اسلام میں خلافت کی اہمیت اور ریاست کا تصور

مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مودی کی ان بے سر اور پیر کی باتوں سے دراصل قدیم اور عہد وسطیٰ کے ہندوستانی سائنسدانوں کے ذریعے حاصل کی گئی کامیابیوں کی توہین ہے مگر افسوس کہ کئی اکیڈمیوں پر مشتمل ہمارے نام نہاد سائنسداں مودی کے اس جھوٹ کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہے اور کسی سائنسی ادارے نے ان کے اس غیر منطقی دعوے کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی ۔شاید وہ ایسا اس لئے نہیں کرسکے کیوں کہ ان پر سیاسی دباؤ رہا ہوگا ۔مضمون نگار کے مذکورہ بالا قول کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد مودی کی ذہنیت پر روشنی ڈالنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے ہے کہ ایک سماج اور معاشرے کو گمراہ کرنے یا صحیح رخ دینے میں حکومت ریاست اور اقتدار کی طاقت کا کتنا اہم کردار ہوتا ہے ۔بلکہ یوں کہاجائے کہ جھوٹ اور برائی میں پہلے ہی سے اتنی لذت اور کشش ہوتی ہے کہ وہ کسی حکومت اور ریاست کی طاقت کے بغیر بھی حکومتوں ،حکمرانوں اور ریاستوں میں سرایت کر جاتی ہے ۔مگر حق کے لئے ضروری ہے کہ اسے اقتدار حاصل ہو اور پھر اس اقتدار کے ذریعے انسانوں کو اس کے اصل خالق کا جو صحیح پیغام دیا جائے وہ پورے عالم کے لئے رحمت بن جائے ۔ویسے پرانی کہاوت بھی ہے کہ حاکم اپنے سو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کا محتاج نہیں ہوتا ۔لیکن جو لوگ محکوم ہوتے ہیں انہیں اپنے سچ کو سچ ثابت کرنے کے لئے بھی حکومتوں کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔
دعوت دین و تبلیغ میں مصروف ہمارے کچھ مسلم اسکالر اور مسلم تنظیمیں جن کا خیال ہے کہ جمہوریت اور رائے شماری کے موجودہ سیاسی ماحول میں اب حاکم و محکوم کا تصور نہیں رہا اور ہم ایسے ہر ملک میں اپنے عقیدے اور خیال کی تبلیغ کیلئے آزاد ہیں ۔یہ بھولے بھالے دانشور اور علماء دین جو اسلام اور لبرلزم کو ایک ہی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں یا جنہوں نے سیکولرزم کی شکل میں اسلام کو اپنے لئے گمشدہ خزانہ تصور کرلیا ہے یہ محض ان کی سوچ اور ذہن کا دھوکا ہے ۔آج کی جمہوری طرز سیاست کی دنیا میں جس مساوات اور آزادی کی بات کی جارہی ہے یہ دراصل مساوات نہیں مسابقت ہے۔یعنی آمریت اور بادشاہت کے دور میں جو کشمکش رعایا اور بادشاہ کے درمیان خلش کا سبب ہوا کرتی تھی اب اس کشمکش میں ہر فرد ایک دوسرے کا مد مقابل ہے ۔خاص طور سے مذہب بیزار لبرل سرکاری نظام تعلیم کے بطن سے جو نئی نسل اور قوم ابھر کر سامنے آئی ہے ،اقتدار پر قابض ہوتے ہی سرکاری نصاب میں اپنے باطل خیالا ت اور نظریات کو تھوپنے اور مسلط کرنے کیلئے بضد ہوتے ہیں ۔تعلیم میں مخلوط کلچر ،سیکس ایجوکیشن ،موسیقی اور دیگر فحش تقریبات کے ذریعے نئی نسل کو محبت اور مساوات کے نام پر فساد اور انتشار میں مبتلا کرنے کی ایک ناکام سازش ہے۔ایسے میں اللہ کے نیک بندے جو اس مخصوص سیکولر اور لبرل نظام تعلیم اور سیاسی دھارے سے مطابقت نہیں رکھتے لبرل جمہوری حکومتیں اس قوم اور شخص کی آزادی اور جد وجہد کی بھی نگراں ہیں۔جو لوگ اس ماحول اور مزاج کو سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف تحریک چلارہے ہیں انہیں اکثر بزور قوت یادجالی میڈیا کے پروپگنڈے کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد مسلمانوں کی کسی تحریک یا جماعت کی طرف سے ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور بد عنوانی کے خلاف کبھی کوئی موثر تحریک نہیں شروع کی گئی اور نہ ہی کسی مسلم تنظیم نے اپنی سیاسی اسلامی بیداری کا ثبوت دیا جو برادران وطن میں مغرب کے بر خلاف الگ سوچ پیدا کرسکے ۔بعد میں ہندوؤں کے کچھ لیڈر جئے پرکاش نارائن ،انا ہزارے اور اروند کیجریوال وغیرہ نے سیاسی بدعنوانی کے خلاف جو آواز اٹھائی میڈیا نے جو اس تحریک کا حشر کیا اور جس مشکل حالات سے یہ لوگ گذرے ہیں یہ پوری صورتحال ہمارے سامنے ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انا ہزارے اور اروند کیجریوال کی تحریک بھی ادھوری ہے اور اگر بالفرض یہ لوگ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو بہت جلد انہیں اسی طرح ناکامی کا منھ دیکھنا پڑسکتا ہے جیسا کہ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی اور لبرل طرز سیاست کا حشر ہوا اور دو دہائی کے اندر ہی جئے پرکاش نارائن ،رام منوہر لوہیا اور جنتا پارٹی کے لیڈران کو دوسری آزادی کا نعرہ لگانا پڑا۔سچ تو یہ ہے کہ دنیا کو حقیقتاً بدعنوانی سے آزادی اور امن و انصاف کا ماحول اسلامی طرز سیاست کے تصور آخرت اور دین خلافت کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔یہ بات ان لوگوں کو بھی پتہ ہے جو اپنے نیو ورلڈ آرڈر کے منصوبے کے تحت عالمی سطح پر لبرل طرز سیاست کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور دنیا کے ہر اس ملک میں تحریکات اسلامی کی سیاسی کوشش اور جد وجہد کو ہر ممکن طریقے سے روند ااور کچلا جارہا ہے ۔ایسا ماحول تیار کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کیلئے اسلامی طرز سیاست اور خلافت کی بحث کرنا تو دور کی بات مسلم ممالک میں بھی اسلام کی اصل تعلیمات سے لوگوں کو متعارف کرانا مشکل ہو چکا ہے۔غیر مسلم ممالک میں مسلم تنظیمیں خدمت خلق اور مختلف فلاحی اداروں کے ذریعے برادران وطن کے سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرسکتی ہیں مگر ان ممالک میں بھی اگر کسی عام مسلمان کے دل میں نیک کام کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے تو وہ کوئی اسکول یا تعلیمی بیداری کی مہم شروع کرکے سر سید بننے کی جد وجہد شروع کرتا ہے یا اگر مولوی ہے تو مدرسہ یا دعوت و تبلیغ کی دکان کھول لیتا ہے اور یہ سمجھنے کی بھی کوشش نہیں ہوتی کہ وقت کے رسول ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز صفا ومروہ کی پہاڑی سے کیوں شروع کیا؟یہی بات تو وہ دنیا کی مقدس عمارت خانہ کعبہ کی دیواروں پر کھڑے ہو کر بھی کہہ سکتے تھے اور آپ ﷺ نے جو بات کہی آپ ﷺ کے اس پیغام اور آج کی دعوت میں کتنی مماثلت ہے اور کیوں وقت کے رسول ﷺ کی اس دعوت کی مخالفت کی گئی اور وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مخالفت کی اور سماج کا وہ کون سا طبقہ تھا جس نے اس مخالفت کے باوجود آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا۔اس کے برعکس کسی اسلامی تحریک کے خلاف مخالفت کا ماحول نظر آرہا ہے تو یہ وہی تحریکیں ہیں ۔جو لوگوں کو اسلامی طرز سیاست اور خلافت اسلامیہ کی روح کو دوبارہ زندہ کرنے کی دعوت دے رہی ہیں اور وقت کے قیصر و کسریٰ نے اسی طرح ان محاصرہ کررکھا ہے جیسے کہ ہجرت کے بعد مدینہ اور مدینے کے لوگ مشکل حالات سے گذررہے تھے۔یہ بات بھی کون نہیں جانتا کہ وقت کے رسول ایک سماج اور معاشرے کی اصلاح کیلئے بھیجے جاتے تھے اور یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک کہ لوگ اپنے باطل نظریات کو رد کرتے ہوئے اپنے خالق کی ربوبیت اور رسول کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرلیں۔
نبی کی اسی دعوت اور اصلاح کے طریقے سے جب طبقہ خاص اور اشرافیہ کو اپنا مفاد خطرے میں نظر آیا تو انہوں نے رسول اور ان کے ساتھیوں کی تحریک کو ہر ممکن طریقے سے کچلنے کی کوشش کی ۔اس کے باوجود اس جماعت نے تصادم سے گریز کرتے ہوئے ہجرت کو ترجیح دی اور جس مقام پر بھی سکونت اختیار کی اپنی خلافت کا اعلان کیاتاکہ لوگوں کو امن کی اس بستی میں تحفظ فراہم کیا جائے۔جیسا کہ خلافت کے اصل معنی بھی یہی ہوتے ہیں کہ ایک نظام جو لوگوں کو تحفظ فراہم کرے اور خلیفہ ان کا محافظ ہو۔اسی لئے اللہ نے جب آدم کی تخلیق کا منصوبہ بنایا توکہا کہ ’’میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں‘‘ نہ کہ یہ کہا کہ ’’ میں زمین پر اپنا داعی مقرر کرنا چاہتاہوں‘‘۔اس طرح اللہ نے فرشتوں اور جنوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں اور اسے اپنا خلیفہ تسلیم کریں مگر ابلیس جو کہ اس وقت اللہ کے خاص بندوں میں جنوں کا سردار تھا اپنے آگ سے بنے ہونے کی وجہ سے آدم سے طاقتور جانا اور ان کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔اگر ہم غور کریں تو دیکھتے ہیں کہ آدم کے بعد دنیا میں جتنے بھی رسول اور نبی آئے وہ سب کے سب اللہ کی طرف سے انسانوں اور جنوں پر خلیفہ مقرر کئے گئے تھے اور جنہوں نے ان کی خلافت کا سب سے پہلے انکار کیا یہ وہی لوگ تھے جو اپنے آپ کو لوگوں میں سب سے افضل اور طاقتور تصور کرتے تھے ۔اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی انہیں اپنی تابعداری اور فرمانبردار ی میں داخل کرکے اپنی مرضی کے قانون اور عیش و عشرت کی زندگی سے محروم کردے فرق اتنا ہے کہ آج اس تحریک نے عالم گیر صورتحال اختیار کرلی ہے اسی لئے پاکستان سے لے کر ایران عراق شام مصر ترکی اور الجزائر وغیرہ میں باطل طاقتیں جس میں کچھ مسلم ممالک بھی ہیں اسلام پسندوں کے خلاف خیمہ زن ہیں یا چیل کووں کی طرح حملہ آور ہیں تو اس لئے کہ یہاں پر اسلام پسند سیاسی تحریکوں کو عروج حاصل ہو رہا ہے اور شیطان کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ آدم کی جن اولادوں کا اس نے تحریک خلافت سے رخ موڑ دیا ہے وہ دوبارہ صراط مستقیم کا حاصل کرلے۔سوال یہ ہے کہ جو لوگ دن میں پانچ بار اذان کی آواز سن کر نماز قائم کرتے ہیں ،سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں کیا وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شیطان نے آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا اور وہ نہیں چاہتا کہ آدم کی نیک اور صالح اولاد خلافت کے منصب کو حاصل کرلے! 

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے