آؤ پھر لوٹ چلیں نظم گلستاں کی طرف

کہ وہ ایک سماج اور معاشرے کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لئے اپنی قربانی پیش کرسکیں گے اور اگر وہ سامنے آتے بھی ہیں تو کہاں تک ان کی یہ تحریک بد نظمی اور انتشار کا شکار نہیں ہو گی ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج کے مصلی یا وہ نوجوان جو سماج اور معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں کیا وہ اس بیماری سے واقف ہیں اور کیا وہ آئندہ اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اپنی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لئے تیار ہیں؟
امام غزالی نے اپنی اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ان کے دور میں علماء دین کی ایک بہت بڑی تعداد مذہبی و فقہی مباحثوں اور مناظروں میں اسی طرح مشغول رہی کہ تمام دوسرے علوم و مشاغل اور خدمت دین اور خدمت خلق کے شعبے نظر انداز ہوتے جارہے تھے۔مگر جب ان سے سوال کیا جاتا تو کہتے کہ میں اس علم میں اس لئے مشغول ہوں کیوں کہ یہ علم دین ہے اور فرض کفایہ ہے۔حالانکہ سمجھدار آدمی خوب جانتا ہے کہ اگر اس کا مقصد فرض کفایہ کے حق کو ادا کرنا ہو اور ذمہ داری ادا کرنا ہوتا تو وہ اس فرض کفایہ پر فرض عین کو مقدم رکھتا بلکہ دوسرے فرض کفایہ بھی ہیں جن کو مقدم ہونا چاہئے۔مثلاً کتنے شہر ایسے ہیں جن میں صرف غیر مسلم طبیب ہیں جن کی شہادت احکام فقہ میں قبول نہیں کی جاسکتی لیکن ہم نہیں دیکھتے کہ کوئی عالم علم طب کی طرف توجہ کرتا ہو۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ علماء دین ایسے فرض کفایہ میں مشغول ہونے کو کیسے درست سمجھتے ہیں جس کو ایک جماعت کی جماعت سنبھالے ہوئے ہے اور ایسے فرض کو انہوں نے چھوڑ رکھا ہے جس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا ۔
کیا اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ ہے کہ طب کے ذریعہ سے اوقاف کی تولیت وصیتوں کی تنفیذ اور یتیموں کے مال کی نگرانی و انتظام اور منصب قضاء و افتا پر تقرر اور ہم عصروں اور ہم چشموں میں فوقیت و امتیاز اور دشمنوں پر حکومت کا غلبہ حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں!یہ حالات کیوں پیدا ہوئے؟امام غزالی ؒ محققانہ اور مورخ کی حیثیت سے اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے جانشیں حضرات خلفائے راشدین خود بڑے عالم و فقیہ اور صاحب فتویٰ تھے ۔مگر جب ان لوگوں کا دور آیا جو خلافت کا استحقاق اور قابلیت نہیں رکھتے تھے اور ان میں فتویٰ دینے کی صلاحیت نہیں تھی تو ان کو مجبوراً علماء سے مدد لینی پڑی اس طرح شاہی دربار میں علماء کی قدر ومنزلت اور قربت میں بھی اضافہ ہوا ۔جو پرہیز گار عالم تھے انہوں نے اپنے آپ کو شاہی دربار سے دور رکھا یا انہوں نے بعد کے خلفاء میں پھیلی ہوئی بدعات اور خرافات کی وجہ سے ان کی پیشکش کو قبول نہیں کیا ایسے میں بنی امیہ اور عباس کو ایسے علماء کو تلاش کرنا پڑا ،عہدہ قضاء اور حکومت کے لئے ان سے اصرار کرنے کی کوشش پیش آتی۔ان کے زمانہ کے لوگوں نے جب علماء کی یہ شان ،سلاطین و حکام کا ایسا رجوع اور اہل علم کا یہ استغناء اور بے لوثی دیکھی تو وہ یہ سمجھے کہ حصول جاہ و عزت کے لئے فقہ کا علم بہترین نسخہ ہے اسی سے حکام کا تقرب اور قضاء اور افتاء کا منصب حاصل ہوتا ہے بس وہ اسی طرف متوجہ ہو گئے۔انہوں نے حکام کے سامنے خود اپنی پیشکش کی ان سے مراسم پید اکئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء جو پہلے مطلوب تھے اب طالب ہو گئے ۔
ہندوستان کے تناظر میں مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس نئے انقلاب اور آزادی کی امنگ میں مسلمانوں کا ایک طبقہ منصب اور عزت کا طلبگار ہو کر سیاست کی طرف جس طرح رجوع ہوا ہے وہ سوائے اپنی عزت دولت شہرت کی طلب میں مسلمانوں کا کوئی بھلا نہیں کر سکے گا ‘‘۔ہندوستان کے مسلم سیاستدانوں کی یہ کیفیت ہم دیکھ بھی رہے ہیں ۔ایک دوسرا طبقہ جو خوف اور تحفظات کا شکار ہو کر پاکستان کا رخ کرتا ہے مگر جو ہندوستان میں بچ رہتا ہے اسے ہمیشہ اس بات کا خوف تو رہا ہے کہ کہیں ہندوستان اسپین اور میانمار نہ بنادیا جائے ۔بعد کے حالات میں جس طرح فسادات ہوئے ، ہندو تنظیموں کی طرف سے کامن سول کوڈ کا مطالبہ کیا گیا یا بابری مسجد شہید کی گئی ان کا اپنا شک بھی بجا تھا مگر اس کے رد عمل میں جو تحریکیں اٹھیں وہ جذبات کا شکار ہو گئیں عملی طور پر کوئی کام نہیں ہو سکا ۔عملی طور سے میری مراد وہی ہے جو امام غزالی نے لکھا ہے کہ جہاں آسانیاں تھیں ،جہاں سے شہرت مل سکتی تھی ایسے اجتماعات اور کانفرنسیں تو بہت ہوئیں جسے آئے گفتگو کی اور چلے گئے کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔مگر فلاح و بہبود کے جو کام غیر مسلموں کو بھی اپیل کرسکتے تھے اور جسکی وجہ سے مصیبت کے وقت مسلمانوں کو غیر مسلموں کی حمایت بھی مل سکتی تھی اور بے شک مشکل حالات میں غیر مسلموں کے انصاف پسند طبقات نے مسلمانوں کا ساتھ دیا ہماری طرف سے ایسے کوئی کام نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ہم غیر مسلموں کی توجہ کا سبب بنتے۔سوال یہ ہے کہ جب ہم خود اپنے مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور اپنے مسائل خود حل نہیں کر پارہے ہیں تو دوسروں کے مسائل کیسے حل کریں گے۔ہمارے اپنے کالج ،ہاسٹل اور کمیونٹی ہال نہیں ۔ہمارے اپنے ڈاکٹر نہیں جس کی وجہ سے مسلمان مرد تو مرد مسلمان عورتوں کو بھی ان کے ذریعے اپنا علاج کروانے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے ۔جبکہ اگر ہم اپنی محنت اور جد وجہد کا ایک حصہ کچھ ایسے فلاحی کاموں میں صرف کریں تو بعید نہیں کہ ہندوؤں کا ایک عام طبقہ جو فرقہ پرست نہیں ہے مسلمانوں کے قریب اور مسلمانوں سے ہمدردی جتانے کی کوشش کرے گا۔
مذکورہ بالا باتیں ہم محض قیاس کی بنیاد پر نہیں کہہ رہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے ۔بیس سال پہلے تک ہماری مساجد کے سامنے جن غیر مسلم مردوں اور عورتوں کی قطار کھڑی ہو اکرتی تھی اب وہ ہم سے دور جاچکے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اپنے کردار کو اپنے اسلاف کی شکل اور سوچ میں تبدیل کرلیں تو شاید وہ دن پھر لوٹ آئیں۔میں آپ کے سامنے حال کا ہی ایک واقعہ بیان کرکے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں شاید کہ آپ میری بات سے متفق ہوں۔واقعہ یہ ہے کہ میری اہلیہ جوگیشوری کے ملت ہاسپٹل میں ای این ٹی کے ایک مسلمان ڈاکٹر سے مرض کی تشخیص کے لئے ملنے گئیں۔ان کے بازو میں ایک ہندو عورت بھی بیٹھی ہوئی تھی وہ روتے ہوئے اپنا دکھڑا بیان کرنے لگی کہ یہ جو آپ کا مسلمان ڈاکٹر ہے ،ڈاکٹر نہیں بھگوان ہے ۔اہلیہ نے کہا کہ وہ کیسے اس نے کہا کہ میں نے شہر کے بہت سے مشہور و معروف ہسپتال میں دکھایا سب نے کہا کہ تمہارا کان نکالنا پڑے گا ورنہ انفیکشن سے زہر پھیل جائے گا۔ہر طرف سے مایوس ہو کر جب میں نے علاقے کے اس غیر معروف مسلمان ہسپتال کے ڈاکٹر کو دکھایا تو سب سے پہلے اس نے میرے کان کی صفائی کی اور پھر کچھ دوائیں لکھ کر دیں اور اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کے لئے تقریرں اور کانفرنسوں کے علاوہ بھی کرنے کے بہت سے کام ہیں جو غیر مسلموں کو بھی ضرور متاثر کریں گے۔افسوس کہ ممبئی کے اردو اخبارات میں شہر کی تعلیمی اور دعوتی سرگرمیوں پر سینکڑوں خبریں اور رپورٹیں شائع ہوتی ہیں مگر مسلمانوں کے اس فلاحی ادارے کی طرف کسی اخبار کے رپورٹر کی نگاہ نہیں جاتی جو صرف ایک ہسپتال ہی نہیں ہے اس پورے کمپلیکس میں تبلیغی جماعت کا مرکز مسجد اور اسلامی طرز پر بچوں اور بچیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ اسکول بھی قائم ہیں جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ممبئی کے پسماندہ مسلم علاقوں میں مسلمانوں کے معاشی مسائل کو بھی حل کرنے کی تدابیر کی جائے جس کی وجہ سے مسلمان بچے اور بچیاں بے راہ روی اور انتشار کا شکار ہیں اور ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ 

«
»

ملک کی تقسیم کیلئے جناح سے زیادہ نہرو، پٹیل ذمہ دار

جرائم کے بڑھتے مانسون کے آگے انتظامیہ کی خودسپردگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے