کیا قوم مسلم معمولات کی بدترین سطح پر آچکی ہے؟؟؟

اس قوم کا اب حال یہ ہوچکا ہے کہ بڑے سے بڑے مقرر کو مدعو کر لیجئے،ہزاروں کا مجمع جمع کر لیجئے،کچھ گھنٹے کے لیے حرارت ایمانی کا مظاہرہ ہوتاہے،نعرۂ تکبیر کی پرسوز صدائیں بلند ہوتی ہیں،اس کے بعد وہی سب کیاجاتاہے جو نفس مطالبہ کرتاہے۔اسی طرح بہترین اور مضبوط قلم کے دھنی سے اصلاحی مضامین وکتابیں لکھوالیجئے،پڑھتے وقت سبحان اللہ اور دادوتحسین کے کلمات تو زبان سے ادا ہوتے ہے مگروہی کیا جاتا ہے جو شریر نفس کہتاہے۔
مسلمانوں کے معاملات اس قدر بگڑ چکے ہے کہ لکھتے ہوئے بھی شرمندگی کا احساس ہورہاہے۔مگر لکھناضروری ہے کیوں کہ ان اعمال کو گناہ تو دور مسلمان اب برائی بھی محسوس نہیں کررہے ہیں ۔ مثلاً:ایک بے گھر مسلمان کو ایک رحمدل شخص نے اپنا مکان کرائے سے دیا،دس بیس سالگزرنے بعد مالک مکان کو اپنے بچوں کی شادی بیاہ کے لیے گھر کی ضرورت پیش آئی،ایک ماہ پہلے ہی اطلاع کردی گئی کہ آپ کسی اور جگہ کا بندوبست کرلیجئے،مگر اب کرایہ دار ہدیۂ تشکر پیش کرنے کی بجائے لگے صاحب پچاس ہزار کا مطالبہ کرنے۔قارئین کرام بھی خود اس بات کے گواہ ہوں گے کہ بہت سے پرانے کرایہ دار مکان خالی کرتے وقت کس قدر بھاری بھرکم رقم کامطالبہ کرتے ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ بے سروسامانی کے عالم میں جس شخص نے سر ڈھانپنے کے لیے چھت فراہم کی اس کا شکریہ اداکیاجاتا۔مگر افسوس صد افسوس!شکریہ کا نذرانہ اداکرنے کی بجائے پیسوں کی خواہش۔کیااسلام اس بات کی اجازت دیتاہے ؟کیاہمارے اس عمل کی وجہ سے کل کوئی انسان کسی مسلمان کی مدد کرے گا؟
اسی طرح اکثر لوگوں کا یہ طریقہ بن چکاہے کہ اپنی ڈیوٹی سے فراغت کے بعد ان کے پاس صرف دو کام ہوتے ہیں۔اوّل بال بچوں کے ساتھ ٹیلی ویزن پر فلمیں ڈرامے اور کامیڈی سیریلس دیکھنا اور دوّم دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں پر گپیں ہانکنا۔جن سے اپنے گھر کے مسائل نہیں سلجھتے وہ وہائٹ ہاؤس کی گتھیوں کو سلجھانے کی احمقانہ کوشش کرتے ہیں۔جو وقت ذکر وعبادت میں گزارنا چاہئے،جو وقت گھریلوں ذمہ داریوں اور مسائل کے حل پردیناچاہئے،جو وقت بچوں کی تربیت پردیناچاہئے اور جو وقت بچوں کے ہوم ورک اور اسکول ومدرسے کے سبق یادکرانے پر دیناچاہئے ،وہ تمام وقت والدین ٹیلی ویزن اور گپیں ہانکنے کی نذر کردیتے ہیں۔ایسے معمولات میں کیابچوں میں اعلیٰ اخلاق کی توقع کی جاسکتی ہے؟
اسی طرح آپ دیکھ لیجئے بہت سے ایسے گھرانے آپ کو نظرآئینگے جہاں ایک چھوٹی سی کھولی میں بوڑھے ماں باپ کسمپرسی اور قیدخانہ کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔صرف دووقت کی روٹی ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔تہوراوں پر خود کیلئے اور بیوی بچوں کے لیے اعلیٰ وعمدہ کپڑوں کی خریداری اور والدین کے لیے سستے لباس کی تلاش۔اے مسلمانو!کیاصرف دو وقت کاکھاناکھلا دیناہی ماں باپ کا حق ہے ؟ کیااسلام نے والدین کے بس اتنے ہی حقوق وفرائض بیان فرمائے ہے؟گھریلومسائل کس گھر میں نہیں ہوتے؟ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بوڑھے والدین کو ایک کمرے میں قید کردیاجائے۔اسلام تو یہ کہتاہے کہ والدین پر اسی طرح شفقت ،محبت اور مروت سے پیش آؤجیسارحم انہوں نے ہم پر بچپن میں کیاتھا۔افسوس !قوم سے فرامین خداورسول کے احکامات پر عمل کرنے کااحساس بھی جاتارہا ۔(الاماشاء اللہ )جو بچہ اپنے ماں باپ کا نہیں ہوسکتااس سے پڑوسیوں اوراہل محلہ کے حقوق کی ادائیگی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟
بچوں کے اعلیٰ تعلیم میں داخلے کے وقت بعض لوگ کہتے ہے کہ بڑی بڑی ڈگریاں دلانا غریبوں کے بس کی بات نہیں،میں کہنا چاہتاہوں یہ فکر اس وقت کیوں پیداہورہی ہے جب بچہ کالج اوریونی ورسٹی کی دہلیز پر قدم رکھنے والاہے۔یہ فکر غریب باپ کے دل میں اس وقت کیوں نہیں پیداہوئی جب وہ ہزاروں روپیہ سنیماگھروں میں خرچ کررہاتھا،یہ فکر اس وقت کہاں گئی تھی جب غریب باپ ہزاروں روپئے چائے کی چسکی،سگریٹ کے دھنویں،پان کی پیک اور گٹکے کے تھوک میں اڑارہاتھا،چھوٹے چھوٹے رسومات وتہوراوں کابہانہ لے کر مختلف مقامات کی سیر سپاٹے میں ہزاروں روپئے اڑاتے وقت یہ فکر کیوں نہیں پیداہوئی؟اگر پہلے سے منصوبہ بنایاجاتا،سرمایہ کاری کی جاتی تو نہ صرف بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتابلکہ تعلیم کے بعد بچے کو اپنے پیروں پر کھڑاہونے کے لیے بھی بھرپور سرمایہ ہوتا۔اپنی فضول خرچیوں پر پابندی لگائے تو تعلیمی محاذ پرکامیاب ہونایقیناممکن ہے۔اپنے منصوبہ بندی کے فقدان کو یہ کہہ کر نظر انداز کردیناکہ اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرناغریب کی بساط سے باہر ہے کہاں کی عقل مندی ہے ؟
آج ایک مزدور بھی بڑے سے بڑااینڈرائیڈہینڈسیٹ رکھ رہاہے۔مہینے کا پانچ سو روپئے کا نیٹ ریچارج کررہاہے۔ایسانہیں ہے کہ ہم مزدوروں کے اعلیٰ وعمدہ موبائل فون رکھنے کے خلاف ہے، بلکہ لکھنے کامقصد یہ ہے کہ جو کام ایک معمولی سے فون سے ہوسکتاہے تو کیاضرورت ہے فضول خرچی کرنے کی۔جو کام سائیکل سے ہوسکتاہے اس کے لیے موٹر سائیکل کی کیاضرورت ؟دراصل مسلمان دن دبہ دن خواہشات میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں اوراپنی خواہشات کو ضرورت کا نام دیاجارہاہے۔،دکھاوااورریاکاری کامرض ہمارے سماج میں جڑپکڑچکاہے۔ذراتنہائی میں بیٹھ کرسوچئے کہ کیااسلام اس طرح کی فضول خرچی کی اجازت دیتا ہے۔اسلام ہمارے اسٹینڈرنظرآنے،ہائی فائی سسٹم اپنانے،شوق وخواہشات کی تکمیل کرنے سے نہیں پھیلاہے،اسلام پھیلاہے مسلمانوں کے اخلاق،کردار اور معمولات کو دیکھ کر۔ خدارا خدارا!اپنے اعمال ومعمولات کو سدھاریئے،مت کیجئے اپنی ذات سے اسلام کو بدنام۔اگر ہم اسلام کو فائدہ نہیں پہنچاسکتیں تو کم ازکم نقصان نہ پہنچائیں۔ 

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے