لیکن مال و دولت ایک ایسا وسیلہ ہے ، جس کے ذریعہ نہ صرف انسان اپنی تمام ضرورتیں پوری کرسکتا ہے ؛ بلکہ خوش عیشی کی زندگی بھی گزار سکتا ہے ، وہ چاہے ایک اینٹ پر دوسری اینٹ کو جمانے پر بھی واقف نہ ہو ؛ لیکن دولت کے ذریعہ تاج محل تعمیر کرسکتا ہے ، وہ چاہے موٹر کی ٹکنالوجی سے بالکل ناواقف ہو ؛ لیکن وہ دو پہیوں کی گاڑی سے لے کر ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز تک خرید کرسکتا ہے ، اسی لئے انسانی زندگی میں مال و دولت کی بڑی اہمیت ہے ؛ بلکہ جان اور زندگی اور عزت و آبرو کے بعد انسان کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت اسی کی ہے ؛ بلکہ سماج میں ایسے حادثات وواقعات بھی پیش آتے ہیں ، جس میں مال و دولت کے حصول کے لئے عزت و ناموس کو کھونا بھی گوارہ کرلیا جاتا ہے ، پس ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی زندگی کے لئے مال و دولت کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ۔
اسلام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین فطرت ہے ، اس لئے اس نے انسان کی تمام فطری ضرورتوں کو جائز رکھا ہے ، مال و دولت کو بھی اسلام نے نہ نا پسند کیا ہے اور نہ اس سے منع فرمایا ہے ؛ بشرطیکہ جائز طریقہ پر مال حاصل کیا جائے اور صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے ، مال کی کمانے کی اس سے بڑھ کر حوصلہ افزائی اور کیا ہوگی کہ قرآن کریم میں اسے خیر ( عادیات : ۸) اور فضل خداوندی ( جمعہ : ۱۰) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
دولت کے سلسلہ میں اسلام کا ایک بنیادی تصور یہ ہے کہ اس کا ایک یا چند افراد کے پاس ارتکاز نہیں ہونا چاہئے ؛ بلکہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہونی چاہئے ، شریعتِ اسلامی میں اس کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کی گئی ہیں ، عام طورپر انسان اپنی دولت کے بڑے حصے کو اخیر زندگی کے لئے محفوظ رکھتا ہے ، زندگی میں تھوڑا تھوڑا خرچ کرکے بچت کرتا ہے ، یہ بچت اس کے بعد اس کے ورثہ کے ہاتھ آتی ہے ، اسلام سے پہلے ترکہ کی وسیع تر تقسیم کا تصور نہیں تھا ، تورات کی شریعت میں صرف بڑے بیٹے کو پورا ترکہ مل جاتا تھا ، ہندو سماج میں صرف بیٹوں کو ملتا تھا ، زمانہ جاہلیت میں بھی صرف بالغ مرد ترکہ کے حقدار سمجھے جاتے تھے ، اسلام نے میراث کا ایسا نظام قائم کیا ، کہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں ، شوہر و بیوی ، اگر والدین زندہ ہوں تو والدین لازمی طورپر میراث کے حقدار ہیں ، بعض اوقات دادا ، دادی ، نانا ، نانی ، بھائی ، بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی ترکہ ملتا ہے ، آج بھی دنیا کے قوانین میں اولاد کے سوا کسی اور کو ترکہ میں حصہ نہیں ملتا ، شریعت کے اس اُصول کی بنیاد پر انسان کی زندگی بھر کی کمائی کا بڑا حصہ بہت سے افراد میں تقسیم ہوجاتا ہے ، اسی طرح شریعت نے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے ، جو غرباء کو ادا کرنا واجب ہے ، اگر کوئی آدمی سونا چاندی یا روپئے پیسہ کو روک کر رکھے ، تو د س سال میں اس کی دولت کا ۲۵فیصد اور ۴۰ سال میں اسی دولت کے بقدر مال وہ غرباء کو ادا کردیتا ہے ، یہاں تک کہ زرعی پیدا وار میں تو دس فیصد اور معدنی ذخائر میں تو بیس فیصد غرباء کا حق تسلیم کیا گیا ہے ، صدقۃ الفطر اور واجب النفل صدقات کی دوسری شکلیں اس کے علاوہ ہیں ۔
تجارت میں بھی ایسی صورتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ، جس کے ذریعہ تجارت کا نفع ایک شخص تک محدود نہ رہ جائے ، جیسے رسول اللہ ا نے پارٹنر شپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کیا کہ جب دو آدمی کسی کاروبار میں شریک ہوتے ہیں تو میں ان میں کا تیسرا ہوتا ہوں ؛ بشرطیکہ ان میں سے کوئی خیانت نہ کرے ’’ انا ثالثھما مالم یخن احدھما‘‘ ( ابوداود ، کتاب البیوع ، باب فی الشرکۃ ، حدیث نمبر : ۳۳۸۳) یہ شکل تو شرکت کی ہے ، جس میں دونوں فریق کا سرمایہ شامل ہوتا ہے ، پارٹنر شپ کی ایک اور صورت یہ ہے کہ ایک شخص کا سرمایہ ہو اور دوسرے شخص کی محنت اور نفع دونوں میں تقسیم ہوجائے ، جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’ مضاربت ‘ کہتے ہیں ، ان دونوں صورتوں میں نفع تقسیم ہوجاتا ہے ، ضروری نہیں کہ یہ معاملہ صرف دو افراد کے درمیان ہو ، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے افراد سرمایہ کاری کرنے والے ہوں اور بہت سے محنت کاروں نے اپنا ایک گروپ بناکر سرمایہ کو ترقی دی ہو ، اس طرح یہ نفع ان تمام لوگوں کے درمیان تقسیم ہوگا ، خود رسول اللہ انے دوسرے کا سرمایہ لے کر تجارت بھی کی ہے ، اور دوسروں کے پاس اپنا سرمایہ مشغول بھی فرمایا ہے ۔
دولت کے ارتکاز کو روکنے کے لئے اسلام نے بعض معاملات کو منع کیا ہے ، ان میں سر فہرست سود اور جوا ہے ، سود کی شکل میں کچھ دولت مند افراد بہت سے غریبوں کے سرمایہ کو اس طرح کھینچ لیتے ہیں ، جیسے جونک کسی کے جسم سے خون چوس لے ، آج اس کا نتیجہ کھلی آنکھوں دیکھا جاسکتا ہے ، افریقہ کے ایک ملک نائجیریا نے پانچ بلین ڈالر کا قرض حاصل کیا ، وہ پندرہ بلین ڈالر واپس کرچکا ہے ؛ لیکن سود در سود کی وجہ سے ابھی تک اس کا قرض ادا نہیں ہوا ہے ، ہندوستان جہاں آج بھی کثریت کو ذاتی مکان حاصل نہیں ہے ، بے روزگاری کا تناسب بہت بڑھا ہوا ہے ، آبادی کا ایک حصہ آج بھی فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ہر شہر کے باہر اس علاقہ میں جہاں کچرا پھینکا جاتا ہے ، ایسے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو دیکھا جاسکتا ہے ، جو گندی میں پڑی ہوئی چیزوں کو چن چن کر کھاتے اور استعمال کرتے ہیں ؛ لیکن ملک کی مجموعی آمدنی کا تقریباً ۳۰؍فیصد حصہ بیرونی سود کی ادائیگی میں چلاجاتا ہے ، یہ حال تو شاہ خرچ حکومت کا ہے ، اسی سے غریب عوام کے حالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ؛ چنانچہ آئے دن کاشتکار اور بینک یا کسی فائنانس کمپنی سے قرض لینے والے افراد کی خود کشی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔۔۔ اسی طرح اسلام نے جوا اور قمار کو منع کیا ، جوے کے ذریعہ بھی جیتنے والا ایک شخص بہت سے ہارنے والوں کا پیسے ہتھیالیتا ہے ؛ چنانچہ حال ہی میں ڈاؤس گلوبل اکنامکس فورم کی کانفرنس میں جو رپورٹ پیش ہوئی ہے اس کے مطابق دنیا میں ۲۰ فیصد افراد ۹۹ فیصد دولت کے مالک ہوچکے ہیں اور یہ دولت ان کو انشورنس اور مالیاتی سیکٹر سے حاصل ہوئی ہے ، دنیا کے دس دولت مند ترین افراد میں دو ہندوستانی بھی شامل ہے ، جنھوں نے دوا کی صنعت کے ذریعہ یہ مقام حاصل کیا ہے ، ان میں سے ایک شخص کے پاس ۴؍ بلین ڈالر سے زیادہ کی دولت ہے اور دوسرا شخص ۱۲؍ بلین ڈالر کا مالک ہے ، غور کیجئے کہ یہ دولت کی کس قدر نامنصفانہ تقسیم ہے !
اسی لئے قرآن نے بنیادی تصور دیا کہ دولت کو چند افراد کے درمیان مرتکز نہ ہوجانا چاہئے : ’’کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ ‘‘ ( الحشر : ۷) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مال کو جمع کرکے رکھنے کی مذمت فرمائی : ’’ وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ نِ الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗ‘ ‘ (ہمزہ : ۲۔۳) دولت کے ارتکاز کا ایک ایک نقصان تو معاشی ہے کہ جب چند ہاتھوں میں دولت سمٹ کر رہ جائے تو دوسرے بہت سے لوگوں کو غربت و مفلسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور بہت سے انسان بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہوجاتے ہیں ، یہ بہت بڑا اجتماعی نقصان ہے ، دوسرے : اس سے اخلاقی قدروں بھی پیدا ہوتا ہے ، انسان کے اخلاقی اقدار پر قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ آرام کے ساتھ ساتھ تکلیف اور وسعت و گنجائش کے ساتھ ساتھ تنگ دستی سے بھی گزارا جائے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ حالات کو اُلٹتے پلٹتے رہتے ہیں : ’’ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ‘‘ (آل عمران : ۱۴۰) اگر ایک شخص مسلسل اور پشت در پشت حکومت و اقتدار میں رہے ، یا اس کے پاس مال و دولت کا انبار ہو تو اس میں تکبر پیدا ہوجاتا ہے ، وہ دوسرے انسانوں کو حقیر اور بے قیمت سمجھنے لگتا ہے ، یہاں تک کہ بعض دفعہ اسے اپنے خدا ہونے کا گمان ہوجاتا ہے ، قرآن مجید میں جن ظالم بادشاہوں اور نافرمان اور سرکش قوموں پر اللہ کے عذاب کا ذکر آیا ہے ، یہ وہی تھے جو مسلسل شوکت و اقتدار اور دولت و ثروت کے حامل رہے اور اس چیز نے ان کو نہایت مغرور متکبر بنادیا ، وہ دوسروں کو کہتے تھے ، تمہاری کیا حقیقت ہے ، مال ودولت کے جتھے کے اعتبار سے تو میں تم سے بڑھا ہوا ہوں : ’’ اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالاً وَّاَعَزُّ نَفَرًا‘‘ (الکہف : ۳۴) ان کے غرور کی وجہ یہی مال و دولت کی کثرت اولاد و خدم و حشم کی قوت تھی : ’’اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیْنَ‘‘ (القلم : ۳۴) یہ دولت کے ارتکاز کا روحانی و اخلاقی نقصان ہے ، کم افراد اور کم قومیں ہیں جن کو دولت حاصل ہو اس کے باوجود وہ اتراتے نہ ہوں ، آج سماج کے اصحابِ ثروت افراد میں یہ کیفیت دیکھی جاسکتی ہے ، جنھوں نے غریب مزدوروں کے لئے تکلیف دہ جیلیں بنا رکھی ہیں ، اور اپنے مخالفین کے لئے ایسے تالاب بنائے ہیں ، جو مگر مچھ سے آباد ہیں اور مخالفین کو اس میں ڈال دیا جاتا ہے ۔
دولت کے ارتکاز کا ایک نقصان امن و امان کے پہلو سے بھی ہے ، جب دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے ، آبادی کا بڑا حصہ افلاس ومحرومی کا شکار رہتا ہے ، تو پہلے تو لوگ آنسو بہاتے اور صبر کرتے ہیں ؛ لیکن آخر پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتا ہے ، بغاوت کے جذبات اُبھرتے ہیں ، لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہیں اور انارکی وافراتفری پورے معاشرہ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ، اشتراکیت کا طوفان اسی ردعمل میں اُٹھا اور اس نے جلد ہی دنیا کے ایک بڑے حصہ پر تسلط حاصل کرلیا ، یہ تو اس تحریک کے بانیوں اور لیڈروں کی بے عقلی تھی کہ انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی اللہ تعالیٰ کی تعلیمات کے مطابق اصلاح کرنے کی بجائے فطرت سے بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور اس کے نتیجہ میں اپنی موت آپ مرگیا ، ورنہ جس ظلم و ناانصافی اور دولت و غربت کے درمیان زبردست فاصلہ کی وجہ سے اشتراکیت وجود میں آئی تھی ، وہ اسباب آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں ، اگر سرمایہ داروں کی چیرہ دستیاں اور ستم انگیزیاں اس طرح جاری رہیں تو عجب نہیں کہ پھر کوئی آندھی چلے ، یہ فاقہ مست مزدوروں ، بے کس کاشتکاروں اور اُن بے شمار لوگوں کے ذریعہ آئے گی ، جو ایک ایک روٹی کے محتاج ہیں اور جن کے پاس تن ڈھکنے کے لئے چند گز کپڑے تک موجود نہیں ، اور جن کے آجرین کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر ان کو ایک کی جگہ سات زندگیاں دے دی جائیں ، تب بھی دولت بچ رہے ۔
جواب دیں