بظاہر یہ حکایت گزرا ہوا قصّہ اور ماضی کی ایک کہانی ہے جو برسہا برس سے کتابوں کی زینت بنتی رہی ہے، اِس کا آج کے زمانے سے کوئی رشتہ نظر نہیں آتا لیکن ہم غور کریں تو اپنے معنی اور سبق آموز ہونے کی وجہ سے یہ حکایت ہمارے آج کے معاشرتی مسائل پر بھی روشنی ڈالتی ہے اور پڑھنے والوں کو سبق دیتی ہے کہ وہ قناعت و کفایت شعاری کو اپنائیں، اپنی کمی ومحرومی کے بجائے دوسرے ایسے لوگوں کو دیکھیں جو اُس سے بھی زیادہ کم وسائل رکھتے ہیں یا جنھوں نے اپنی زندگی میں کفایت شعاری کو اپنا رکھا ہے۔
حقیقت میں کفایت شعاری زندگی بسر کرنے کا ایک قابل تحسین عمل ہے، جس کے دور رس نتائج برآمد ہوتے ہیں اور بُرے دنوں میں یہی کفایت شعاری سہارا بن کر ہماری مددگار بن جاتی ہے اور ہمیں کم خرچ بالانشیں کے مراحل تک لے جاتی ہے، لیکن لوگ عام طور پر اِس کی اہمیت سے ہم واقف نہیں، زیادہ سے زیادہ سو میں دس فیصد افراد ایسے ہونگے جو اپنی خواہشوں اور ضرورتوں کو دباکر کفایت شعاری کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، جن کے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہوتا ہے اور وہ اِس کے بعد بھی مستقبل کی فکر کرکے اپنی بیجا خواہشات کو دباتے ہیں اور غریبوں پر خرچ کرتے ہیں، ایسے لوگ سماج میں ہمیشہ سے کم رہے ہیں، آج ہمارا آئیڈیل وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس زیادہ وسائل ہوں، دولت کی ریل پیل ہو، معیارِ زندگی بلند ہو، خواہ اُس نے مال ودولت کے حصول اور خواہشات کی تکمیل کے لئے کوئی بھی غلط طریقہ اپنایا ہو، اُس کی زندگی کتنے ہی مسائل کا شکار بن گئی ہو، دن رات کی دوڑ بھاگ نے اُس کا چین وسکون چھین لیا ہو۔ رات کی بے چینی اور دن کی مصروفیت اُس کا مقدر بن گئی ہو، علاج ومعالجہ اور دواؤں کے بغیر اُس کی زندگی نہ گزر رہی ہو لیکن ہماری نظر اُس کے ٹھاٹ باٹ ، کھان پان، رہن سہن اور ظاہری آرائش پر ہی ٹکی رہتی ہے۔ اُس نے اِس مقام تک پہنچنے کے لئے کتنی قربانیاں دی ہوں، اپنی اقتصادیات کو مضبوط بنانے کے لئے کیا کیا قدم اُٹھائے ہوں، کتنی کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا ہو، اِن پہلوؤں کو اکثر ہم نظرانداز کردیتے ہیں۔
یاد رکھئے! زندگی بسر کرنا اور اُس کی اقتصادیات کو متوازن رکھنا نہایت ہوش مندی کا کام ہے اور اِس کے لئے سب سے پہلے فضول خرچی پر قابو پانا ضروری ہے، اِس کے بعد کفایت شعاری کا مرحلہ آتا ہے، یہی کفایت شعاری نہ صرف خوشحال زندگی کا راز ہے بلکہ کم خرچ بالا نشیں کا فارمولہ بھی ہے۔
افراد، خاندان یا حکومتیں کفایت شعاری کے اِس فارمولہ پر کس طرح عمل پیرا ہوسکتی ہیں ، آیئے اِس پر ایک نظر ڈالیں۔
دیکھئے روپیہ کمانا، اپنی آمدنی بڑھانا جتنا پیچیدہ عمل ہے، اُس سے زیادہ دشوار اِس کو سلیقہ سے خرچ کرنا ہے، جمع پونجی کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، اِس سے انسان کی اور اُس کے گھر خاندان کی حالت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اِسی لئے اپنی کمائی کو بے دھڑک ہوکر خرچ کردینا عاقبت اندیشی کے خلاف ہے، جو خاندان اپنی آمدنی بغیر بچائے خرچ کردیتے ہیں اور کچھ بچاکر نہیں رکھتے وہ مستقبل میں اقتصادی دشواریوں کا مقابلہ کرنے میں عموماً ناکام رہتے ہیں، اِس کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ آمدنی و خرچ کا باقاعدہ حساب رکھا جائے، جس مد پر خرچ ہو اُس کے نفع ونقصان کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے، قرض سے پرہیز کیا جائے، آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے میں احتیاط برتی جائے ، ضرورت سے زیادہ چیزیں نہ خریدیں جائیں، کچھ لوگ متوقع آمدنی پر بھروسہ کرکے خرچ کرلیتے ہیں ، جب آمدنی نہیں ہوتی تو اُنہیں زیر بار ہونا پڑتا ہے، اُن کا پورا بجٹ درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے، لہٰذا ضروری یہ ہے کہ اپنے گھر اور خاندان کی اقتصادی صورتِ حال کو منظم رکھا جائے اور کسی موہوم توقع پر فضول خرچی نہ کی جائے۔اِسی کا نام کفایت شعاری ہے۔
خاندان اور گھر کا سربراہ اگرچہ مرد ہوتا ہے، جسے اہلِ خانہ کی آنکھ سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن اِس آنکھ کی بینائی اُس کی بیوی ہے جو اگر سلیقہ مند اور کفایت شعار ہے تو گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے لیکن اِس کے برعکس کسی گھر کا نظام چلانے والی بدسلیقہ یا فضول خرچ خاتون ہوتو اُس گھر میں ہمیشہ ہائے توبہ مچی رہتی ہے۔
جہاں تک حکومتوں کی کفایت شعاری کا تعلق ہے تو یہ عمل اُن کی بھی اقتصادیات کے لئے مضبوط محافظ کا کام کرتا ہے، عموماً حکومتیں اپنے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لئے سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری یا تخفیف کو ایک آزمودہ حکمتِ عملی کے طور پر اپناتی ہیں اور اِس کے تحت حکومت کے کاروبار اور نوکر شاہوں کے سرکاری اخراجات میں کمی لائی جاتی ہے اور اِس کی وجہ سے سرکاری خسارہ کے گراف میں کمی آجاتی ہے۔ ماہرینِ اقتصادایت کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کے دفاتر اور وزراء کی رہائش گاہوں ، سفر، دوروں یا دوسری مصروفیتوں کی فضول خرچی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ سرکاری بابوؤں کی شاہ خرچی میں تخفیف کردی جائے تو اُس کا فوری اور مثبت اثر قومی خزانے پر مرتب ہوتا ہے اور سرکاری بجٹ کا خسارہ کم کرنے میں اِس سے بہت مدد ملتی ہے۔
ملک کا یہ عجب المیہ ہے کہ یہاں کے عوام ہر پانچ سال میں کسی نااہل حکومت سے چھٹکارہ پالیتے ہیں لیکن غیرذمہ دار نوکرشاہوں کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے جبکہ افسران کے لامحدود اختیارات اور فضول خرچی بھی ملک کے مالیاتی نظام کو کسی نہ کسی طرح مجروح کرتی ہے ، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتیں بدل جاتی ہیں ، افسران اپنی جگہ قائم رہتے ہیں، لہٰذا سرکاری دفاتر میں ورک کلچر پیدا کرکے کام کرنے کی صحت مند فضا تیار ہونا چاہئے، جس کے مطابق وقت پر کام ہو، بابوؤں کی حاضری مقررہ وقت کے مطابق ہوتی رہے۔ حکومت کم خرچ بالانشیں کا فارمولہ اپنائے اور سرکاری افسران اپنے دفاتر کے اخراجات میں کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے رضاکارانہ تخفیف کی شروعات کریں، خاص طور پر غیر منصوبہ بند بجٹ میں کچھ فیصد کی کمی ضرور لائیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ کفایت شعاری خوش حال زندگی کی نقیب ہے اور شاہ خرچی بربادی کا پیش خیمہ ہے، مختلف مذاہب نے بھی فضول خرچی سے دامن بچاکر صبر، شکر، قناعت اور کفایت شعاری کی تعلیم دی ہے، کفایت شعاری کا مطلب اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہے یا بہترین کاوشوں کے بعد میسر آنے والے وسائل کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہے، کفایت شعاری کے بارے میں دانشوروں اور مفکروں کے بعض اقوال بھی مشہور ہیں مثلاً معروف انگریز مفکر سوفٹ کا کہنا ہے کہ کفایت شعاری سب سے بڑی دولت ہے اور شیخ سعدی کا قول ہے کہ جس نے کفایت شعاری کو اپنایا، اُس نے حکمت ودانائی سے کام لیا، امام غزالی نے بھی کہا ہے کہ کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہے، آج بھی صورتِ حال یہ ہے کہ غریب ہو یا امیر کوئی اپنے وسائل پر مطمئن نہیں ہے، بے شمار ایسے انسان ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہے، پھر بھی اُن کی زبان سے کلمۂ شکر ادا نہیں ہوتا، وہ حرص وہوس میں گرفتار ہیں، اپنے بجائے دوسروں کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں، معمولی تکلیف پر چیخ اُٹھتے ہیں، حالانکہ اُن سے کہیں زیادہ مسائل کے شکار لوگ معاشرہ میں موجود ہیں، جن پر وہ نظر کریں تو اپنے حال پر رشک کرسکتے ہیں، کفایت شعاری کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کو جو کچھ میسر ہے ، اُسی پر اکتفا کرلے اور مزید پانے کی جستجو نہ کرے، کفایت شعاری زندگی میں جدوجہد کرنے یا آگے بڑھنے سے روکتی نہیں ہے بلکہ اِس کا مقصد یہ ہے کہ جو ہمیں حاصل ہے اُسے سلیقہ سے خرچ کریں اور اپنے معاشی ذرائع کا سوچ و سمجھ کر استعمال کریں تاکہ حال ومستقبل سنور سکیں۔
جواب دیں