حال ہی میں کنگس انڈیا انسٹی ٹیوٹ ،لندن میں انڈین پالیٹکس اینڈ سوشیالوجی کے پروفیسر، کرسٹوفی جیفریلوٹ نے اس سلسلے میں ایک تحقیقی مضمون لکھ کر انھوں نے ان عوامل کا جائزہ لیا ہے جنھوں نے بھارت میں مسلمانوں کو اکثریتی ہندو طبقے سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ آج وہ ایسے محلوں میں رہتے ہیں جہاں دوسرے طبقے کے لوگ نہیں رہتے ہیں اور گھنی آبادی کے سبب یہاں کئی مسائل جنم لیتے رہتے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں جس بات کا اہمیت کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ ہے فرقہ وارانہ فساد۔ ان فسادات کا اہم کردار رہا ہے مسلمانوں کے محلوں کو دوسروں سے الگ کرنے میں۔ اس وقت تقریباً تمام ہندوستانی شہروں اور خاص طور پر میٹرو پولیٹین میں ان کی الگ بستیاں بس چکی ہیں اور ان بستیوں میں غریب وامیر کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ سبھی طبقے کے لوگ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اسی طرح جھونپڑپٹیوں میں بھی عموماً مسلمان ہی نظر آتے ہیں۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ مسلمان کے پاس اگر پیسے آجائیں تو بھی وہ اس بات کی ہمت نہیں کرپاتے کہ پاش کالونیوں میں جاکر مکان یا فلیٹ خرید لیں اور صاف ستھری فضا میں زندگی بسر کریں۔ یہی سبب ہے کہ مسلم بستیوں میں زمین اور مکان کی قیمت تیزی سے بڑھتی جاتی ہے یہ الگ بات ہے کہ دن بہ دن بنیادی سہولیات کا فقدان ہوتا جاتا ہے اور مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں مسلمانوں کی کالونیاں عموماً غیر قانونی طور پر آباد ہوتی ہیں اور یہاں بننے والے مکانات بھی سرکاری منظوری کے بغیر بنائے جاتے ہیں۔ آخر کیا سبب ہے کہ پورے ملک میں مسلمانوں کی بستیاں ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں اور وہ دوسروں
سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں؟ کونسی ذہنیت انھیں دوسروں سے مختلف رکھتی ہے؟ یہ سوالات اہم ہیں۔
دنگوں نے آباد کئے یہ شہر
راجدھانی دلی کے جامعہ نگر،سیلم پور ہوں یا احمد آباد کا ضحٰی پورہ، کلکتہ کے راجہ بازار اور مہدی بگان ہوں یا ممبئی کی مسلم بستیاں ہرجگہ ایک جیسے حالات اور ایک جیسی ذہنیت دیکھنے کو ملتی ہے کہ مسلمانوں کا امیر وغریب طبقہ ایک ساتھ رہتا ہے اور ان بستیوں سے باہر نکلنا نہیں چاہتا۔ اس کا سب سے بڑا سبب تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے شہری علاقوں میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں جن کی پشت پناہی سیاسی پارٹیاں اور سرکاریں مختلف اسباب کی بنیاد پر کرتی رہی ہیں۔ ان دنگوں میں عموماًمسلمان ہی مارے گئے اور ان کی املاک کا نقصان ہوا۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنگوں کے ذمہ داروں کو سزا بھی ملی ہو۔ ان حالات میں مسلمانون کے اندر یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ ملی جلی آبادی میں رہیں گے تو ان کی جان و مال کو تحفظ نہیں مل سکتا اور کسی بھی وقت دنگے ان کی زندگی اور زندگی بھر کی کمائی کو برباد کرکے رکھ دیں گے۔ اگر جائزہ لیں تو جتنی بھی خالص مسلم بستیاں، آباد ہوئی ہیں وہ آزادی کے بعد آباد ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے ملی جلی بستیوں میں ہی مسلمان رہتے تھے۔ ہر دنگے کے بعد اس قسم کی بستیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ایک نئی بستی بس جاتی ہے۔ بھاگل پور، بہار شریف اور جمشید پور کے فسادات کے بعد ایسا ہی ہوا تھا۔ممبئی، گجرات کے دنگوں کے بعد مسلمان ملی جلی آبادیوں سے نکل کر ان علاقوں میں چلے آئے جہاں ان کی یکطرفہ آبادی تھی اور اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ مظفر نگر میں ایسا ہی ہورہا ہے کہ فسادات کے بعد مسلمان الگ تھلگ اپنی بستیاں بسا رہے ہیں۔ دلی کے ان علاقوں میں جہاں آج مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے، وہاں بھی قدیم مسجدوں کے آثار دکھائی دیتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں کبھی مسلمانوں کو آبادی تھی۔ کلکتہ کے بلیا گھاٹا علاقے میں جہاں مشکل سے کوئی مسلمان مل جائے بڑی تعداد میں مسجدیں ہیں جو غیر آباد ہیں اور یہ پورا علاقہ آزادی کے بعد ہونے والے فسادات میں اجڑا تھا۔ اس قسم کے نمونے پورے ملک میں دیکھنے کو مل جائیں گے۔ الگ تھلگ مسلم بستیوں کا اایک بڑا سبب دنگوں کا خوف ہے۔جب احسان جعفری جیسے سیاسی لیڈران تک فساد میں مارے جاتے ہیں تو عام مسلمان کیسے خود کو محفوظ سمجھے اور بے فکر ہوکر ہندو اکثریتی بستیوں میں رہے؟
ہندو علاقے میں مسلمان نہیں رہ سکتا
مسلمان عام طور پر مسلم بستیوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر کچھ لوگ یہ ہمت کرلیں کہ وہ ان بستیوں سے نکل جائیں تو انھیں مکان ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ فلم اداکارہ شبانہ اعظمی اور ان کے شوہر گیت کار جاوید اختر نے شکایت کی تھی کہ انھیں ممبئی کے پاش علاقوں میں گھر نہیں دیا جارہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن مسلمانون کا مسلم طبقے سے برائے نام تعلق رہ جاتا ہے وہ بھی غیر مسلم آبادی کے لئے قابل قبول نہیں ہوتے ہیں تو عام مسلمان جن کی تہذیب وثقافت میں اسلام کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے وہ کس طرح قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ یہ ذہنیت صرف ممبئی اور مہاراشٹر تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ کئی ٹی وی چینلوں نے اس سلسلے میں انکشاف کیا تھا کہ مسلمان کرایے دار کو ہندو مکان مالکان گھر دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس قسم کے اسٹنگ آپریشن ممبئی سے دلی تک کئی شہروں میں کئے گئے تھے۔ بعض مکان مالکان کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنی کھانے پینے کی عادتوں کے سبب
ان کے لئے قابل قبول نہیں ہیں اور بہت سے مسلمان انھیں عادتوں کے سبب مسلم بستیوں سے باہر رہنا پسند نہیں کرتے۔ انھیں اپنے گھر کے آس پاس گوشت کی دکانیں اور ہوٹل کی ضرورت ہوتی ہے جو دوسری بستیوں میں نہیں مل پاتی ہیں۔ مسلم محلون میں رات کے ۱۲ بجے تک چہل پہل رہتی ہے اور ہوٹلوں میں بھیڑ لگی ہوتی ہے، سڑکوں اور گلیوں میں کباب، پراٹھے اور دوسری کھانے پینے کی اشیاء فروخت ہورہی ہوتی ہیں اور کچھ لوگ اسی لائف اسٹائل کے عادی ہونے کے سبب دوسری جگہوں پر جانا نہیں چاہتے ہیں۔ راجدھانی کی سب سے پاش کالونیوں گریٹر کیلاش اور ڈیفنس کا لونی وغیرہ میں ایک آدھ مسلمان دکھائی دیتے ہیں اور ان میں کچھ انڈین ہیں تو کچھ غیر ملکی ہیں جو یہاں سفارتی غرض سے آئے ہیں۔ شاید انھیں اس لئے کرائے پر مکان مل جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے مہنگے کرایے پر مکان لے سکتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دلی میں آزادی کے بعد کبھی کوئی بڑا دنگا نہیں ہوا۔
مسلمانوں کی مالی حالت بھی ذمہ دار ہے ان بستیوں کے لئے
مسلم آبادی کا بڑا حصہ آج کل شہروں میں رہتا ہے۔ بھارت میں شہری کرن کا قومی تناسب ۲۷فیصد ہے جب کہ مسلمانوں میں یہ شرح ۳۶فیصد کے آس پاس ہے۔ یہ اعداد وشمار ۲۰۰۱ء کے سرکاری سروے کے ہیں۔ سرکاری اعداد یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہندووں کی اونچی برادریوں کے اندر اعلیٰ تعلیم کی شرح ۳۵فیصد ہے جب کہ مسلمانون کے اعلیٰ طبقے میں یہ محض دس فیصد ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی مالی حالت ہندووں کے مقابلے میں خراب ہے۔ ایک مسلمان ماہانہ اوسطاً ۹۸۰روپئے خرچ کرتا ہے جب کہ ایک ہندو ۱۲۵،۱روپئے خرچ کرتا ہے۔ دونوں کی معاشی اور تعلیمی حالت میں واضح فرق ان کی طرز رہائش پر اثر انداز ہوتا ہے اور یہ ان کی بستیوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ غریب مسلمان کے لئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کسی امیر ہندو کا مقابلہ تعلیم، رہائش اور دوسرے معاملات میں کرسکے اور اس کے نتیجے میں بھی مسلمانون کی وہ بستیاں فروغ پارہی ہیں جو ملک کی اکثریتی آبادی کے اندر بھی خوف ووسوسے پیدا کررہی ہیں۔ یہ حالات مستقبل میں شاید مزید سنگین صور ت اختیار کرلیں کیونکہ مسائل کے حل کی جانب کوئی قدم نہیں بڑھایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی بدحالی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف ہندووں کی سب سے پسماندہ آبادی کو ایس سی ۔ایس ٹی ریزرویشن کے تحت سہولیات ملتی ہیں اس سے مسلمان محروم رکھے جاتے ہیں لہٰذا وہ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
کیسے بستی ہیں مسلم بستیاں؟
شہروں میں مسلم آبادیاں عموماً جھگی جھونپڑیوں سے شروع ہوتی ہیں ۔ مسلمان کی مالی حالت کمزور ہے لہٰذا وہ جو کچھ کماتا ہے ، اس سے کسی پاش کالونی میں تو گھر خرید نہیں سکتا، وہ کسی جھگی میں لے لیتا ہے۔ اس جھگی پر کبھی سرکار بلڈوزر چلاکر تباہ کردیتی ہے اور اگر بچ جاتی ہے اور یہاں زیادہ آبادی ہوجاتی ہے تو وہ مسلمان بھی آنے لگتے ہیں جن کی مالی حالت قدرے مستحکم ہوتی ہے۔ ا س طرح سے یہ آبادی بڑھتی جاتی اور آس پاس کے علاقے بھی اس میں ضم ہوتے جاتے ہیں۔ چونکہ بغیر کسی پروگرام کے علاقہ آباد ہوتا ہے لہٰذا نہ تو یہاں اسکول ہوتے ہیں اور نہ اسپتال۔ نہ پانی کا انتظام ہوتا ہے اور نہ ٹھیک ڈھنگ سے نالیاں بنی ہوتی ہیں۔ دلی کی تقریباً تمام مسلم بستیاں غیر قانونی طور پر آباد ہوئی ہیں اور یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ گلیوں میں گوڑے کرکٹ کا انبار رہتا ہے اور ان مسائل میں اضافہ کا سبب بنتے
ہیں وہ خود غرض لوگ جو دوسروں کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ حالانکہ یہ حالت دلی ہی نہیں باقی ملک میں بھی مسلم بستیوں کی ہے۔ آج اگر سرکار کی عدم توجہی اور سوتیلے رویہ کے سبب مسلمانوں کو گندی بستیوں میں غیر انسانی زندگی جینے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے تو وہ خود بھی بہت حد تک ان حالات کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اگر سرکار نے اپنے کرنے کا کام نہیں کیا تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ان مسائل کو مزید بڑھانے کا کام خود مسلمان اپنی لاپرواہیوں اور غیردانشمندانہ حرکتوں سے کرتے ہیں۔ انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو احساس جس کو آپ اپنی حالت بدلنے کا
جواب دیں