمولی ستائش کی گئی ہے اور ٹوئیٹر پر انھیں ہندستان کے برابر بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک طرح سے بروا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو اندرا گاندھی کو ہندستان کے برابر قرار دیا تھا۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ فانی دنیا میں نہ بروا رہا ، نہ اندرا گاندھی رہیں۔ اندرا گاندھی کو تو ان کے محافظوں نے ہی قتل کر دیا جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کتنا ہی بڑا اور با اختیار ہو اسے زمین کھاجاتی ہے۔ ؂ ’’زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے‘‘۔
آج (2 مارچ) کے شمارہ میں انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار فیروزیل ونسینٹ نے مذکورہ ٹوئیٹر کے پیغام اور اس دوران مودی کی تقریر پر جو ٹوئیٹر پر تبصرے یا سوالات کئے گئے ہیں اس کو ایڈٹ کرکے حسب ذیل سطروں میں پیش کیا ہے۔ 
مدھومیتا مجمدار: ’’نہایت افسوس کی بات ہے کہ پی ایم او (پرائم منسٹر آفس )سے تعجب خیز اور حیرت انگیز باتیں پیش کی جارہی ہیں۔ جمہوریت میں ہر شہری کو حکومت یا وزیر اعظم سے سوال پوچھنے کا حق ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والا ہر شہری جانتا ہے کہ ان کا تعلق اس سے ہے اور ان کو سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے‘‘۔ 
سرت: ’’ہم سب ہندستان سے محبت کرتے ہیں ۔ جناب! آپ انڈیا نہیں ہیں۔ آپ انڈین ہیں۔ انڈیا نے بہت سے وزیر اعظموں اور بہت سی جنگوں کو دیکھا ہے۔ لیکن بی جے پی کی طرح کسی نے بھی سیاست بازی نہیں کی ہے۔ آج میں شرمندہ ہوں کہ میں نے بی جے پی کے ایک ایم پی کو 2014ء میں ووٹ دیا تھا‘‘۔
ابھیجیت راج: ’’فوجیوں سے کوئی سوال نہیں کر رہا ہے۔ حقیقت میں آئی اے ایف نے صاف کہا ہے کہ انسانی جانوں کے نقصانات کا اسے کوئی اندازہ نہیں ہے۔ یہ آپ کی حکومت ہے جو 300 سے زیادہ کی تعداد پیش کرکے قوم و ملک کو گمراہ کر رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ حکومت اپنا وقار کھوتی چلی جارہی ہے‘‘۔ 
نندیتا سین: ’’کسی کو بھی مسلح افواج پر شک نہیں ہے۔ ہم لوگ سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ ہندستانی حکومت پر تنقید کرنا ملک سے دشمنی یا قوم سے غداری نہیں ہے۔ کوئی لیڈر اچھا نہیں ہوسکتا ہے جو خوشامدیوں (Yes Man)سے گھرا ہوا ہو‘‘۔ 
نِکیتا نٹراجن: ’’کیا مودی سے نفرت انڈیا سے نفرت ہے؟ کیا وزیر اعظم مودی اپنے آپ کو انڈیا کے برابر سمجھنے لگے ہیں؟ ‘‘
لاجن: ’’کوئی بھی شخص ہندستانی مسلح افواج کو شک و شبہ کی نظر سے نہیں دیکھ رہا ہے۔ آپ سیاسی مفاد کیلئے بہادر سپاہیوں کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں‘‘۔
روہن جے گونگسالویز: ’’ثبوت کے مطالبہ کرنے میں کیا غلطی ہے ۔ یہ احمقانہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت اور مسلح افواج پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیا جائے اور یہ یقین کیا جائے کہ ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی۔ میرے خیال سے ثبوت مانگنے میں نہ میں کوئی غلطی کر رہا ہوں اور نہ وہ لوگ غلطی کر رہے ہیں جو ثبوتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں‘‘۔ 
ایاش: ’’مودی انڈیا نہیں ہے اور نہ انڈیا مودی ہے اورنہ ہم لوگ آپ سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ 
شرد پرانچپی: ’’آپ خود معاملے کو ہینڈل کیجئے۔ پی ایم او کے امیج کو برباد مت کیجئے‘‘۔ 
وید نائک: ’’حکومت پر تنقید قوم پر تنقید نہیں ہے‘‘۔ 
لیوینیا ولال: ’’مودی کے معنی انڈیا نہیں ہے۔ انڈیا آپ سے بہت بڑی چیز کا نام ہے‘‘۔ 
