English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلم آرکشن آرڈیننس کے ساتھ حکومت کا متعصبانہ رویہ

share with us

لہٰذا یہ کہنا قطعی غلط ہیکہ مسلم آرکشن کے تعلق سے ہمیں کچھ معلوم نہیں یا اس کی اہمیت سے ہم بے بہرہ ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود جب مہاراشٹر حکومت کا ۲۵ نومبر ۲۰۱۴ ؁.ء کا ایک سرکاری حکمنامہ جاری کیا گیا جس کے تحت ونود تاوڈے ، ایجوکیشن منسٹر ، اجیت دادا، رادھا کرشن وی کھے پاٹل ، ایکناتھ شندے اور دو سیکریٹری پر مشتمل ۷ لوگوں کی کمیٹی تشکیل دی گئی ، جس میں صاف طور سے درج ہیکہ یہ سمیتی مراٹھا آرکشن کے تعلق سے ہی فاضل سپریم کورٹ میں چیلینج دینے کیلئے اور اس تعلق سے دیگر مقاصد کیلئے منعقد کی گئی ہے۔ یہاں پر کہیں کچھ بھی یا کوئی بھی بات مسلم آرکشن کے تعلق سے درج نہیں ہے۔ یعنی کھلے عام حکومت مہاراشٹر نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ صرف اور صرف مراٹھا آرکشن کے معاملے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی کیلئے وہ لڑائی لڑنے جا رہے ہیں۔ مطلب صاف ہیکہ اس آرڈیننس کو ایکٹ میں تبدیل کرنے کا قطعی ارادہ حکومت کا نہیں ہے ۔ 
اس ملک کے مسلمانوں میں ایک عام اور عجیب خصلت پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ملک سے ہٹ کر بیرونی ملک میں مسلمانوں کے تعلق سے کچھ بھی ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو تقریباً ملک کے تمام مسلمان چلا پکار ، واٹس اپ ، فیس بک اور اپنے میڈیا میں مہینوں اسی مسئلہ کو لیکر اسے اوڑھنابچھونا بنائے رکھتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کل کائنات میں وہی ایک مسئلہ ہمارے سامنے ہے ۔ لیکن مسلم آرکشن جیسے سیکڑوں مسائل ہمارے اپنے ملک میں اور ہمارے اپنے تعلق سے سامنے ہے پر نام نہاد طریقہ کار چھوڑ کر اعلیٰ پیمانے پر چلا پکار کا نام و نشان، واٹس اپ ، فیس بک ، اخبارات پر نمایاں طور سے کہیں کچھ نظر نہیں آتا ہے ۔ ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ لوگوں کے سر پر حساس مسائل کو حل کرنے کی یا ان سے رغبط والی بات ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے بس ایک ذہن بنا ہوا ہے کہ برسوں سے چل رہے حساس مسائل کا ذکر آیا ، تو چلا پکار کرنا ۔ ہماری سوچ کو اﷲ کچھ بدلاؤ دے ۔ ایک کڑوا لطیفہ پیش خدمت ہے ۔ ایک پلیٹ فارم سے ریلوے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی ہر ڈبہ میں چڑھنے اترنے والوں کی بھیڑ شروع ہو گئی ۔ اتنے میں دروازے پر کھڑے ایک آدمی نے آواز لگائی ، ’’ اسلام ‘‘ بھیڑ میں ایک بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ سوچے کہ یہ آدمی آواز کیوں لگا رہا ہے بلکہ جیسے ہی اس شخص نے اسلام کہا ریلوے ڈبہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے بہت سارے مسلمانوں نے زندہ باد کہنا شروع کر دیا ۔ وہ بیچارہ بار بار آواز لگاتا رہا ’’ اسلام ‘‘ بھیڑ میں سے زور زور سے آواز آتی رہی زندہ باد ، زندہ باد۔ آخر ریل پلیٹ فارم کے باہر رفتار پکڑ کر نکل گئی ۔ اس شخص نے نہایت ہی غصہ میں چلاتے ہوئے کہا ارے کمٖ ظرفوں ، میں ، میرا بھائی ، جس کا نام اسلام ہے ، پلیٹ فارم پر چھوٹ گیا تھا، میں کوشش کر رہا تھا کہ اسے آواز دوں کہ ریل چل پڑی ہے ڈبہ میں آجائے اور آپ ہیکہ زندہ باد زندہ باد کے نعرہ لگا رہے ہیں ۔ 
القصہ مختصر یہ کہ برسر اقتدار حکومت نے ۲۵ نومبر ۲۰۱۴ ؁.ء کا سرکاری حکمنامہ نکال کر اعلان کر دیا ہیکہ ہم کو اس ریاست میں مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی کوئی سہولت عطا کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔ مطلب صاف ہیکہ گذشتہ حکومت نے مسلم آرکشن کا جو آرڈیننس جاری کیا تھا ، اسے ہم آنے والے وقت میں قطعی طور سے منظور نہیں کرنے والے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ایک سازش ہے ، مسلمانوں کے خلاف کھلے الفاظ میں ایک اعلان جنگ ہے۔ لیکن کہیں بھی اس تعلق سے یا اس سرکاری حکمنامہ کے تعلق سے خصوصی طور سے دھرنے آندولن شروع نہیں ہوئے ۔ ہاں حال ہی میں چالیس گاؤں، ناسک، کھام گاؤں جیسے کچھ شہروں میں قوم کے کچھ ہمدردوں نے مورچہ بندی وغیرہ شروع کی ، کچھ تنظیموں نے ضلعی کلکٹر کو کچھ میمورنڈم بھی دئیے لیکن معاملہ کی نوعیت اور شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دسمبر کی سردی کی طرح اس مسئلے پر مہاراشٹر کے مسلمانوں پر خاموشی طاری ہے۔ 
حکومت مہاراشٹر نے ایسا متعصبانہ رویہ اسلئے اختیار کیا ہے کیونکہ حکومت کو یقین ہو گیا ہیکہ فاضل سپریم کورٹ میں مسلمانوں کو کامیابی ملنا ہی ہے ۔ اسلئے حکومت نے اسمبلی میں اسے نامنظور کرنے کے آثار ظاہر کر دئیے ہیں ۔ فاضل بمبئی ہائی کورٹ میں متذکرہ آرڈیننس پر اسٹے بحث کے دوران سرکاری وکیل کھمباٹا، مسلمانوں کی طرف سے انٹروینر کے وکلا افروز صدیقی ، انصار تمبولی ، صغیر احمد، شازیہ مکادم ، سولکر، نقوی وغیرہ وغیرہ نے مدلل نکات کورٹ میں پیش کئے جس کی بناء پر اب یہ یقین ہو گیا تھا کہ مسلم آرکشن کو عدلیہ سے ہری جھنڈی ملنے ہی والی ہے اور بڑی حد تک مل بھی چکی تھی ۔ ہماری آرگنائیزیشن ’’ مائناریٹی ویلفےئر آرگنائیزیشن، دھولے ‘‘ کی طرف سے بالخصوص حکومت مہاراشٹر میں مسلم کیٹیگری کیلئے ریزرویشن کی ضرورت کے Compelling Reasonکی حیثیت سے Quantifiable Data میں گوپال سنگ کمیشن ، 1986 کی ایجوکیشن پالیسی ، اس پر 1992 کا تبصرہ ، اسٹیرنگ کمیٹی ، اسٹینڈنگ کمیٹی ، گیارہواں اور بارہواں پنچ سالہ منصوبہ، سچر کمیٹی ، رنگ ناتھ مشرہ کمیشن وغیرہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ آئین ہند کے آرٹیکل 15,16,38,46 پر مدلل بحث کے ذریعے یہ ثابت کر نے کی کوشش کی گئی تھی کہ مسلم ریزرویشن وقت کی ضرورت ہے ۔ جب ۱۴ نومبر ۲۰۱۲ ؁.ء کو کورٹ کے فیصلے میں اس میں سے بہت ساری باتیں منظر عام پر آگئی تو بی جے پی کے آقا آر ایس ایس کے وکلا نے باقاعدہ ایک خفیہ میٹنگ رکھکر یہ نتیجہ نکال لیا کہ اب مسلمانوں کو فاضل سپریم کورٹ سے ریزرویشن ملنے کا راستہ صاف ہو گیا ۔ یہ تو سو سونار کی ایک لوہار کی ضرب تھی ۔ اب اس آرڈیننس کو حکومت مہاراشٹر منظور کر لیتی ہے تو ہندوستان میں مسلمانوں کو تعلیمی ، معاشی اور سماجی ترقی سے کسی بھی حال سے روکا نہیں جا سکتا ہے ۔ یہ ریزرویشن صحیح معنوں میں مسلمانوں کو ہزاروں کروڑ روپیوں کی اعانت بخشنے سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ لہٰذا ۲۵ نومبر ۲۰۱۲ ؁.ء کے حکمنامے میں صرف مراٹھا آرکشن کی تائید کا حکم صادر کر دیا گیا ۔ لیکن ہماری سمجھ کہئے یا کہ 
ہے اعتماد میری بخت خٖفتہ پر کیا کیا وگرنہ خواب کہاں چشم پاسباں کیلئے 
تقریباً سارے مہاراشٹر کے مسلمان چھوٹی موٹی واردات کے علاوہ خواب خرگوش میں محو ہیں اور پھر ایک دن جاگیں گے لیکن تب تک دیر ہو چکی ہو گی۔ (کاش کہ ایسا نہ ہو)۔۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا