یہ مسئلہ نہ کسی برادری اور قوم کی انا کا مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی مذہب کا مسئلہ ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کے مذہب سے اس مسلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اسلام نے گوشت خوروں کو گائے بیل اور اس قبیل کے جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے اسے مذہبی فریضہ قرار نہیں دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان گوشت نہیں کھائیں گے تو وہ نہ اسلام سے خارج ہوں گے ،اور نہ ان کے ایمان اوریقین پرکوئی آنچ آئینگی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آج گوشت خوروں میں صرف مسلمان ہی شامل نہیں ہیں بلکہ ملک کے بہت سارے برادران وطن بھی بڑے شوق سے گوشت کھاتے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔اور کیوں نہ ہو؟ ہندو مذہب کی مقدس کتابوں میں بھی تو گائے کی قربانی اور اس کا گوشت کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے۔(تفصیلات کے لئے پڑھئے ڈی این ججھاؤ کی کتاب ’ دی متھ آف ہولی کاؤ‘) اس لئے یہ مسئلہ کسی مذہب یا کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ ایک عوامی مسئلہ ہے جو کئی مسائل کو جنم دینے والا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ اور فوراً متاثر ہونے والا طبقہ تو ان ہزاروں لاکھوں افراد کا ہے جو اس پیشہ سے راست طور پر منسلک ہیں۔ جن کی گزر بسر اور معاش کا ایک واحد ذریعہ گوشت کی تجارت ہی ہے چنانچہ وہ تمام افراد جو سلاٹر ہاؤس میں محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور جو افراد اپنی دوکانوں پر گوشت فروخت کرتے ہیں وہ سب بے روزگار ہو جائینگے۔ اسی طرح اس پیشہ سے بالراست جڑے ہوئے ہزاروں افراد کو بھی مالی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ مسئلہ ان کسانوں کا بھی ہے جو اپنے ناکارہ جانور بازار میں فروخت کرکے اپنی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں یا پھر اس کے بدلے توانا جانور خرید لیتے ہیں۔ یہ مسئلہ ان پر بھی اثر انداز ہوگا جو بازاروں میں ان جانوروں کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ یہ قانون ان لوگوں کو بھی بے روزگار کر دیگا جو گوشت سے بنی چیزیں جیسے ٹکیہ، کباب، سموسے، وغیرہ بناکر اپنی روزی کماتے تھے۔ آج ریاست بھر میں تقریباً ۱۶۰ سلاٹر ہاؤسس ہیں جہاں اگر اوسطً ۱۰۰ جانور بھی ہر روز ذبح ہوتے ہوں گے تو یہ تعداد سولہ ہزار جانور فی دن ہوتی ہے، یعنی ایک ماہ میں تقریباً چار لاکھ اسی ہزار جانور ذبح ہوتے ہیں۔ اب اس قانون کی وجہہ سے اتنے جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو ان کے لئے چارے کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ کیا ہمارے پاس اتنی بڑی بڑی چراہ گاہیں موجود ہیں کہ ہم پہلے مہینہ میں پانچ لاکھ اور سال کے آخر میں تقریباً ۶۰ لاکھ جانوروں کے لئے چارے کا انتظام کر سکیں؟ محتاط اندازے کے مطابق ایک بڑے جانور کو دن بھر میں کم سے کم ۲۵ کلو غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا ہمارے کسان اس قابل ہیں کہ وہ اتنا چارہ اپنے جانوروں کو کھلا سکیں؟ یہ تو ہوا ان لوگوں کا معاملہ جو اس قانون کی وجہہ سے راست متاثر ہونے والے ہیں۔ لیکن بالراست طور پر تو سماج کا ہر شخص اس سے متاثر ہوگا۔ ایک بڑے جانور کے ذبح ہونے کے بعد غریب عوام کے استعمال میں تو وہ حصہ آتا ہے جو اگر استعمال نہ کیا جائے تو دوسرے ہی دن سڑجائیگا اور اس میں کیڑے پڑ جائینگے، لیکن ذبیحہ کے باقیات کی اہمیت تو گوشت سے بہت زیادہ ہے، اس سے حاصل ہونے والا خون، ہیمو گلوبن اور پلازمہ کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس کے بغیر سینکڑوں دواؤ کی کمپنیوں کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے یا پھر ان کمپنیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا کہ وہ یہ خام مال باہر کے ملکوں سے درآمد کریں جس کا لازمی نتیجہ قیمتوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ اسی طرح آنتوں کا استعمال کرنے والی فارماسیٹکل سرجیکل انڈسٹری بھی متاثر ہوگی، ذبیحہ سے حاصل ہونے والی چربی کاسمیٹک انڈسٹری اور صابن کی صنعت کا لازمی جز ہے اگر اس کی دستیابی متاثر ہوگی تو ان صنعتوں کی پیداوار پر اس کا اثر یقیناً ہوگا۔ہڈی اور اس کا صفوف جس کے بغیر شکر، پینٹ ، اڈہسیوز اور دیگر بہت سارے مصنوعات کی تیاری نا ممکن ہے ان تمام مصنوعات کی پیداوار متاثر ہوگی نتیجتاً ان مصنوعات کی قلّت یا پھر وہی قیمتوں میں اضافہ ، جو عام آدمی کو متاثر کریگا۔ ہندوستان میں چمڑے کی صنعت جس کا سالانہ کاروبار ہزاروں کروڑ روپیوں کا ہے اور جس سے زرِ مبادلہ کی شکل میں ہزاروں لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے وہ بھی اس قانون سے متاثر ہوگی جس کی وجہہ سے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ آنا یقینی ہے۔غرض یہ کہ ذبیحہ کے گوشت کے علاوہ دُم کے بال سے لیکر پیر کے کُھر تک ہر چیزکسی نا کسی کے کام آرہی ہے اور اس کے استعمال کرنے والے مسلمان نہیں ہیں بلکہ ان کی اکثریت غیر مسلموں کی ہے۔ اس لئے اس مسئلہ کو صرف مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھنا تنگ نظری اور تعصب پسندی کے سواء اور کچھ نہیں۔
اب جب کہ حکومت نے مویشیوں کے تحفظ اور ان کی نسلوں کی بقا کے لئے ایک قانون نافذ کر ہی دیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف گائے اور اس کی نسل کی بقا پر ہی کیوں زور دیا جا رہا ہے؟ کیا بھینس اور بکری کی نسل کاشمار مویشیوں میں نہیں ہوتا؟ پریزرویشن آف انیمل ایکٹ کا لازمی تقاضہ تو یہ ہونا چاہئے کہ بھینس اور بکری کی نسل کشی پر بھی مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اگر ایک قسم کے جانور کو ذبح کرنا جرم ہے تو دوسری تمام اقسام کے جانوروں کو بھی یہ تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے۔ جانوروں سے محبت کرنے والی کسی تنظیم کو عدالت عالیہ سے رجوع کرنا چاہئے کہ اس قانون کے شیڈول میں تمام پالتو جانوروں کو شامل کیا جائے تانکہ ریاست میں کسی بھی نسل کے جانوروں کے ذبیحہ پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔ورنہ یہ تو جانوروں کے تئیں بھی تعصب اور جانبداری ہوگی کہ ایک نسل کو تحفط فراہم کیا جائے اور دوسری نسل کے جانوروں کو قتل ہونے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔جب وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت ہرن کا شکار تازیری جرم قرار دیا جاسکتا ہے، پیٹا کے تحت کتوں کی نسل کشی پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے تو پھر بھینس اور بکری یا مرغی کی نسل نے کیا قصور کیا کہ اس کی بقا کے لئے کسی کا دل تڑپتا نہیں ہے؟ یہ بات صحیح ہے کہ ہرنوں کے شکار پر پابندی کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں ان کی نسل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے یہ اور بات ہے کہ جب ان کے غول کسی غریب کسان کے کھیت میں گھُس جاتے ہیں تو راتوں رات اس کی پوری فصل تباہ کر دیتے ہیں اس کسان کی جان پر بن آتی ہے، مگر ہرن کی نسل کا تحفط تو ہو رہا ہے۔ غریب کسانوں کی تباہی جانوروں کے تحفظ سے بڑھ کر نہیں ہے۔اسی طرح سگ گزیدگی کے چاہے کتنے ہی واقعات ہو جائیں ، کتنے ہی انسانوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے کتوں کی نسل کا تحفظ ہونا ضروری ہے کیوں کہ قانون کا تقاضہ یہی ہے۔ ریاستی حکومت اور ارباب مجاز کو چاہئے کہ اگر یہ قانون کسی خاص طبقہ کو مد نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا اور اس کا مقصد صرف مویشیوں کی نسل کا تحفظ اور اس کی بقا ہے تو اس کے شیڈول میں تمام جانوروں کو شامل کرکے بلا تفریق تمام اقسام کے جانوروں کو تحفظ فراہم کریں ان کی نسل کی بقاء کیلئے ہر قسم کے جانوروں کے ذبیحہ کو قابل سزا جرم قرار دیتے ہوئے مکمل پابندی عائد کردیں۔اس قانون پر کھلے ذہن کے ساتھ مکمل عمل آوری کو یقینی بنائیں لیکن اس قانون کو صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہ سمجھیں کہ یہ مسئلہ پوری معیشت کو متاثر کرنے والا ہے۔
جواب دیں