سُدیپ: ’’بی جے پی کے حصار سے باہر آجائیے اور ایک وزیر اعظم کی طرح بات کیجئے‘‘۔ 
وینے آر گوڈا: ’’پی ایم او کا ٹوئیٹر ایشو کو سیاست زدہ بنا رہا ہے، بجائے حقیقت بیانی کے اپوزیشن کی تنقیص کر رہا ہے‘‘۔ 
چتریکا نائک: ’’ہم لوگ آپ کے کام کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ملٹری کے کام کو شک و شبہ سے نہیں دیکھ رہے ہیں‘‘۔ 
سریش کے: ’’ہمارے خیال سے حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے ہمارے بہادر سپاہیوں کی قربانیوں کا بے دریغ سیاسی استعمال کر رہی ہے‘‘۔ 
پَلب سنہا: ’’نہیں جناب! کوئی ہندستانی ہندستان سے نفرت نہیں کرتا۔ یہ بات ایک سیاسی جماعت سے پیش کی جاتی ہے جس سے آپ کا تعلق ہے۔ میں جیسے ہی کوئی سوال کرتا ہوں مجھے کانگریسی، غدارِ وطن اور کیا کچھ نہیں کہہ دیا جاتا ہے‘‘۔ 
بکاش دھوریا: ’’آپ جو کچھ سوچتے ہیں یا آپ کی جو کچھ رائے ہوتی ہے کیا ہر کوئی آپ کی سوچ اور رائے کی حمایت کرے گا۔ آپ کی رائے اپنی ہوتی ہے، وہ میری رائے نہیں ہوتی‘‘۔ بی جے پی کے لوگوں کو یہ حقیقت بھولنا نہیں چاہئے کہ ؂
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب۔۔۔ بادشاہوں کی نہیں، اللہ کی یہ ہے زمیں! 
ٹوئیٹر کیا ہے اور ٹوئیٹ سے کیا اثرات پڑتے ہیں آج کے دور میں سمجھنا اور اس کا صحیح استعمال کرنا بہت ہی کار آمد ہے، لیکن غلط استعمال اتنا ہی مضر ہے جو غلط لوگوں کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ آپ دیکھئے کہ وزیر اعظم کے دفتر سے جو ٹوئیٹ کیا جارہا ہے وہ جمہوریت کشی کے مترادف ہے لیکن جو لوگ جواب دے رہے ہیں اگر ان کو آپ پڑھئے تو اس میں کتنا آپ کو وزن محسوس ہوگا۔ ایسے لوگ حقیقت میں جمہوریت کی بقا اور ملک کی سلامتی کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک قطرۂ آب کو جس کو ایک شخص کہا جاتا ہے یا ایک وجود سمجھا جاتا ہے اس کو اس کی اوقات بتارہے ہیں۔ درج ذیل سطروں میں ٹوئیٹر کی تعریف پیش کی جارہی ہے۔ اپنے دوستوں اور اپنے عزیزوں سے ٹوئیٹ کرنا ضرور سیکھ لیں۔ 
’’ٹوئیٹر (Twitter)ایک سماجی ویب سائٹ ہے۔ یہ سماجی رابطے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس کا آغاز 2001ء میں ہوا۔ دنیا بھر میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد 200000000 کے قریب ہے۔ اس جبالہ کے ذریعے آپ دوسرے لوگوں کو مختصر پیغا مات بھیج سکتے یا کسی اور کی طرف سے بھیجا گیا پیغام پڑھ سکتے ہیں۔ ان مختصر پیغامات کو ٹوئیٹس کہا جاتا ہے۔ اس موقع کے صارفین کو ایک سہولت ملتی ہے کہ وہ اپنے پروفائل میں وقتاً فوقتاً ایسے پیغامات بھیج سکیں (مختلف زبانوں میں، جن میں اردو بھی شامل ہے) جو 140 حروف کی قید تھی مگر اب ڈبل ہوگیا ہے۔ یہ پیغامات موبائل کے ذریعے بھی بھیجے جا سکتے ہیں اور پڑھے بھی جا سکتے ہیں۔ اگر آپ کا بلاگ ہے، تو آپ اپنے ٹوئیٹر کھاتے میں اپنے بلاگ کا ربط شامل کر سکتے ہیں، جس سے یہ ہوگا کہ جب بھی آپ اپنے بلاگ پر کوئی پوسٹ کریں تو خودکار طور پر بلاگ پوسٹ کا عنوان اور پوسٹ کے چند ابتدائی جملے، بلاگ پوسٹ ربط کے ساتھ آپ کے ٹوئیٹر پروفائل پر شائع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی فورم کے مخصوص زمرہ جات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ٹوئیٹر کے استعمال کنندگان کسی بھی صارف کے پیغامات کو جنہیں ٹویٹس کہا جاتا ہے کی پیروی کر سکتے ہیں‘‘۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے (

«
»

میکدۂ علم وعشق: دارالعلوم وقف دیوبند

گھر گھر دلت مسلم اتحاد پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے