کیا میڈیا پر یہ دباؤ بنایا جاسکتا ہے کہ وہ جو کچھ شائع کرے وہ سب کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی مرضی کے مطابق ہو؟ کیا ایک جمہوری ملک میں اس قسم کی سوچ مناسب ہوسکتی ہے؟ آج ہم یہ سوال اس لئے پوچھ رہے ہیں کہ ایک اسپینی رائٹر جیویرمورو (Javier Moro) کی کتاب ’’دی ریڈ ساڑی‘‘(The Red Saree)پر پہلے بھی کانگریس کی طرف سے اعتراض کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی اسے سچائی سے دور بتانے کی کوشش ہورہی ہے۔ حالانکہ یہ کتاب بیرون ملک شائع ہوچکی ہے اور فروخت بھی ہورہی ہے نیز اس کے ترجمے بھی علاقائی زبانوں میں ہوئے ہیں مگر بھارت میں کانگریس کے اعتراض کے بعد اس کی اشاعت روک دی گئی تھی۔ ۲۰۱۰ء میں جب اس کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی تھی تب کانگریس کی سرکار تھی مگر اب مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے۔ یہ کتاب اسپینی میں تحریر کی گئی تھی جس کا ترجمہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں ہوا ہے۔ ’’دی ریڈ ساڑی‘‘ سونیا گاندھی کی زندگی پرمشتمل ہے اور ان کی ابتدائی زندگی سے لے کر اب تک کے حالات کہانی
کی شکل میں پیش کئے گئے ہیں۔ جس کے بارے میں اس کے مصنف کا کہنا ہے کہ تمام واقعات کو سونیا گاندھی کے قریبی لوگوں سے مل کر انھوں نے جمع کیا ہے مگر کانگریس کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اس میں پیش کئے واقعات سچائی سے دور ہیں۔خود کتاب کے رائٹر انتہائی حیرت بھرے انداز میں کہتے ہیں کہ اس کتاب پر پتہ نہیں کیوں اعتراض کیا جارہا ہے جب کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو قابل اعتراض ہو۔ ’’دی ریڈساڑی‘‘کے بھارت میں شائع ہونے کے اعلان کے بعد کانگریسی کے حلقے میں بے چینی محسوس کی جارہی ہے اور ممکن ہے ایک بار پھر اس کے مخالف اور حامی دونوں کورٹ کا سہارا لینے کی کوشش کریں۔ حالانکہ کانگریس کے اندر موجود ایک طبقے کا ماننا ہے کہ اس کتاب پر کسی ہنگامہ کی ضرورت نہیں ورنہ اسے پبلسٹی ملے گی اور اس کی فروخت میں اضافہ ہوجائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اسے اپنی موت آپ مرجانے دیا جائے اور خاموشی سے اس کی اشاعت برداشت کرلی جائے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اور ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ جس طرح سے چاہے کسی سیاسی ایشو یا شخصیت کا تجزیہ کرے۔ غور طلب ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے حقوق بھارت میں رولی بکس کے پاس ہیں جو کتاب کی اشاعت پر اعتراض کا دفاع کر رہی ہے اور کسی بھی قیمت پر اسے عام قارئین تک پہنچانے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔ رولی بکس کے ڈائرکٹر ونود کپور کا کہنا ہے کہ پچھلی سرکار اس کتاب کی اشاعت سے خوش نہیں تھی جس کے سبب اس کی اشاعت ممکن نہیں تھی مگر آج حالات بدل چکے ہیں اور ملک میں بڑا سیاسی بدلاؤ آچکا ہے۔ اب نریندر مودی حکومت میں ہیں اور کتاب کی اشاعت کے تعلق سے پچھلی سرکار کا سارویہ نہیں ہے۔ ایسے میں ہم نے کتاب کے رائٹر کے سامنے اس کی اشاعت کی تجویز رکھی اور انھوں نے اسے قبول کرلیا۔ جب کہ کتاب کے رائٹر کا کہنا ہے کہ ان کی کتاب کی اشاعت روکنے کے لئے پچھلی سرکار نے بیرون ہند بھی کوششیں کیں مگر اس کے باوجود اشاعت ہوئی۔ غور طلب ہے کہ یہ کتاب پہلی بار ۲۰۰۸ء میں اسپینی میں شائع کی گئی تھی جب کہ۲۰۱۰ء میں بھارت میں اس کے انگریزی ورزن کی اشاعت ہوئی مگر کانگریس کی طرف سے قانونی نوٹس ملنے کے بعد اسے واپس لینا پڑا تھا۔ کانگریسی حلقے کا کہنا ہے کہ اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کا سچائی سے تعلق نہیں ہے۔
’’لال ساڑی‘‘ میں کیا ہے؟
کتاب ’’دی ریڈ ساڑی‘‘میں سونیا گاندھی کی پوری زندگی کے واقعات بیان کئے گئے ہیں جس کی ابتدا ان کے ہوم ٹاؤن ’’تورِن‘‘ (اٹلی) سے ہوتی ہے۔یہیں ان کی پیدائش ہوئی تھی اور ابتدائی تعلیم بھی انھوں نے یہیں پائی تھی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے وہ اپنے ملک سے باہر جاتی ہیں جہان ان کی ملاقات راجیو گاندھی سے ہوتی ہے اور دونوں کا معاشقہ پروان چڑھتا ہے۔ دونوں کے بیچ انتہائی خوشگوار اور رومانی لمحے گزرتے ہیں۔ وہ دونوں بھارت آتے ہیں اور شادی کرتے ہیں۔ کتاب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اٹلی کی ایک عام سی لڑکی جو بھارت کے ماحول کی بالکل عادی نہیں ہے، وہ نہ صرف بھارت آکر یہاں خود کو اڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ یہاں کا سیاسی ماحول جو اس نے دیکھا وہ بھی اس کے لئے نیا ہے۔ ایسے ماحول میں خود کو ڈھالنا اس کے لئے ایک چیلنج بھرا کام ہے۔ ایک سیدھی سادی لڑکی کا سامنا ایک ایسے خاندان سے ہوا جہاں اگر حاسدین اور مخالفین تھے تو خیر خواہ بھی تھے۔ اصل میں اس کتاب میں صرف سونیا گاندھی ہی نہیں بلکہ اندرا گاندھی کے دورحکومت کے واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں جو سونیا گاندھی کے سامنے گزرتے ہیں۔ سیاسی الجھنیں انھیں
پریشان کرتی ہیں اور ان کے آس پاس جو ماحول ہے اس میں سیاسی مخالفین کی بھی کمی نہیں ہے۔ ایسے میں ایک سیدھی سادی لڑکی خود کو حالات کا عادی بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہاں تک کہ حالات اسے ایسے مقام پر پہنچادیتے ہیں کہ خود اس کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور آجاتی ہے ۔ اس کتاب میں سونیا گاندھی کے حوالے سے راجیو گاندھی کی زندگی اور حکومت کو پیش کیا گیا ہے۔ ملک کے بدلتے سیاسی حالات دکھائے گئے ہیں نیز جدید بھارت کو ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتے دکھایا گیا ہے۔ جواہر لعل نہرو کی زندگی اور ان کی حکومت کے حالات کو بھی اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے مگر یہ معمولی طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں بھارت ۔پاکستان کی جنگ کا بیان ہے اور بنگلہ دیش کو وجود میں آتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کے بیچ کے تعلقات دکھائے گئے ہیں کہ وہ کس طرح احکام جاری کرتی ہیں اور منموہن سنگھ کو ان پر عمل پیرا ہوناپڑتا ہے۔ کتاب میں راجیو گاندھی کی زندگی اور موت دونوں کو پیش کیا گیا ہے اور ان حالات کو دکھایا گیا ہے جن سے سونیا گاندھی کو نبرد آزما ہونا پڑا ہے۔ کتاب میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ بھی ہوتا رہا ہے اور اب تک کے تمام حالات لکھ دیئے گئے ہیں۔ مورو اپنی کتاب کے ابتدائی صفحات میں لکھتے ہیں کہ سونیا گاندھی ایک ایسے وزیر اعظم کو ڈھو رہی تھیں جس کے پاس سیاسی اختیارات کی کمی تھی اور ایک ایسے بیٹے کے ساتھ ا نھیں چلنا تھا جو سیاست میں ہمیشہ غیرآسان نظر آتا ہے۔ ایسی حالت میں ان کا سامنا بھاجپا کے منجھے ہوئے نیتا نریندر مودی سے ہوا۔ مورو لکھتے ہیں کہ کانگریس کو اپنے آپ کو نئے سرے سے کھوجنا ہے مگر کیا وہ ایسا کر پائے گی؟ رائٹر کو شک ہے کہ کانگریس اپنے بیتے دنوں کی واپسی کر پائے گی یا نہیں اسی لئے وہ خود ہی اپنے سوال کاجواب دیتے ہے کہ ’’شاید ہاں اور شاید نہیں‘‘۔مورو کو شک ہے کہ راہل گاندھی کانگریس کو دوبارہ اس کے پیروں پہ کھڑا کرسکیں گے اسی لئے وہ شبہے کے انداز میں کہتے ہیں کہ اگر کانگریس واپس آئی تو یہ اٹلی کی ایک خاتون خانہ کی جیت ہوگی جس نے تعلیم بھی ٹھیک طریقے سے نہیں پائی ہے یا پھر اندرا گاندھی کی واحد پوتی پرینکا گاندھی کے سبب یہ ممکن ہوسکے۔
کتاب پر پابندی سے بحث نہیں رک سکتی
کتاب ’’دی ریڈ ساڑی‘‘ بھارت کے بازار میں آچکی ہے اور اسی کے ساتھ تنازعہ بھی کھڑا ہوگیا ہے۔ تنازعہ کا بڑا سبب سونیا گاندھی کا سیاسی قد اور وہ واقعات ہیں جو سونیا گاندھی سے وابستہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سلسلے میں پہلے تنازعات نہیں اٹھتے رہے ہیں۔ پہلے بھی میڈیا میں سونیا گاندھی اور ان کی زندگی پر بہت کچھ آتا رہا ہے اور نہرو فیملی کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ ان باتوں پر کانگریس کو اعتراض بھی رہا ہے مگر کچھ ایسے حقائق ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور ان پر ہر دور میں بحث ہوتی رہے گی کیونکہ سونیا گاندھی کوئی عام عورت نہیں ہے بلکہ انھوں نے اس ملک پر حکمرانی کی ہے اور وہ جس خاندان کی فرد ہیں اس نے آزادی کے بعد اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت کی ہے۔ شہنشاہوں کے واقعات ہی تاریخ کا حصہ ہوا کرتے ہیں ورنہ ایک عام شہری کی زندگی کبھی تاریخ میں موضوع بحث نہیں آتی ہے۔ کانگریس اور نہرو خاندان نے ایک مدت تک ملک پر حکومت کی ہے ۔ انھوں نے ملک کا اگر کچھ بھلا کیا ہے تو نقصان بھی کیا ہے۔ کیا کوئی یہ بات بھول سکتا ہے کہ اس خاندان نے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی اور اسے بھی نہیں فراموش کیا جاسکتا کہ ملک کی تقسیم کو سب سے پہلے نہرو نے ہی قبول کیا تھا۔ آزادی کے بعد ملک کے آئین کی تیاری میں ان کا اہم کردار تھا تو انھوں نے ہیقانون میں کچھ ایسی پیچیدگیاں بھی رکھی تھیں جو بعد میں مسئلہ بن گئیں۔ اسی طرح اندار گاندھی نے اگر ملک کو آگے بڑھانے کا کام کیا تو انھوں نے ایمرجنسی بھی نافذ کی اور جمہوریت کا قتل بھی کیا۔ اگر ملک کے سیکولر آئین کو بنانے میں کانگریس کا یوگدان تھا تو دوسری طرف بھگواوادیوں کے سیاست میں نمودار ہونے کا سبب بھی کانگریس کی پالیسیاں ہی تھیں۔ یہ تمام معاملات بحث کا موضوع ہیں اور ان بات لکھا جاتا رہے گا اور بحث ہوتی رہے گی اور کانگریس کی مداخلت سے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ آج اگر سونیا گاندھی کی زندگی اس خاندان کے حالات پر لکھا جارہا ہے تو چاہئے کہ کانگریس اس کا کھلے ذہن سے استقبال کرے اور اگر اسے کسی بات سے اختلاف ہے تو وہ مدلل طریقے سے اس کا رد کرے۔ ایک کتاب کی اشاعت پر پابندی سے یہ بحث نہیں ختم ہوسکتی۔
جواب دیں