کیاافطار توپ مسلم دبدبے کی علامت ہے؟

اس ماہ کے دوران شاہجہانی جامع مسجد کے گولوں سے لے کرتقریبا پوری عرب دنیا میںآج بھی توپ کے گولوں کی گھن گرج سے وقت افطارکا اظہار ہوتا ہے۔ چٹانی پہاڑوں اور پھیلے صحراوں کے بیچوں بیچ دور و نزدیک بکھرے عرب قبیلوں کیلئے اعلان افطار کی یہ سہولت پچھلی کئی صدیوں سے چلی آرہی ہے اور آج ڈیجیٹل اور الیکٹرانکس کی بے پناہ ترقی کے باوجود توپ و تفنگ سے لیس یہ عرب روایت جاری و ساری ہے۔ مورخین اسے رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کے آنگن میں اترنے والی شادمانی کے اظہار کے علاوہ ان کے اجتماعی رعب اور دبدبے کی علامت بھی قرار دیتے ہیں۔عرب تمدن اور ثقافت میں اہم درجہ پا جانے والی یہ روایت جدید سہولتوں کے فراہم ہو جانے کے بعد اگرچہ اپنے ابتدائی برسوں کے مقاصد پورے تو نہیں کرتی لیکن ایک یادگار علامت کے طور آج بھی مکہ کی پہاڑیوں سے لیکر خلیجی ممالک اور افریقی سرحدوں تک موجود ہے۔ جدید مکہ میں مدفیہ کی پہاڑی پر نصب کی گئی توپ مکہ کی قدیم روایت اور ترقی کا حسین امتزاج ہے۔عرب ممالک میں ماہ رمضان کا استقبال بہت دھوم دھام سے کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں’ رمضان توپ‘ اور’ رمضان فانوس‘ اہم مقامی روایات ہیں۔ انہیں ماہ رمضان المبارک کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ جدید دور میں جب ٹی وی اور ریڈیو پر افطاری کے وقت بتایا جاتا ہے جبکہ قدیم طریقوں پر بھی عمل جاری ہے۔ ماہ رمضان میں افطاری کے وقت جنوبی ایشیائی ممالک میں پہلے تو باجا یا ڈھول بجا کر لوگوں کو افطاری کا بتایا جاتا تھا۔ جب ذرا جدت آئی تو اذان سے پہلے سائرن بجا کر یا پھر مسجد میں اعلان کے ذریعہ افطاری کا بتایا جانے لگا تاہم عرب ممالک میں زمانہ قدیم سے توپ کا ایک گولہ چلا کر افطاری کے وقت کا اعلان کرنے کی روایت ہنوز قائم ہے۔
کیا ہے افطار توپ؟
رمضان توپ وہ مخصوص توپ ہے جو صرف افطاری کے وقت استعمال کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ روزہ افطار کرنے کا ٹائم ہوگیا ہے۔ اس کو Madafa Ramadan بھی کہتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات میں اس کو افطار توپ کہا جاتا ہے۔ افطار توپ کے متعلق تاریخ میں کئی روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ سلسلہ859 ہجری میں شروع ہوا جب مصر عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ ایک اور تاریخی دستاویز کے مطابق افطاری کے وقت توپ چلانے کی روایت مصر کے خلیفہ کاظم نے شروع کی تھی۔ خلیفہ نے ایک نئی توپ کو افطاری کے وقت گولہ داغ کر چیک کیا۔ توپ کے گولہ کی آواز سے پورا قاہرہ گونج اٹھتا۔ اس وقت تک کوئی ایسا نظام نہیں تھا جس سے پورے شہر کو ایک ہی وقت میں افطاری کے ٹائم کا پتہ چل سکے چنانچہ قاہرہ کے حکام کے ذہن میں یہ بات آئی کیوں نہ توپ کا گولہ چلاکر افطاری کے وقت کا اعلان کیا جائے۔ اس سے پورے شہر کو ایک ہی وقت میں افطاری کے وقت کاعلم ہو جائے گا۔
کیا کہہ رہے ہیں دانشور؟
سعودی ادارہ برائے سفارتی مطالعہ جات میں عرب کی جدید تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد قوئدی کے بقول’ پرانے وقتوں میں توپ کے گولے فائر کرنے کا طریقہ بوقت افطار اس لئے رائج کیا گیاتھا کہ ان دنوں کلائیوں پرگھڑیاں اور گھروں میں دیوار گھنٹے میسر تھے نہ ہی آواز بڑھانے والے جدید آلات میسر تھے۔ سحر سے غروب آفتاب تک روزہ رکھنے والوں نمازوں کیلئے بلانے کی خاطرمکہ کے موذن چار میناروں سے اذان بلند کرتے ، چاروں میناروں سے اذان کی آواز چاروں اطراف میں پھیلتی جبکہ افطار توپ کے متعلق تاریخ میں کئی روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ سلسلہ859 ہجری میں شروع ہوا جب مصر عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ ایک اور تاریخی دستاویز کے مطابق افطاری کے وقت توپ چلانے کی روایت مصر کے خلیفہ کاظم نے شروع کی تھی۔ خلیفہ نے ایک نئی توپ کو افطاری کے وقت گولہ داغ کر چیک کیا۔ توپ کے گولہ کی آواز سے پورا قاہرہ گونج اٹھتا۔ اس وقت تک کوئی ایسا نظام نہیں تھا جس سے پورے شہر کو ایک ہی وقت میں افطاری کے ٹائم کا پتہ چل سکے چنانچہ قاہرہ کے حکام کے ذہن میں یہ بات آئی کیوں نہ توپ کا گولہ چلاکر افطاری کے وقت کا اعلان کیا جائے۔ اس سے پورے شہر کو ایک ہی وقت میں افطاری کے ٹائم کا پتہ چل جائے گا۔اگلے دن خلیفہ کاظم بھی شہر کے سرکردہ لوگوں سے ملا اور ان سے اس کے بارے میں رائے طلب کی۔ سب نے اس تجویز کو بہت سراہا۔ اس کے بعد سے توپ کے گولہ سے افطاری کا وقت بتانے کی روایت چلی آرہی ہے جواب بھی قائم ہے۔ایک اور روایت کے مطابق مصر کے خلیفہ کاظم کی بیٹی فاطمہ کو توپ کے گولے کے ذریعہ افطاری کے اعلان کا طریقہ بہت پسند آیا۔اس نے اپنے والد سے فرمائش کی کہ افطاری کے وقت کا اعلان توپ کا گولہ چلا کر کیا جائے اسی وجہ سے اس توپ کا نام ’حجاہ فاطمہ‘ رکھا گیا۔ ایک اور تاریخی واقعہ کے مطابق رمضان توپ کا آغاز محمد علی کے دور میں ہوا جب اس نے جرمنی سے خریدی گئی نئی توپ کا افطاری کے وقت چلا کر چیک کیا اور بعد میں دیگر عرب ممالک نے بھی اسی طریقہ کو اختیار کیا اور یہ طریقہ آج بھی جاری ہے۔
روایت ہے پرانی:
متحدہ عرب امارات میں شیخ راشد بن سعید المکتوم مرحوم نے دبئی میں1960 کے دوران رمضان توپ کو متعارف کرایا اور یہ ذمہ داری دبئی پولیس کو سونپی گئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک دبئی پولیس یہ ذمہ داری احسن طریقے سے سر انجام دے رہی ہے۔ رمضان تو پ چلانے کے لیے ماہ رمضان کے آغاز سے چند دن پہلے ہی تیاری مکمل کرلی جاتی ہے اور اس مقصد کیلئے چار توپیں استعمال کی جاتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں پہلے جو توپیں اس مقصد کے لئے استعمال کی جاتی وہ 1971کی بنی ہوئی اور دوسری جنگ عظیم کے ماڈل پر تھیں لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ چونکہ ان توپوں کے فاضل پرزے ناپید ہوگئے تو1980میں ان توپوں کو تبدیل کردیا گیا۔رمضان توپ دوبار گولا چلا کر ماہ رمضان کی آمد کا اعلان کرتی ہے جبکہ افطاری کے وقت صرف ایک گولا چلایا جاتا ہے۔رمضان توپ کے علاوہ’امساکیہ‘ Imsakiyya ایک خصوصی رمضان کیلنڈرہے جس پر چاند اور ستارہ بنا ہوتا ہے جبکہ یہ کیلنڈر ماہ رمضان کے30روزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔مصر اور دیگر عرب ممالک میں ایک اور ماہ رمضان کا لازمی جزو’رمضان فانوس‘ہے جو خصوصی طور پر بچوں میں بہت مقبول ہے۔ تاریخی روایت کے مطابق’ رمضان فانوس‘ کا آغاز مصر سے 358ہجری کو ہوا جب15رمضان کو فاطمی خلیفہ المعیظ الدین کے استقبال کیلئے مصری عوام رات کے وقت لیمپ لے کر باہر نکل آئے۔ تب سے یہ روایت چلی آرہی ہے۔
مکہ معظمہ میں عثمانی دور حکومت:
تاریخ میں ایک اور واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ’ رمضان فانوس‘ کا آغاز مملوکوں کے دور میں مصر سے ہوا۔ رمضان المبارک کے آغاز میں ہی لوگ اس فانوس کو خرید لیتے ہیں اور اسے گھروں میں چراغاں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے تو رمضان فانوس کو تیل کے ذریعہ روشن کیا جاتا تھا یا اس میں موم بتی لگائی جاتی تھی لیکن اب جدید دور میں بیٹریاں اور بلب نصب ہوتے ہیں۔پروفیسر قوئدی اپنی کتاب’مکہ میں عثمانی دور حکومت‘ میں لکھتے ہیں کہ مکہ میں توپ کے گولے سے افطاری کا وقت بتا نے کی روایت دورعثمانی میں شروع ہوئی اور ایک اونچی پہاڑی سے توپ کا گولہ فائر کیا جاتا تھا تا کہ آواز دور تک جائے مکہ شہر کے بڑے حصے تک یہ آواز پہنچ جاتی تھی. پروفیسر قوئدی کا کہنا ہے کہ سعودیہ میں افطاری کے وقت توپ کا گولہ فائر کرنے کی روائت آج بھی جاری ہے، تاہم آج اسے جاری رکھنے کی وجہ محض ایک روایت کا احترام ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہرمضان المبارک کے دوران توپ کا یہ استعمال عثمانی دور سے پہلے مملوک دور سے شروع ہواجبکہ قوئدی کے مطابق اگر یہ دور عثمانی سے پہلے شروع ہوتا تو اس دور کے اختتام تک جاری رہتا۔
سحر افطار کے روحانی اوقات:
ہند-پاک میں رمضان کے ڈھولئے عرب دنیامیں رمضان کے مقدس مہینے کے حوالے سے بعض ثقافتی روایات اب بھی جاری ہیں۔ان قدیمی روایات میں ایک ڈھول بجاکر لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کی روایت بھی ہے۔یہ روایت تقریباً 400 سال پرانی ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک یہ سلطنت عثمانیہ کے دور سے شروع ہوئی۔سحری کیلئے جگانے والوں کو رمضان کے ڈھولئےRamadan Drummers کہا جاتا ہے۔رمضان المقدس کے مہینے میں سحری سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قبل ڈھولئے گلی گلی ڈھول بجاتے ہوئے گھو متے ہیں۔یوں سحری کیلئے جگانے کی روایت آج بھی قائم ہے۔ہندوستان کے مرکزی دارالحکومت دہلی یکے علاوہ ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی اسی انداز کے طریقے اپنائے جاتے تھے۔جامع مسجد کی سیڑھیوں سے متصل بازار ے انہدام کے ساتھ ہی اردوبازار کی جانب سنگھاڑھے والا پارک ختم ہونے کے ساتھ ہی گولے چھٹنے کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ آج حالت یہ ہے کہ دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں سائرن کی آواز ہوتی ہے جسے سن کر لوگ افطار کرتے ہیں۔کہیں کہیں گولے بھی داغے جاتے ہیں اور بعض مقامات پر اذان کی آواز ہی وقت ہونے کا اعلان ہوتی ہے۔پرانی دہلی اور جامع مسجد کے علاقے میں یہ سماں کچھ زیادہ ہی رہتاہے جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتا ہے۔ابوظفر عادل اعظمی ریٹائرڈ ٹیچر ماسٹرمحمد انیس صدیقی کی یادداشت نقل کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دہلی میں وہ 1955سے مسلسل سائرن کی آواز سنتے آرہے ہیں۔اس سے قبل وہ اترپردیش کے ایک ضلع میں رہتے تھے۔یہ سائرن افطار اوار سحری دونوں وقت بجایا جاتاہے لیکن پھر بھی سحری میں کبھی کبھی لوگ نیند کی شدت سے نہیں اٹھ پاتے ‘ان کیلئے دہلی ہی نہیں پورے ملک میں عرصہ دراز سے مختلف طریقے رائج ہیں۔بعض جگہوں میں مساجد سے مسلسل اعلان ہوتارہتا ہے کہ سحری کا وقت ہوگیا ہے یا وقت ختم ہونے میں کتنی دیر باقی ہے۔بعض مقامات پر مسجد کے ہی لاوڈاسپیکر سے نعت اورحمد کا سلسلہ سحری کے اوقات میں مسلسل جاری رہتاہے لہذٰا جولوگ اعلان سے نہیں جاگتے ‘اس کو غنیمت سمجھتے ہیں جبکہ یہ طریقہ محض دیہاتوں اور قصبوں تک محدودہوکر رہ گیاہے۔ لاوڈاسپیکر کے رواج سے قبل محلے کے چند افراد کی ٹولی سحری کے مقررہ وقت سے پہلے ہی گھروں پر جاکر لوگوں کو جگاتی تھی اور راستے بھر حمد ونعت حمدبلند آواز سے پڑھتی جاتی تھی۔
سحری میں جگانے والے:
آج بھی بعض علاقوں میں یہ خدمت گاؤں یا آس پاس کے علاقے کے غرباانجام دیتے ہیں۔سحری کے روحانی وقت میں عموماان کی حمدو نعت دلوں میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور ’اٹھو روزے دارو! سحری کھالو ‘کی صداوں سے محلے گونج جاتے ہیں نیند یکلخت کافور ہوجاتی ہے۔ صبح ہونے پر جب مائیں اپنے بچوں کو بتاتی ہیں کہ آج جگانے والے نے کتنی اچھی نعت پڑھی تو بچے ضد کرکے اس وقت اٹھانے کیلئے کہتے ہیں تاکہ وہ بھی سن سکیں۔رمضان کے آخری ایام میں ان جگنے والوں کا یہ ترانہ ’ چھوڑکر ہم کو چلے ہیں ماہ رمضان‘ الوداع!سننے والے کے دلوں میں ایک کسک چھوڑ جاتاہے۔ہندوستان کاپھیلاو شمالا جنوبا زیادہ ہے لیکن مشرق تا مغرب بھی اس کا فاصلہ کم نہیں ہے لہذا سحر و افطار کے اوقات میں یہاں کافی فرق ہے۔مغربی بنگال اور آسام کے مشرقی حصہ کے سحر وافطار کے اوقات سے راجستھان ،گجرات اورمہاراشٹر کے مغربی اضلاع کے اوقات میں تقریبا ایک گھنٹے سے زائد کا فرق پایا جاتاہے۔یوں رمضان المبارک کے مقدس ایام پوری امت مسلمہ میں زبردست جوش وخروش لئے ہوئے آتے ہیں جبکہ ہر کوئی ان کی خوشیوں میں رنگ بھرنے اور برکتوں سے مالا مال ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

«
»

مسلم مجاہدین آزادی کی خدمات کا اعتراف ضروری

رکھتے ہیں عذر سب تو خطاکار کون ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے