وقار ملت ایوارڈ اور محمد اعظم خان

جن میں جمیل اختر نعمانی ( صحافت) اجے دیو گن ( جنگا جمنی تہذیب پر مبنی فلموں کے فروغ کے لئے ) امریش مشرا ( 1857کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی خدمات ) راج دیپ دیسائی وغیرہ جسارت ایوارڈ پانے والوں میں قابل ذکر ہیں ۔ فلم کار مہیش بھٹ کو پیس ( امن) ایوارڈ سے 2009-10میں سرفراز کیا گیا تھا ۔اور اب محمد اعظم خان کو وقار ملت ایوارڈ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں پیش کیا گیا ہے ۔

اہل ایمان ہونا اور ملت اسلامیہ کا فرد ہونا اپنے آپ میں ایک اعجاز ہے ۔ رہا سوال اعظم خان کا تو وہ نہ صرف اہل ایمان ہیں بلکہ اسلام کی بقا کی سر بلندی کے لئے ہمیشہ کوشا ں رہے ہیں ۔ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ طلبہ یونین کے سکریٹری سے لے کر آج تک ان کی سیاسی ، سماجی اور مذہبی سرگرمیاں اور کارنامے اس کا ثبوت ہیں ۔ ان کی خدمات کے مقابلہ کوئی بھی ایوارڈ چھوٹا ہے ۔ لیکن خد مات کو سراہنے اور اپنے جذبات کو ظاہر کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے اس طرح کی تقریب منعقد کرنا اور ایوارڈ پیش کرنا خدمات ماننے اور نیا جوش پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔بات نکلی ہے تو یہ بھی دیکھتے چکیں کہ ملک کے وہ کیا حالات تھے جب اعظم خان نے سیاست میں قدم رکھا اور مسلمانوں میں تعلیم م تحریک کس مقام پر تھی ۔ یہ وہ دور تھا جس میں لال فیتہ شاہی ، افسر شاہی یا نوکر شاہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ہر چیز پر پرمٹ کوٹے کا فیتہ بندھا ہوا تھا ۔ ڈاکٹر لوہیہ ، راج نارائن اور اس وقت کے دانشور اس چنوٹی سے نپٹنے کے لئے سماج واد کو اپنانے کی صلاح دے رہے تھے ۔ان نظریات سے اس وقت کے بہت سے نو جوان متاثر ہوئے ان میں اعظم خان بھی ایک ہیں ۔ ان کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے لیکن انہوں نے سماج واد کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔انہوں نے اپنی سیاسی زمین اس شہر میں بنائی جہاں نوابین کے مقابلہ کوئی سر اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا تھا ۔ یہ وہ شہر ہے جہاں سیاست میں قدم رکھنا تو دور عوام کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ممنوع تھا ۔
دوسری طرف مسلمانوں کو تقسیم ملک کا اب بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا ۔قومی یکجہتی کے جلوس میں مسلمان اپنی وفاداری کا ثبوت دے رہے تھے شمالی ہندوستان میں حالات بہت خراب تھے تعلیمی تحریک جسے سرسید احمد خاں نے شروع کیا تھا آزادی یا تقسیم ملک کے بعد اسے فل اسٹاپ لگ چکا تھا مسلمانوں کا صاحب حیثیت طبقہ یا تو سرحد کے اس پار جا چکا تھا یا پھر مر کھپ چکا تھا اور جو بچے تھے زمینداری کے خاتمے نے ان کی کمر توڑ دی تھی ۔ مسلمانوں میں بڑی تعداد محنت کشوں کی تھی جن کی توجہ تعلیم سے زیادہ دو وقت کی روٹی جٹانے پر تھی ۔ 1980کے بعد ملک میں نئی تعلیمی پالیسی آئی جس کے بعد مسلمانوں میں پھر سے تعلیمی تحریک باز گشت سنائی دینے لگی ۔ یہ وہ حالات تھے جن میں اعظم خاں نے خدائی خدمت گار یا سیاسی کارکن بننے کا فیصلہ کیا ۔
تعلیمی سطح پر قوم کچھ کر پاتی اس سے پہلے ہی ملک میں نہ رکنے والا فساد ات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اس میں کمی آنے سے پہلے ہی بابری مسجد کا مسئلہ شروع ہو گیا ۔ ملک کی سیاست میں نمایابدلاؤ آیا پورے ملک کی سیاست سیاسی لوگ اور سیاسی پارٹیاں دو حصوں میں بٹ گئیں ۔ ایک خمیہ سیکولر اور دوسرا فرقہ پرست (فسطائی۔ ہندو وادی ) کہلایا ۔اعظم خان چونکہ سماج وادی نظریہ کے حامی رہے ہیں لہذا وہ ہمیشہ سیکولر خیمے کا حصہ رہے یہاں تک کہ جب ملائم سنگھ جی نے کلیان سنگھ کو پارٹی میں شامل کرلیا تھا تو اعظم خان نے اس پارٹی کو جسے انہوں نے اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ کھڑا کیا تھا ۔ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ۔ لیکن جلد ہی ملائم سنگھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ، کلیان سنگھ سے پارٹی نے دوری بنالی اور اعظم خان کو عزت کے ساتھ واپس پارٹی میں شامل کر لیا گیا ۔
یہ بہت ہی ہمت کی بات ہے کہ اعظم خان نے سماج وادی سے الگ ہونے کے بعد بھی کسی اور پارٹی سے ہاتھ نہیں ملایا ، جبکہ سیاسی لوگوں کے لئے یہ معمولی بات ہوتی ہے ۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنے نظریات پر قائم رہنے والے لوگ ہیں ۔وہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا حصہ رہے ۔ انہوں نے فسادات میں متاثرین کی مدد کی ریلیف کا کام کیا ۔ اور کہیں نہ کہیں دل کے کسی کونے میں سر سید کی تعلیمی تحریک کو آگے بڑھانے کا خیال بھی زندہ رہا تبھی وہ آج مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی بنانے میں کامیاب 
ہوئے ۔اتنا ہی نہیں یوپی میں سرکاری خرچ سے لکھنؤ میں عربی فارسی یونیورسٹی کے قیام میں اہم رول ادا کیا ۔
بات ایوارڈ کی ہو رہی تھی بیچ میں یہ چند باتیں جملہ معترزہ کے طور پر آگئیں پوری دنیا میں ایوارڈ دےئے جاتے ہیں ۔ ایوارڈ دینے کے لئے پیمانے مقرر کئے جاتے ہیں جن حضرات کو ایوارڈ دینا ہوتا ہے انہیں کسی مرحلہ سے گزارا جاتا ہے ۔ ایوارڈ دینے کے لئے ایسی کمیٹی بنائی جاتی ہے جو مخلف لوگوں میں سے کسی ایک کا اس کے کارہائے نمایاں پر پوری باریکی سے غور و فکر کرکے انتخاب کرتی ہے ہندوستان میں سرکاری سطح پر جو ایوارڈ دےئے جاتے ہیں ان میں ضرور یہ طریقہ کار اپنایا جاتا ہوگا ۔ لیکن اکیڈمیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے جو ایوارڈ دےئے جاتے ہیں ان میں اس سخص کی خدمات کے مقابلے اس ادارے یا تنظیم کی پسند یا نا پسند کا دخل زیادہ ہوتا ہے کئی واقع ایسے ہی سامنے آئے ہیں کہ ایورڈ بڑی رقم وصول کرکے دیا گیا ہے ۔ا ایوارڈ لینے والوں نے ایوارڈ کے لئے بڑی قیمت ادا کی ہے ۔یہ بھی دیکھنے کوملا ہے کہ بڑی شخصیت کو ایوارڈ اس سے کام نکالنے کی غرض سے پیش کیا جاتا ہے ہمیں شک کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن زمانہ حال بیان کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔
ایوارڈ کی بھی ایک لابی ہے کو شخصیات کا انتخاب کرتی ہے پھر اس کے ارد گرد جال بن کر اسے اپنے مقصد کے لئے تیار کر لیتی ہے کئی ان کی چال میں آجاتے ہیں ۔ بحر حال ملک آزاد ہے یہاں خوشامدیوں کی چاندی ہے ۔ فائدہ اٹھانے کے بہت سے طریقہ ہیں ۔ ایوارڈ کے ذریعہ بھی قربت قائم کرکے فایدہ اٹھایا جاتا ہے ۔
اردو پریس کلب انٹر نیشنل کی کوشش قابل ستائش ہے کہ اس نے محمد اعظم خان کو وقار ملت ایوارڈ دے کر قوم کو ان کے کاموں کی طرف نہ صرف متوجہ کیا بلکہ تعلیمی تحریک کو بھی تقویت بخشی ۔ پریس کلب کی پہل سے کئی اور لوگوں کو قومی خدمت اور فروغ تعلیم میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا ۔ محمد اعظم خان نے عربی فارسی یونیورسٹی اور مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی قائم کرکے سر سید کی تعلیمی روایت کو آگے بڑھانے کا جو کام انجام دیا ہے اس کے لئے انہیں جتنے اعزاز دےئے جائیں یا ایوارڈوں سے نوازہ جائے وہ کم ہیں ۔ خدا انہیں دے ہمت و قوت اورزیادہ ۔۔

«
»

مسلم مجاہدین آزادی کی خدمات کا اعتراف ضروری

رکھتے ہیں عذر سب تو خطاکار کون ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے