ارتداد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں

 مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ فَاعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم فَاَمَّا مَنْ طَغٰی وَاٰثَرَالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَافَاِنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْماْوٰی وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی(سورہ نازعات)وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ ثَلٰثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدبہن حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ: اَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سَوَاھُمَا،وَاَنْ یُّحِبَّ الْمَرْءَ لَا یُحِبُّہٗ اِلَّا لِلّٰہِ، وَاَنْ یَّکْرَہَ اَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہٗ اَنْ یُّقْذَفَ فِی النَّارِ۔(بخاری شریف)
من چاہی زندگی اور رب چاہی زندگی
زندگی اور موت اﷲ کے دست قدرت میں ہے،اسی نے ہمیں زندگی دی ہے،اورزندگی گذارنے کا طریقہ بھی بتایا ہے،الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًااسی نے زندگی اورموت کا نظام بھی قائم کیا ہے تا کہ و ہ ہمیں آزمائے کہ ہم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے، انسانوں نے زندگی کے مختلف نام رکھ لیے ہیں ، کوئی کہتا ہے ۔ یہ مشرقی زندگی ہے، کوئی کہتاہے یہ مغربی زندگی ہے کوئی کہتاہے ، یہ نئے طرز کی زندگی ہے ، کوئی کہتاہے یہ پرانے طرز کی زندگی ہے، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے زندگی گذارنے کے صرف دو طریقے بتائے ،ایک یہ کہ انسان نفس پرستی کی زندگی گزارے ، دوسراطریقہ یہ کہ انسان خدا پرستی کی زندگی گذارے۔انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ آزاد ہوکر زندگی گذارے ،نفس کی خواہشات کی تکمیل کرے ، دنیا کے انسانوں نے اس طرز زندگی کو بھی اپنایا ہے،بلکہ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگاکہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک بہت بڑی تعدادایسے لوگوں کی ملے گی جو نفس پرستی کی زندگی گذارتی ہے ۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی
قرآن کریم نے صاف صاف یہ بات ارشاد فرمائی : فَاَمَّا مَنْ طَغٰی وَاٰثَرَالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَافَاِنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْماْوٰی وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی(سورہ نازعات)جو لوگ سرکشی کریں اوردنیاکی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیں ان کا ٹھکانہ دوزخ کی آ گ ہے اور جوانسان قیامت کے دن اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے گااس کے دل میں یہ خوف ہوگاکہ اﷲ مجھے دیکھ رہاہے اور مجھے اﷲ کے دربار میں پیش ہو کر اپنی زندگی کے اعمال کاحساب دینا ہے،اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔زندگی گذارنے کے یہی دوطریقے ہیں ایک نفس پرستی کاطریقہ ،اس کا انجام جہنم ہے اوردوسراخدا پرستی اور اﷲ تعالیٰ کے ڈر اورخوف کے ساتھ زندگی گذارنے کا طریقہ ، اس کا انعام جنت ہے۔
قرآن کریم نے پوری قوت کے ساتھ اس حقیقت کو بھی بیان کر دیا کہ اِنَّا ھَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا اﷲ تعالیٰ انسان کو آزمارہا ہے۔انسان یا تواﷲ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ زندگی گذارے گا یا ناشکری کے راستے پر چلے گا،وہ خداپرستی کے ساتھ زندگی گذارے گا یا نفس پرستی کے راستے پرچلے گا۔دونوں راستے انسان کے لیے کھلے ہوئے ہیں ،جس نے اپنے نفس کو کچل دیا وہ کامیاب ہوگیا، اور جس نے نفس کی غلامی اختیار کی وہ ناکامیاب ہوگیا، انسان اگر اﷲ کا بندہ ہے تو اسے اﷲ کی بندگی اور اس کے احکام کی پابندیوں کے ساتھ جیناہوگا، شریعت اسلامی میں کچھ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور ہمیں حکم دیاگیا ہے کہ ان کو استعمال کیاجائے، کچھ چیزوں کوحرام کیاگیا ہے ،اور ہمیں حکم دیاگیا ہے کہ ان کے قریب نہ جایا جائے۔صاف صاف کہا گیاکہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کے حکموں کی پابندی کے ساتھ جینا ہوگا ع
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
بے حیا باش ہرچہ خواہی کن
آج ہم دیکھیں کہ ہم اور ہمارا سماج کس راستے پر چل رہاہے،ہم نے اپنے لیے کون ساطرز زندگی اپنایا ہے؟ہم آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں یا پابندیوں کے عادی ہیں؟ ہمارے سماج کے لوگ اﷲ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کی کتنی پابندی کر رہے ہیں ؟ اس پرغور کرناہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔یاد رکھیں!جب شرعی حدود اور پابندیاں ختم کر دی جائیں گی تو اس کے بہت ہی سنگین نتائج سامنے آئیں گے،پابندیاں اس لیے لگائی گئی ہیں کہ انسان اپنے آپ کو بے حیائی کے راستے پر نہ ڈالے۔بخاری شریف کی حدیث ہے جس میںآنحضرت ﷺ نے حیا کو ایمان کاخصوصی حصہ قرار دیا ہے۔یعنی مومن با حیاہوگا اورپاکیزہ زندگی گزارنے والاہوگا۔مسلم شریف میں ہے حضور ﷺ راستے سے گزر رہے تھے، ایک شخص اپنے بھائی کونصیحت کر رہاتھا کہ اتنازیادہ شرم مت کیا کر، آنحضرتﷺ نے اس سے فرمایا: اس طرح کی نصیحت مت کرو ،اس لیے کہ حیا ہمیشہ بھلائی اورخیر لے کرآتی ہے،حیااور شرم کے ذریعے انسان ایمان کے اونچے درجے تک پہنچتاہے جب کہ بے حیائی انسانوں کو اﷲ کی نگاہ سے گرادیتی ہے، بے حیائی انسان کو اﷲ تعالیٰ کی نا فرمانی کے کاموں پر جرأت مند بنا دیتی ہے۔اس لیے فرمایا گیاتھا کہ حیااور پاک دامنی کوہاتھ سے جانے نہ دو۔یہاں تک کہاگیا کہ اذا لم تستحی فاصنع ماشئتجب تمہارے اندر سے حیا کاجوہر نکل جائے تو جو چاہے وہ کرو۔
قرآن کریم میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس آبادی کو تباہ و بربادکرناچاہتاہے وہاں مالداروں کی کثرت ہوتی ہے پھر وہ فسق و فجور کرتے ہیں، عیاشی و بدکاری کے کام کرتے ہیں، پھر اﷲ اس قوم کو تباہ وبرباد کردیتاہے۔وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا (سورہ بنی اسرائیل،آیت۱۶)یہی اﷲ تعالیٰ کا نظام اور اس کاطریقہ ہے۔
مخلوط نظام تعلیم کا نتیجہ
آج آپ دیکھئے کہ ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہو رہی ہے ، اس کے سنگین نتائج سامنے آ رہے ہیں،کل جب یہ کہا جاتاتھا کہ مخلوط تعلیم سے اپنی اولاد کو بچاؤتو لوگ کہتے تھے کہ علماء انگریزی تعلیم کے خلاف ہیں، علماء لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں ، لیکن آج اس مخلوط تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری بچیاں بے حیائی کے راستے پر چل پڑی ہیں اور ارتداد تک پہنچ رہی ہیں،آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنی تیزی سے بدکاری اور زنا کاری کا سیلاب ہمارے معاشرے میں آگیا ہے، پچھلے دنوں دہلی میں علماء اور سرکردہ افراد کی ایک میٹنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ دہلی اور اس کے اطراف میں کے صرف ایک علاقے میں پانچ سومسلمان لڑکیاں مرتد ہو گئیں،انہوں نے غیر مسلم لڑکوں سے نکاح کیا، اور ان کے ساتھ چلی گئیں۔یعنی انہوں نے اپنے دین وایمان اوراخلاق کو چھوڑ دیا۔خود ہماری ریاست مہاراشٹرکے پونہ شہر میں پچھلے دو سال کے عرصے میں ساٹھ ستر لڑکیاں مرتد ہو گئی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے خاص اسی مسئلے سے متعلق پونہ کے احباب ملنے کے لیے آئے تو انہوں نے بتایا کہ اگست میں۱۱؍مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواستیں دائر ہوئی ہیں اور پچھلے مہینے (ستمبر) میں ۱۲؍لڑکیوں نے درخواست دی ہے۔مہاراشٹرکے دوسرے اور شہروں سے بھی اس طرح کی خبریں آ رہی ہیں چنانچہ بمبئی میں۱۲،تھانے میں۷، ناسک میں۲، اور امراوتی میں ۲؍لڑکیوں نے شادی کی درخواست دی ہے۔
ملکی صورتحال
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ صرف مہاراشٹر میں ہی ایسے واقعات نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں سے برابرخبریں موصول ہو رہی ہیں، جموں کشمیر سے کئی لوگوں نے اطلاع دی ہے کہ ہمارے یہاں کالج میں پڑھنے والی مسلم لڑکیاں ہندو اور دلتوں کے ساتھ نکاح کر رہی ہیں، اگست کے وسط میں بھوپال جانا ہواتھا ،وہاں مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی برائے خواتین کی ذمہ دار بہنوں نے بتایا کہ بھوپال کی گنجان مسلم آبادی والے ایک علاقے میں اس طرح کے دسیوں واقعات ہو چکے ہیں، اور صرف غیر شادی شدہ لڑکیاں ہی نہیں شادی شدہ عورتیں بھی اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر غیرمسلموں کے ساتھ چلی گئی ہیں دہلی سے ملی اطلاعات کے مطابق جھونپڑ پٹی والے علاقے میں بسنے والی مسلمان لڑکیاں فرقہ پرست عناصر کی اس منصوبہ بند سازش کا’’لقمۂ تر‘‘بنی ہوئی ہیں، گذشتہ شعبان میں احمد آباد حاضری ہوئی تو وہاں کے علماء نے بتایا کہ ہمارے یہاں ہردوسرے تیسرے دن سوشل میڈیا پرخبر آتی ہے کہ فلاں مسلمان لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے یا فلاں لڑکی نے کورٹ میرج کی عرضی داخل کی ہے،بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان لوگوں نے یہاں تک بتایا کہ مسلمان لڑکیوں کو رجھانے ،قریب کرنے اور پھر ان کاجنسی استحصال کرنے کے لیے گراں قیمت تحفے دےئے جاتے ہیں، مثلاً مہنگے موبائیل ،آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، ایکٹیوا بائک وغیرہ،باضابطہ ان کی ’’فنڈنگ‘‘کی جا رہی ہے اور ایک سونچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں اس کام پر لگایا گیا ہے،میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ اتفاقی واقعات نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے پیچھے ایک سونچا سمجھا منصوبہ کام کر رہاہے،’’لو جہاد ‘‘نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے،البتہ یہ ’’شوشہ‘‘صرف اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں ’’انتقامی جذبہ‘‘ ابھارا جائے اور خود مسلمانوں کو ’’لو جہاد‘‘میں الجھا کر اندرون خانہ مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل کھیلا جائے ۔پہلے یہ بات ڈھکی چھپی رہی بھی ہو تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔
بے حسی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اس سازش کی گہرائی کااس بات سے اندازہ لگایئے کہ ہماری معلومات کی حد تک جب کورٹ میرج کی درخواست دی جاتی ہے۔ تو ایک مہینے کے بعد اس درخواست پر عمل در آمد ہوتا ہے، یہ مدت اس لیے بھی رکھی گئی ہے کہ اگر گھر والوں یا کسی اور کو کوئی اعتراض ہو تو وہ کاروائی کر سکتا ہے،قانوناً اس طرح کے معاملات میں گھر والوں کو نوٹس جاری کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے،جس کے ذریعے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا لڑکا /لڑکی نے کورٹ میرج کی عرضی داخل کی ہے ، اب جب یہ درخواست داخل ہوتی ہے تو خود وہ شادی کی درخواست دینے والا نوجوان کسی ذریعہ سے اس درخواست( جس پر مسلمان لڑکی او ر غیر مسلم لڑکے کا فوٹو ہوتا ہے کہ یہ دونوں شادی کرنے جا رہے ہیں)کی تصویر لے کر کسی اور کے ذریعے سوشل میڈیا پر وائرل کروا دیتا ہے،تا کہ وہ معصوم بنا رہے اور مسلمان لڑکی ہمیشہ کے لیے تباہ وبرباداور ذلیل ورسوا ہو جائے۔
غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے والی مسلمان لڑکیوں کا انجام 
پسماندہ علاقوں کی صورت حال تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے فرقہ پرست طاقتیں پوری قوت صرف کر کے روپیہ پیسہ خرچ کر کے غیر مسلم لڑکوں کے ذریعے مسلم لڑکیوں کو محبت کے فریب میں مبتلا کر رہی ہیں، ان کوقیمتی تحفے دیئے جاتے ہیں ان کے لیے انتظامات کئے جاتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لڑکی اپنے گھر سے بھا گ کر کسی غیر مسلم سے شادی کر لیتی ہے، چار چھ مہینے کے بعد تو اس کوطلاق دے دی جاتی ہے یا پھر اس کے ساتھ اذیت ناک سلوک کیاجاتاہے کہ اس کو اپنا جسم بیچنے پر مجبور کر دیا جاتاہے،چونکہ اس کے ماں باپ کا دروازہ اس کے لیے بند ہوچکا ہوتا ہے ،اب اس کے کوئی چار�ۂ کار نہیں کہ وہ لڑکی غیر مسلم گھرانے میں رہے اور وہ اسے جیسے چاہیں استعمال کریں۔
اپنے اور اپنے گھر والوں کی فکر کیجئے
اگر تمام علاقوں میں مرتد ہونے والی لڑکیوں کے اعداد و شمار یکجاکئے جائیں تو پتہ چلے گا کہ یہ سب ایک منظم سازش کے تحت ہو رہاہے۔آپ اصل سچائی کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ارتداد کا جو سیلاب آیا ہواہے اس کو قریب سے دیکھئے ، محسوس کیجئے اور اس کے دور کرنے کی فکر کیجئے، اپنے بچوں اور خاندانوں کو بچانے کی فکر کیجئے۔ آپ کی بچی جاہل رہے ،یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو اور کفر کو اختیار کر لے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو اور اپنے معاشرے کو بچانے کے لیے اور ان کو دین پر قائم رکھنے کے لیے مطلوبہ کوششوں سے کٹے ہوئے ہیں ۔ موجودہ حالات کاتقاضہ ہے کہ آپ اپنے اندر ایمانی غیرت پیدا کیجئے ،ایمان کی قدر کیجئے،اور ایمان کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کاجذبہ پیدا کیجئے۔
ایمان کی حلاوت
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کی حلاوت اسی کو نصیب ہوگی جس میں تین باتیں پائی جائیں گی ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول کی محبت اس کے دل میں سب سے زیادہ ہو ۔ دوسرے یہ کہ جس کسی سے محبت ہو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے محبت ہو۔ تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفرکی طرف پلٹنے سے اس کو اتنی نفرت اور ایسی اذیت ہو جیسی کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے ۔
اس وقت ملک کی صورت حال بڑی نازک ہے، ایک طرف قوانین شریعت پر حملے کئے جا رہے ہیں، دوسری طرف فرقہ پرست طاقتیں مسلم بچیوں کو ارتداد کے دہانے تک پہونچا رہی ہیں، تیسری طرف میڈیا کے ذریعے ہماری نئی نسل کا ذہن خراب کیا جارہاہے،اورچوتھی طرف اسکول اور کالجوں میں بے حیائی کا ماحول بنایاجارہاہے، جس کانتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل عیش وعشرت کے راستے پر چل پڑی ہے۔یہ صورت حال ایسی سنگین ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ پانی سر سے نہیں چھت سے اونچا ہوتاجارہاہے ۔ ہم کب بیدار ہوں گے ؟ہم اپنی بہنوں ،بچیوں اور بیٹیوں کو بچانے کے لیے کب آگے آئیں گے؟ خواب غفلت کب تک ؟نظرانداز کرنے کامزاج کب تک ؟ جب حالات ایمرجنسی کے ہوں ، جب معاملات سنگین صورت حال اختیار کرلیں، جب دین و ایمان پر یلغار کی جائے، جب عفت وعصمت کے سودے چکائے جائیں،جب منظم منصوبے کے تحت مسلمان لڑکیوں کی زندگیاں تباہ وبرباد کی جائیں، اس وقت خاموشی جرم ہے، سنگین جرم!ایسے حالات میں کم اہم یا کم ضروری مسائل پر توجہ دینا زیادتی ہے، بد ترین زیادتی! یہ ایسا اہم مسئلہ ہے جسے مسجد کے محراب و منبر سے بیان کیا جائے ، جسے جلسوں اور مجلسوں کا موضوع بنایا جائے،جس کے پیش نظر خاندانی نظام کی اصلاح پر بھرپورتوجہ دی جائے،جس کی وجہ سے اپنے گھر کی بچیوں پر کڑی نظر رکھی جائے، خطرے کی تلوار سر پرلٹکتی ہوئی محسوس کر کے مخلوط تعلیم سے بچنے اور غیر مخلوط تعلیمی نظام کے قائم کرنے کی فکر کی جائے۔
ارتداد کی بڑھتی پھیلتی لہرکوروکنے کے لیے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل ضروری ہے:
(۱)اسلامی نظام کے مطابق مسلمان بچیوں کو پردے کا پابند بنایا جائے،ان میں حیاداری، عفت و عصمت کی حفاظت کاجذبہ ،اورعقیدۂ توحید و رسالت کی عظمت پیدا کی جائے۔روزانہ ہمارے گھروں میں آدھے گھنٹے ہی سہی کسی اچھی مستند اور ذہن و دل کو متاثر کردینے والی کتاب کی تعلیم کی جائے۔
(۲)مخلوط نظام تعلیم سے اپنی بچیوں کو بچایا جائے، غیر مخلوط تعلیمی نظام کے قیام پر بھرپور توجہ دی جائے اور محفوظ ماحو ل میں معیاری تعلیم کاانتظام کیا جائے۔
(۳)جو لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہی ہیں، ان کی دینی تعلیم وتربیت اورذہن سازی کی بھرپور کوشش کی جائے ، ان کی عادات ، اطوار ، اخلاق پر پوری نظررکھی جائے، کردار سازی میں معاون بننے والا لٹریچر انہیں مطالعے کے لیے دیا جائے۔
(۴)ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے، کسی ٹیچر یاساتھی طالب علم کے گھر پر کسی تعلیمی ضرورت کے نام سے بھی جانے کی اجازت نہ دی جائے، کالج لانے لے جانے کاخودانتظام کیا جائے۔
(۵)اینڈرائڈ موبائیل اور بائک خرید کر نہ دی جائے، یہ دونوں چیزیں بے حیائی کے دروازے کھولنے والی اور عفت وعصمت کی تباہی کے دہانے تک پہونچانے والی ہیں ۔
(۶)موبائیل ریچارج یا زیراکس کے لیے غیر مسلموں کی دوکان پرجانے کی اجازت نہ دی جائے، اسی طرح کالج کے اندر یا اس سے قریب غیرمسلموں کے کینٹین سے بچنے کی ہدایت دی جائے۔
(۷) غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جائے کہ آئندہ یہ دوستی بھی کسی فتنہ کادروازہ بن سکتی ہے۔
(۸) بچیوں کے مسائل اور ان کو پیش آنے والی پریشانیوں پر توجہ دی جائے، یاد رکھیں ! گھر میں توجہ کی کمی باہر کا راستہ دکھاتی ہے۔
(۹)اگربچیاں کسی تعلیمی ضرورت سے انٹرنیٹ استعمال کررہی ہیں تو ان کی بھرپور نگرانی کی جائے ، اس لیے کہ بھٹکنے اور بہکنے کے اکثر دروازے انٹر نیٹ کے ذریعہ کھلتے ہیں۔ 
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اور ہماری نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے۔آمین

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
25؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

دہشت کا سناتن چہرہ

کچی سبزیاں اور ان کے کرشماتی اثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے