تین اورگرفتارِ بلا، یو پی جیل سے رہا

ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسی کی نشاندہی پران دونوں کو پکڑا گیا۔ ان کا تعلق حرکت الجہاداسلامی (حوجی )سے بتایا گیا۔یہ نام ہماری پولیس اورخفیہ محکمہ کی اس طرح کی خبروں میں عام آتا تھا۔کہا جاتا تھا کہ حوجی کا صدرمقام بنگلہ دیش میں ہے۔ اس دوران وہاں خالدہ ضیاء کی حکومت تھی جن کے روابط ہند کے ساتھ اچھے نہیں تھے۔حسینہ واجد کے برسر اقتدارآتے ہی حوجی کا نام آنا رفتہ رفتہ بند ہوگیا۔ 
دہشت گردی کے الزام لگاکر بے قصوروں کی گرفتاریوں کو سیمی پرپابندی لگاکر آڈوانی جی کے دور میں شروع ہوا۔ مگر یوپی اے اول میں مسلم نوجوانوں کی انددھادھند گرفتاریاں ہوتی رہیں۔مودی کے گجرات میں اورمہاراشٹر میں تو انتہا ہی ہوگئی۔یوپی میں یہ گرفتاریاں مایاوتی کے دورمیں ہوئیں۔ریاست کی موجودہ سرکار نے ایک مرتبہ کوشش بھی کی کہ اس طرح کے کیسوں کوواپس لے لیا جائے، مگرسنگھی وکیلوں کی عذرداری پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اس پر روک لگادی ۔ اس طرح کے کیسوں میں طارق قاسمی اورخالدمجاہد کا کیس بہت مشہورہوا تھا۔ جس کی جانچ نمیش کمیشن نے کی تھی اورپولیس کی کہانی کو قطعی فرضی قراردیا تھا۔ ہرچند کہ ملک بھر میں دائر اس طرح کے کئی کیسوں میں عدالتوں نے صاف کہا کہ پولیس نے کہانی تراشی اوروہ بھی ناقص۔ لیکن ملزمان کو سالوں سال جیل کاٹنی پڑی تب جاکر رہائی نصیب ہوئی ۔ اس سیاسی کرتب بازی میں عوام کا وہ پیسہ ضائع کیا جاتا رہاجوفلاحی کاموں پر خرچ کیا جا سکتا تھا۔ 
بے قصورو ں کی گرفتاریوں کے موسم بہارمیں ان تینوں ملزمان پرسنگین دفعات کے تحت تھانہ حسین گنج میں مقدمہ درج ہوا۔ ہمارانظام انصاف نہایت سست رفتار ہے۔ مقدمہ کی کاروائی چیونٹی کی چال چلی اورقیدیوں کی مصیبت لمبی ہوتی چلی گئی۔ اب جاکر اس کی سماعت خصوصی جج ایس ایچ اے رضوی کی عدالت میں ہوئی۔زیادہ ترگواہ پولیس نے اپنے عملے کے پیش کئے۔ہرچند کہ ان غریبوں کیلئے گزارہ بھی دشوار تھا، مگرمقدمے کی یہ مار جھیلنی پڑی۔ یعقوب کے والد کے پاس جو تھوڑی بہت زمین تھی وہ بھی بک گئی ۔نو سال بعد ان کو ایک بڑی مصیبت سے راحت توملی،مگراس طرح کہ ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔مقدمہ کی پیروی وکیل محمد شعیب نے کی جس کیلئے وہ ممنون ہیں۔
سوامی شیوانند کی گواہی
اس مقدمے میں ایک موڑ تب آیا جب رشی کیش کے ایک آشرم کے سربراہ سوامی شیوانند گواہی دینے عدالت میں پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمین سے ایک کو، جس کو وہ ناصر کے نام سے جانتے ہیں، سادہ لباس میں ایس ٹی ایف نے رشی کیش میں ان کے آشرم سے اٹھایا تھا۔ وہ ایک غریب گھر کا نیک لڑکا ہے ۔آشرم میں سیوادارکے طور پرملازم تھا۔ یہ بات کچھ لوگوں کو پسند نہیں تھی کہ ایک مسلمان آشرم میں رہے اوروہاں آنے والوں کی خدمت انجام دے۔ شیوانند جی نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس کے والد کو بھی جانتے ہیں۔ ان کی پرچون کی ایک چھوٹی سے دوکان ہے ۔ رام لیلا میں ہارمونیم بھی بجاتے ہیں۔ عدالت نے پوچھا آپ رشی کیش سے چل کر گواہی دینے تین مرتبہ لکھنؤ کیوں آئے؟ انہوں نے کہا میری آتما نے پکارا ،اس لئے عدالت کو سچائی بتانے آیا ہوں۔ایک بے قصور کو سزا نہیں ہونی چاہئے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا خرچ ہوا وہ بتادیجئے۔ انہوں نے کہا مجھے کسی سے کچھ نہیں چاہئے۔ایشورسب کا بھلا کرے۔ یوں ان غریبوں کے سر سے بلا ٹلنے میں آسانی ہوگئی۔ معزز عدالت نے ان کے بیان پر اعتماد کیااور پولیس کے ثبوتوں اورگواہوں کو ناقص پایا ۔ چنانچہ ان کو بری کر دیا۔
اگرلکھنؤ کی یہ عدالت بھی پولیس کے بیان کواسی طرح من وعن قبول کرلیتی جس طرح بارہ بنکی کی عدالت نے اسی 5 جون کوحکیم طارق قاسمی کے کیس میں کیااوران کو تہری عمرقید بامشقت اورایک لاکھ پچاس ہزارروپیہ جرمانے کی سزاسنائی ، تو بیشک ان تینوں کوبھی جیل سے رہائی نہ ملتی۔ طارق قاسمی کے ساتھ شریک ملزم خالد مجاہد کی پولیس تحویل میں پراسرار موت ہوگئی تھی ۔نمیش کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان دونوں کو ضلع اعظم گڑھ سے اٹھایا گیا اوربارہ بنکی میں گرفتاردکھایا گیا ۔ان پر حوجی سے تعلق کا الزام لگا۔ ان تینوں کی رہائی اور طارق قاسمی کو سزا کی خبر میں فرق یہ ہے کہ طارق کی سزا کی خبر کو تمام چینلس اور اخباروں نے نمایاں جگہ دی جب کہ اس کیس کی ٰخبرصرف لکھنؤکے چنداخباروں میں شائع ہوئی، وہ بھی مختصرسی۔یواین آئی نے تین لائن کی خبر جاری کی۔ البتہ اردو کے بعض اخبارات نے نمایاں طورپر شائع کیا اورایک بڑے اخبار کے مدیر نے اس پرشذرہ بھی لکھا۔ 
شیوانند جی یقیناًلائق تحسین ہیں کہ انہوں نے سیاست زدگی کے اس دور میں ضمیر کی آواز کو دبنے نہیں دیا اور غریب کوانصاف دلانے میں اپنا کردارادا کیا۔ وہ سچے ہندستانی اورسچے ہندوہیں۔ شیوانند جی جیسے سادھو سنت اوربھی ہونگے مگر ان کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ایک دانشور کا قول ہے کہ بدطنیت لوگوں کی شیطانی حرکتوں سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نیک لوگوں کی خاموشی سے ہوتا ہے۔اگراس طرح کی آواز ابھرے توبہت سے تفرقے خوبخود مٹ جائیں اورقومی آہنگی کو تقویت حاصل ہو۔ دوسر ی طرف وہ سیاست زدہ نام نہاد مہنت اورسادھویاں ہیں جن کے ذہنوں میں زہربھراہوا ہے ۔ ان کی زبان پرخیرسگالی کے الفاظ آتے ہی نہیں۔ وہ جب بھی کچھ اول فول بولتے ہیں، میڈیا اس کی خوب تشہیر کرتا ہے۔لیکن یہ یاد رہے کہ اس طرح کی خباثتوں کو خود برادرا ن وطن بھی ناپسند کرتے ہیں۔
معاوضہ کا مطالبہ
انصاف پسند افراد اورتنظیموں کی طرف سے یہ مطالبہ باربارکیا جاتارہا ہے کہ جن کیسوں میں یہ ظاہر ہوجائے کہ پولیس نے جان بوجھ کر جھوٹا کیس بنایا ،ان میں خطاکارعملے کی سرزنش ہونی چاہئے ۔متاثرین کو بھرپور ہرجانہ دیا جانا چاہئے اورہرجانے کی رقم خطاکارعملے سے وصول کیا جائے۔ مگر یہ دلیل دے کر پولیس کی حوصلہ شکنی ہوگی،اس منصفانہ مطالبہ کو حکومت ردکردیتی ہے۔کچھ ذمہ داری ان جوڈیشیل افسران پر بھی ڈالی جانی چاہئے جو اس طرح کے کیسوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ عموما یہ دیکھا گیا کہ سرکاری وکیل انصاف کی فکر کرنے کے بجائے پولیس کی کہانی کو سچ ثابت کرنے میں اپنی صلاحیت صرف کرتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی سنی گئی ہے جوڈیشیل مجسٹریٹ عام طور پر گہرائی سے پولیس کیس کو نہیں دیکھتے۔ اگردیکھیں تو بہت سے معاملے اس قدربودے ہوتے ہیں کہ ابتدائی سماعت کے بعد ہی ان کو خارج کیا جاسکتا ہے۔ملزم کے اوپر ایف آئی آر میں درج سنگین دفعات کو قلم زد کیا جاسکتا ہے تاکہ اسکو ضمانت مل سکے۔اس طرح عدالتوں کا بوجھ کم ہوگا اور جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بھی کم ہوگی ،جس میں بے تحاشااضافہ ہوتا جاتا ہے۔لیکن واضح رہے کہ اس تبصرے سے ہمارا مقصدعدلیہ پر نکتہ چینی کرنا ہرگز نہیں۔ بلکہ ان پہلوؤں کو اجاگرکرنا جن کو عدالتی اصلاحات میں شامل کیا جانا چاہئے۔
ولادت سے قبل سزائے موت
عدالت عالیہ نے جس دن یعقوب میمن کی پھانسی پر مہرلگائی اسی دن ایک حکم نامہ اورصادرفرمایاجس کے تحت ایک لڑکی کے والد کی درخواست پر اس کے 24ہفتہ کے حمل کو گرانے کی اجازت دی گئی۔ ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا اورعدالت کے ریکارڈ پر یہ بات موجود ہے کہ جنین میں جان پڑچکی تھی۔وہ ایک زندہ انسان تھا، جو اپنے پرورش کے اس مرحلہ میں تھا جو مادررحم میں پورا ہوتا ہے۔ ہمارا قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ جان پڑجانے کے بعد جنین کو ضائع کرادیا جائے ،اس لئے گجرات ہائی کورٹ نے درخواست کو مستردکردیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کی ایک نفری بنچ نے اس بنیاد پرکہ یہ زنابالجبر کا کیس ہے، حمل گرانے کی اجازت دیدی اورکہا کہ اس سے اس کی ماں اوراہل خاندان کو راحت ملے گی۔ہمیں نہایت ادب سے یہ عرض کرنا ہے کہ اگرکسی انسان کی زندگی کاحق چھین لینے کا یہ کوئی معقول جواز ہے تو پھر عدلیہ کو ان ہزاروں ملزموں کو پھانسی کے پھنڈے پر لٹکوادینا چاہئے جن کی موت سے چند لوگوں کو راحت ملتی ہو۔ ہرچند کہ حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ یہ کیس نظیر نہیں بنے گالیکن عوام میں اس کا کیا پیغام جائیگا؟ یہ کیس عدالت میں نظیر بنے یا نہ بنے، لیکن پیٹ میں پلتے ہوئے بچے کو موت کے گھاٹ اتاردینے کی راہ ضرور کھولدیگا۔اس طرح کے فیصلوں کے لئے پھر کچھ اور دلیلیں بھی تراشی جاسکتی ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ زندگی کا حق کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ اسی کے ساتھ وہ سوال بھی جڑجائیگا جو زندگی سے عاجز انسان کی موت کو آسان کرنے سے متعلق ہے۔ بہت سے بیمار ایسے مل جائیں گے جن کے ورثا بھی چاہتے ہیں کہ ان کی موت ہوجائے۔ ان کی موت سے بھی کچھ لوگوں کو راحت ملے گی، اس لئے اس کا راستہ بھی کھلتا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ اس بچے نے کیا قصور کیا تھا جس کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کاحکم سنا دیا گیاتاکہ کچھ لوگوں کو راحت مل جائے؟کیااس دلیل سے اس ذہنیت کو تقویت نہیں ملے گی جو لڑکیوں کو مادررحم میں ماردینا چاہتی ہے۔ان کے نہ پیدا ہونے سے بھی اس خاندان کے کچھ لوگوں کوراحت ملے گی۔
رہا مسئلہ پرورش کا توحاملہ لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ڈاکٹر کی ہوس کا شکار بنی۔ڈی این اے ٹسٹ سے سچائی کا پتہ لگایا جاسکتا تھا۔ عدلیہ نے بغیر رسمی شادی ساتھ رہنے والے جوڑوں کے بچوں کی ذمہ داری ان کے باپ پر ڈالی ہے۔ اسی طرح اس بچے کی ذمہ داری بھی اس کے باپ پر ڈالی جاسکتی تھی اورریپ قانون کے تحت سزا بھی ملنی چاہئے ۔ اس نے اپنے پیشے کے حلف کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔بچے کو گود لینے والے بھی مل جاتے۔ اس معصوم کی موت کاپروانہ جمعرات کی شام جاری ہوااوراسی رات احمدآباد کے دوڈاکٹروں کے بے رحم ہاتھوں نے اس کو ماں کے رحم سے نکال کر موت کے آغوش میں سلادیا۔یعقوب میمن کی سزائے موت پرتو شوراٹھا ، اس معصوم کی کراہ کہیں سنائی نہیں دی۔ حالانکہ زندہ رہنے کا بنیادی حق اس کوبھی حاصل تھا۔
کیمرون کا اعتراف
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے عید کے موقع پر یہ اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردی اسلام کے امن پسندی سے متصادم ہے۔ اس کاالزام اسلام پر تھوپنا غلط ہے۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اسلام کے نام پرتشددپسندی اوردہشت گری د راصل اسلام دشمنی کا مظاہرہ ہے۔ یہ اسلام کے پیروں کاروں کا فعل نہیں۔ ہم ان کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں اورمذہب ومسلک سے بلند ہوکر چاہتے ہیں کہ تما م اہل اسلام دہشت گردی کے ہرمظہر کی قباحت کو سمجھیں۔ دہشت گردی کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک مسلح دہشت گردی ہے ۔دوسری فکری تشدد پسندی ہے۔ جس کا مظاہرہ بہت ہورہا ہے ۔ان دونوں سے ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ان کے مبلغ سیدھے سادے مسلمانوں کے دینی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔ کسی کا استحصال اس حد تک ہوجاتا ہے کہ وہ خود کش بمبار بن جاتا ہے۔ کوئی گھربیٹھے ہی انٹرنیٹ پر حماقتوں کا اظہارکرتا ہے۔ کوئی ٹی وی چینلزپر مباحثوں کے دوران دوسرے مسالک کے خلاف اپنی ذہنی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں انتہائی مذموم ہیں۔
داعش کے تعلق سے فیس بک پر ایک لطیفہ کسی نے لکھ بھیجا ہے۔ ایک عیسائی اپنی بیوی کے ساتھ سفر پر تھا۔ راستے میں داعش کی کارکنوں نے ان کی کارروکی، پوچھا ’کون ہو؟‘ عیسائی نے کہا : ’مسلمان ہیں۔ مطالبہ ہوا ، ’قرآن سناؤ‘۔ عیسائی نے بائبل کی ایک آیت عربی میں سنادی۔داعش نے کہا ’ٹھیک ہے جاؤ‘۔ آگے چل کربیوی نے کہا : ’اگران کواندازہ ہوجاتا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے تو ہم کو ماردیتے۔ تم نے ایسی غلطی کیوں کی؟ اس عیسائی نے جواب دیا: ’مجھے معلوم ہے ان کو قرآن کا علم ہوتا تووہ سب کچھ نہ کرتے جو کررہے ہیں۔‘‘
انتقال پرملال
مشراکمیشن کے سابق ڈپٹی سیکریٹری اورآل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے جنرل سیکریٹری ، معروف سوشل ورکر جناب عبدالرشید انصاری کی اہلیہ محترمہ کا طویل علالت کے بعدمنگل ، 11اگست کی صبح انتقال ہوگیا۔ موصوفہ نہایت نیک دیندارخاتون تھیں۔ گھر پر خواتین کے اصلاحی پروگرام پابندی سے کرتیں۔عرصہ سے ذہابیطس کے عارضہ مبتلا تھیں۔گردے جواب دے گئے تھے مگر اس کے باوجودان کا جگرگردہ دیکھئے کہ دوبار عمرہ کرآئیں اوروہاں بھی ڈائلیسس کراتی رہیں۔ تاج انکلیو میں سوگوارں کا ہجوم رہا۔نماز جنازہ میں ہزاروں نے شرکت کی۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔اللہ پسماندگان کوصبرجمیل دے۔عبدالرشید صاحب سماجی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اسی لئے کئی سال سے تاج انکلیو آرڈبلیو اے کے صدر اورخوریجی قبرستان کے سیکریٹری چلے آرہے ہیں۔ہم ان کے غم میں شریک ہیں۔
آمین۔ 

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے