بھارت میں کیوں بڑھ رہی ہے مسلمانوں کی آبادی؟

یہ سوال ہم اس لئے اٹھا رہے ہیں کہ حکومت کی تازہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ قومی تناسب کے مقابلے زیادہ ہے۔ جہاں پورے ملک کی آبادی دس برسوں میں ۱۸ فیصد کے تناسب سے بڑھی ہے وہیں مسلمانون کی آباد ی یمیں ۲۴فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔یہ رپورٹ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر سامنے آئی ہے۔ حالانکہ سچ پوچھا جائے تو ماضی میں جو مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا تناسب تھا اس کے مقابلے میں دیکھا جائے تو ان کی آبادی میں اضافہ کا تناسب کم ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۱ء کے بیچ مسلمانوں کی آؓدی ۲۹ فیصد کے تناسب سے بڑھی تھی اور اس لحاظ سے ۲۴فیصد کا مطلب ہے کمی آنا۔ حالانکہ ان اعداد وشمار نے سنگھ پریوار کے ان دعووں کو ایک بار پھر مضبوط کیا ہے جس میں وہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں ہندو آبادی کم ہورہی ہے اور مسلمان وعیسائی بڑھ رہے ہیں۔ اگر اسی طرح آبادی کا تناسب بدلتا رہا ہے تو ایک دن ہندو اقلیت میں آجائیں گے اور مسلمان وعیسائی اکثریت میں ہونگے۔ اس سوال کی سنجیدگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا تناسب قومی تناسب سے زیادہ ہے مگر ایسا کیوں ہے؟ یہ غور وفکر کا موضوع ہے۔ ایسا نہیں کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں قومی تناسب سے زیادہ بڑھی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔ البتہ یہ نبھی سچائی ہے کہ اب یہ تناسب کم ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی پروگرام کے تحت تو ہو نہیں رہا ہے۔ جو مسلمان اپنی زندگی بغیر پلاننگ کے گزاردیتے ہیں وہ آبادی میں اضافہ کی پلاننگ کیسے کرسکتے ہیں؟ان کی آبادی کیوں بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے ہندو برادران وطن کے مقابلے میں کہیں اور تو آگے نہیں بڑھ رہے ہیں مگر تعداد بڑھانے میں آگے نکلتے جارہے ہیں، اس کے اسباب و وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آءئے سب سےء پہلے تازہ اعدادوشمار پر نظر ڈالیں اور مردم شماری کے رکارڈ کی بنیاد پر جو رپورٹ سامنے آٗی ہے اس کے بعض حصوں کا جائزہ لیں۔
اعداد وشمار کیا کہتے ہیں؟
۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق سرکاری اعداد بتاتے ہیں کہ لکشدیپ میں سب سے زیادہ مسلمانون کی آبادی کا تناسب ہے یعنی وہ ۹۶فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ یہاں دس برسوں میں ان کی آبادی بہت کم بڑھی ہے۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کی آبادی کم بڑھی ہے ان میں بہار، جھارکھینڈٖ، اترانچل، پنجاب، سکم اور ناگالینڈ کی ریاستیں ہیں جب کہ منی پور میں ان کی آبادی میں کمی آئی ہے۔ آسام ایسی واھد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا تناسب سے زیادہ ہے۔ کیرل بھی ایسی ہی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 24.7فیصد تھی مگر اضافہ ہوا ہے26.6فیصد کا۔ گوا میں ان کی آبادی 6.8فیصد تھی مگر اضافہ ہوا ہے 8.4فیصد کا۔ جموں و کشمیر مسلمانوں کی آبادی 67فیصد تھی مگر اضافے کا تناسب 68.3فیصد ہے۔ غور طلب ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تازہ رپورٹ کے مطابق 13.9فیصد ہے جب کہ اضافے کا تناسب 24فیصد کی شرح سے ہے۔ حالانکہ قومی سطح پر آبادی میں اضافے کی شرح ۱۸فیصد ہے اور سنگھ پریوار کو اسی بات پر سب سے زیادہ اعتراض ہے۔ وشو ہندو پریشد اور دوسری بھگوا جماعتیں اس معاملے پر شور مچاتی رہی ہیں اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے جو تازہ اعداد وشمار پیش کئے ہیں ،اس سے ان کے دعووں کو تقویت ملتی ہے۔ ان اعداد وشمار کو سابقہ یوپی اے سرکار جاری کرنے والی تھی مگر بعض سیاسی اسبا ب کی بنیاد پر ایسا نہیں کرسکی جسے اب موجودہ سرکار نے جاری کیا ہے۔ 
یہ مسئلہ غربت سے جڑا ہوا ہے
آبادی میں اضافے کے تازہ اعداد و شمار جنھیں لے کر سنگھ پریوار ہنگامہ مچارہا ہے، ان میں کچھ بھی نیا نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح قومی تناسب سے زیادہ تھی اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کمی آئی ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ شرح ۲۹ تھی جو اب گھٹ کر ۲۴ ہوئی ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ کیا وہ سرکار کی فیملی پلاننگ کے مقابے میں کوئی دوسری پلاننگ کر رہے ہیں؟ اس کا جواب سماجی امور کے ماہرین یہ دیتے ہیں کہ جن طبقات کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے وہ کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صرف مسلمانوں کی آبادی تیزی سے نہیں بڑھی ہے بلکہ ہندووں میں بھی دلتوں، غریبوں اور پسماندہ طبقات کی آبادی بڑھی ہے کیونکہ وہ فیملی پلاننگ نہیں کرتے ہیں اور اس بارے میں زیادہ سوچتے بھی نہیں ہیں۔ ان کے گھر میں بچے کی پیدائش کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک نیا مزدور پیدا ہوگیا جو کچھ دن کی پرورش کے بعد اپنے ہی لئے نہیں بلکہ اپنے خاندان کے روزگار میں اضافہ کرے گا۔ گاؤوں میں آج بھی یہ سوچ ہے کہ بچے کی پیدائش کا مطلب ہے اپنے کاندان کی طاقت میں اضافہ۔ یعنی گاؤوں میں جس کے پاس زیادہ افراد ہونگے وہ زیادہ دبنگ ہوگا۔ اس قسم کی سوچ زیادہ بچوں کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ مسلمان چونکہ سب سے پسماندہ ہیں اور ان کے اندر تعلیم کی کمی ہے لہٰذا وہ فیملی پلاننگ کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں ۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر بچہ ہوگا تو کل بڑا ہوکر ہمارے کام کاج میں ہاتھ بٹائے گا۔ اسی سوچ کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کا تجزیہ ایک دوسرے طریقے سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ غریب اور غیر تعلیم یافتہ طبقے میں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور دوبچوں کے بیچ فاصلہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس میں مذہب کی کوئی قید نہیں ہے۔ جس طرح غریب مسلمانوں میں چار پانچ بچے عام طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں اسی طرح غریب ہندووں میں بھی دیکھنے کو مل جائیں گے۔ آسام اور مغربی بنگال جیسی رایستوں میں مسلمان زیادہ پسماندہ ہیں اور تعلیم کی کمی ہے۔ ان میں سے بیشترافراد مزدوری کرتے ہیں اور کسی طرح زندگی گزارتے ہیں یہی سبب ہے کہ یہاں زیادہ تیزی سے ان کی آبادی بڑھی ہے۔ ایسا ساری دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ غریبوں میں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور امیر و پڑھے لکھے لوگوں میں کم بچے ہوتے ہیں۔ باشعور لوگ بچے پیدا کرنے سے پہلے پلاننگ کرتے ہیں اور ایک سے دو بچے ہی تک محدود رکھتے ہیں کیونکہ ان کی پرورش وپرداخت کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم وتربیت پر بھی انھیں سوچنا پڑتا ہے مگر غریب اور غیر تعلیم یافتہ افراد میں شعور کی کمی ہوتی ہے اور وہ اتنی دور کی نہیں سوچتے ہیں۔ اس ملک میں جتنے بھی سرکاری اور گیر سرکاری سروے ہوئے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس ملک کے مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ ہیں اور معیشت وتعلیم میں سب سے پچھرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر ان کے ہاں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اگر سرکار چاہتی ہے کہ وہ کم بچے پیدا کریں تو اسے چاہئے کہ مسلمانوں کی تعلیم اور سماجی ترقی کا بہتر انتظام کرے۔ جس دن وہ پڑھ لکھ گئے اس دن بچے کم ہونے لگیں گے۔ ثبوت کے طور پر ان مسلمانوں کو دیکھا جاسکتا ہے جو اعلیٰ تععلیم یافتہ ہیں اور معاشی وسماجی اعتبار سے آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایسے مسلمانوں میں بہت کم بچے دیکھے جاسکتے ہیں۔ 
ہندوآبادی میں کمی کیوں؟
آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح زیادہ ہے اور اس کا سبب یہ بتایا جارہا ہے کہ یہاں بنگلہ دیش سے گھس پیٹھ ہورہی ہے۔ حالانکہ اب تک حکومت کی جانب سے اس کی روک تھام کے لئے بہت سے اقدام کئے گئے ہیں ۔ سرحد پر سیکورٹی بڑھائی گئی ہے اور خاردار باڑھ لگائی گئی ہے تاکہ بنگلہ دیش سے یہاں کوئی نہ آسکے ۔ اب اس کوشش کے باجود بھی کوئی آتا ہے تو اسے حکومت اور سرحد کے محافظوں کی ناکامی کہا جائے گا۔ حکومت کو چاہےئے کہ وہ ااس پر از سر نو گور کرے اور سرحد کو سیل کرنے کا خاص انتطام کرے۔ 
ہندووں کی آبادی میں جس کمی کی بات کی جارہی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہندو بہت تیزی سے تعلیم حاصؒ کر رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے اندر دن بہ دن شعور آرہا ہے۔ یہاں تک کہ دلت اور پسماندہ طبقے بھی سرکاری سہولیات کا فائدہ اٹھارہے ہیں اور جیسے جیسے شعور آرہا ہے وہ بچوں کی پیدائش کے بجائے بچوں کی پرورش پر زور دے رہے ہیں۔ دوسری جانب اب تک کی تمام سروے رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ مسلمان مزید پسماندہ ہوتے جارہے ہیں۔ انھیں ایس سی ایس تی ریزرویشن سے کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ او بی سی ریزرویشن سے معمولی طور پر فائدہ پہنچتا ہے۔ ایسے میں آبادی میں اضافہ کا تعلق انسانی شعور سے ساف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ہندووں کی آبادی میں کمی کا ایک بڑا سبب بعض ریاستوں میں ماں کے شکم میں لڑکیوں کی جنین کشی ہے۔ ہریانہ ، پنجاب اور راجستھان جیسی ریاستوں میں تو اس کی وجہ سے لڑکیوں کی تعداد میں اتنی کمی آگئی ہے شادی بیاہ کے لیے بھی لڑکیاں نہیں ملتی ہیں مگر اس کے برخلاف مسلمانوں میں یہ برائی بہت کم دیکھی جاتی ہے۔ اگر سرکار آبادی میں اجافہ کو روکنا چاہتی ہے تو اسے اس مسئلے پر زیادہ توجہ سے سوچنا پڑے گا۔ سیاست سے کام نہیں چلے گا۔ 

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے