English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا اسرائیل کو جھکانا ناممکن ہے ؟

share with us

امریکہ اور یوروپ کی ناکہ بندی کے باوجود ایران کے نوجوان ایران کے نیوکلیر پاور بننے کو لے کر بہت ہی پرجوش تھے اور اب بھی ہیں . 23.7.2011 کے دن سائنٹست رضا انجاد اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کار میں جا رہے تھے کہ کہیں سے دو موٹر سائکل سوار بنی ہاشم راستے پر نمودار ہوے اور اپنی ہینڈ گن سے ان پر گولیاں برسا کر انہیں وہیں ختم کر دیا . چھ ماہ بعد 11.1.2012 جب روشن اور انکا ڈریور شمالی تہران میں جا رہے تھے دو موٹر سائکل سواروں نے کار سے قریب آ کر ایک مقناطیسی بم کار سے لگا کر چلتے بنے . جب وہ بم پٹھا تو دونوں چل بسے . حالاں کہ ہر کسی نے اسرائیل پر شک کیا مگر اسرائیل بلکل خاموش رہا . اسرائیلی ڈیفنس منسٹر یہود براک نے اخباری رپورٹروں کو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ اسرائیل اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گا . مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ ہو نہ ہو اسرائیل ہی اسکا ذمہ دار ہے . اسکے بعد دوبارہ چار ایرانی سائنٹسٹوں کو کھلے عام قتل کر دیا گیا . نومبر 2011 کو ایک ہتھیاروں کے ذخیرے میں دھماکہ ہو نے کی وجہ سے پوری ڈپو جل کر راکھ ہو گئی . اس دھماکے میں ایران کے سب سے بڑے میزائل سائنٹسٹ جنرل حسن تہرانی مقدوم کی بھی موت ہو گئی اسرائیل کے ملٹری چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل Benny Gantez نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں کہا کہ آگے بھی ایسے غیر قدرتی حادثے ایران میں بار بار ہو تے رہیں گے . اسرائیل کے قانون کے مطابق دوسرے ملکوں میں دھماکے اور قتل اسرائیلی وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر نہیں کئے جا سکتے . اسرائیل نے ایسے قتل اور دھماکوں کو ایک ہنر بنا دیا ہے جسے دوسرے ممالک بھی سیکھنے کے لئے اسرائیل آ تے ہیں . اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ تمام دھماکے اور قتل یہودیوں نے ایران کے اندر گھس کر کئے یا خود ایرانی مسلمان ایجنٹوں نے دولت کے لالچ میں کیے . صاف ظاہر ہے کہ عربوں میں جتنے غدار پیدا ہوے ہیں اتنے دوسری قوموں میں نہیں ہوے ہیں. عربوں کی تاریخ غداروں اور ؑ یش پرست لالچی لوگوں سے بھری پڑی ہیں . نتین یاہو نے ساری دنیا سے کہا ہے کہ اگر ایران نیوکلیر پاور بن گیا تو دنیا بھر میں امن و امان ختم ہو جائے گا . مگر سچائی یہ ہے کہ آج نیوکلیر اسرائیل کے سبب ساری دنیا امن سے محروم ہے جسے مغربی ممالک قبول کر نے تیار نہیں ہیں . نتین یاہو اس شخص کا چھوٹا بھائی ہے جس نے یوگنڈا کے ین ٹببے ایرپورٹ پر حملہ کر کے یہودیوں کو بچا کر لے گیا تھا . وہ ایران کو نیوکلیر بننے سے روکنے کے لئے کچھ بھی کر نے کا عہد کر رکھا ہے کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر ایران نیوکلیر بن گیا تو مصر ، ترکی اور سعودی عرب بھی نیوکلیر بن جائیں گے . مغربی ممالک اسرائیل آ کر اس طرح کے دھماکے اور قتل کے ہنر سیکھتے ہیں . 5.10.2014 کو تہران سے تیس کلومیٹر دور بارچین کے فوجی کامپلیکس کے نزدیک موجود چھ نیوکلیر پاور کی عمارتیں ایک زبردست دھماکے سے اڑ گئیں ۔ اسرائیل کے زیادہ تر ریٹائرڈ جنرلس اس بات سے پریشان ہیں کہ اسرائیلی فوج دن بہ دن سخت مزاج ، شدت پسند اور مذہبی جنونی بنتے جا رہے ہیں اور مسلے کے حل کے لئے بات چیت اور ڈپلومیسی کے مخالف ہیں . وہ ہر مسلہ کو خون خرابے اور جنگ سے حل کر نا چاہتے ہیں اور وہ عربوں سے بات چیت کے مخالف ہیں . اسرائیلی بجٹ کا زیادہ تر حصہ فوج ، انٹلیجنس اور میڈیا پر خرچ ہو تا ہے . اسرائیلی سیاستدان فوجی افسروں کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں . کوئی بھی فیصلہ فوجی افسروں کی منظوری کے بغیر نہیں ہو تا . در اصل اسرائیل اس خطہ میں ایک ایسا اسٹیل کا پنجرہ ہے جسے سر سے پیر تک مہلک اور جدید ہتھیاروں سے لیس کر دیا گیا ہے جو ہر طرح کے حملہ سے محفوظ ہے مگر جسکی کمان ایسے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہے جو اتفاق رائے نہیں رکھتے اور جو کمزور ہیں اور ملٹری کے رحم و کرم پر ہیں . ایسے میں اگر مغربی ممالک خطے میں امن بنائے رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اسرائیلی سیاستدانوں سے زیادہ ملٹری کو رضامند کر نا ہو گا . اسرائیل آج کا اسپارٹا ہے جہاں ہر مرد اور عورت لڑاکو ہوا کرتے تھے اور جو دن کی چوبیس گھنٹے جنگ کے اہل اور تیار رہتے تھے . فرانس جو آج ایران کو نیوکلیر پاور بننے سے روکنے کے لئے سب سے آگے ہے اسی نے خفیہ طور پر اسرائیل کو نیوکلیر پاور بنا یا تھا . اسرائیل کا بچہ بچہ آج جنگی ماہر اور فٹ ہے جبکہ ستر فیصد عرب کھا کھا کر اپنی توندیں بڑھا رہے ہیں اور دیابتیس کے مریض ہو نے کے باوجود شہوت ان کا مرغوب مشغلہ ہے .. اسرائیل میں فوجیوں کو سیکھا یا جا تا ہے کہ \" The stronger one lives , the stronger one survives and the stronger one wins \"5 5 . اس کے باوجود اسرائیلی عوام ایک متحد گروپ نہیں ہیں بلکہ آپس میں بٹے ہوے ہیں اور ہر گروپ کے خیالات دوسرے گروپ سے ٹکراتے ہیں . کہیں پر بے شمار چھوٹے چھوٹے مذہبی نظریات کے ٹکڑے ہیں اور کہیں پر کون کس ملک سے آیا ہے اس کے ٹکڑے ہیں اور کہیں سیاسی نظریات کی بنیاد پر ٹکڑے ہیں . ان تمام نظریاتی اور مذہبی اختلافات کے باوجود وہ ملک کی سیکوریٹی اور معاشی ترقی کو لے کر متحد ہیں . سیاسی اور مذہبی نظریات میں کتنا ہی ٹکراؤ اور شدت پسندی کیوں نہ ہو تمام اسرائیلی تعلیم ، سیاسی ، ملٹری ، معاشی ، سائنسی اور دیگر معاملات میں ایک ہیں جبکہ عرب اور ہندستاتی مسلمان اس کے برعکس ہیں . ان کے ہاں شباک نامی ایک دنیا کو نظر نہ آنے والی سیکوریٹی ایجنسی ہے جو ملک کے اندرونی معاملات پر نظر رکھتی ہے . اسے شن بیت کے نام سے بھی جانا جا تا ہے . موساد وہ جاسوسی ایجنسی ہے جو زیادہ تر غیر ممالک میں کام کر تی ہے . سچائی یہ ہے کہ اسرائیلی لیڈرس چاقو کی تیز دھار پر اپنی زندگی گزارتے ہیں مگر ان کا جاسوسی نظام دنیا کا سب سے بہترین نظام ہے . اس صدی میں عربوں کی شکست کے لئے صرف چند غدار عرب ہی ذمہ دار ہیں جو دولت اور عورت کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں . چوٹی کے غداروں میں ایک نام اشرف مروان ہے جو مصر کے صدر عبدلناصر کے داماد (انکی لڑکی مونا کے شوہر ) تھے . 1966 میں یہ جوڑا جب ہنی مون کے لئے امریکہ گیا تو وہ وہاں امریکہ کے صدر جانسن کے مہمان رہے . چند ہی سالوں میں اس نے یوروپ میں اسرائیلی سفارت خانے کو فون کیا اور کہا کہ وہ اسرائیل کے لئے عربوں کی جاسوسی کرنے اور انہیں سیاسی اور ملٹری خفیہ معلومات مہیا کر نے کے کئے تیار ہے . 1970میں ناصر کے انتقال کے بعد وہ نئے صدر انوار سادات کا قریبی رازدار بن گیا. اسرائیل کو راز مہیا کر نے میں وہ سونے کی کھان ثابت ہوا . جو انفرمیشن مروان نے انورسادات اور سویت یونین کے صدر بریز نیو کی ملاقات کے مطلق اسرائیل کو پہنچائے اسے سنکر امریکہ کے ہنری کسنجر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا . فروری 1973 کو مروان نے موساد کو بتایا کہ مصر ایک مکمل جنگ اسرائیل کے خلاف مئی 1973کو نہر سوئز کی جانب سے کر نے والا ہے . اس وقت امریکی صدر نکسن اپنے خلاف واٹر گیٹ مقدمے سے پریشان تھا اور روس کے صدر سے خفیہ بات چیت میں مشغول تھا . اسرائیل کو ڈر ہوا کہ دونوں لیڈر کوئی ایسا سمجہوتہ کر نے والے ہیں جس سے اسرائیل کے مقبوضہ علاقے واپس کر نا ہو گا . ادھر عربوں کو ڈر تھا کہ کہیں دونوں ملکر عربوں کو جنگ کر نے سے روک نہ دیں . نومبر 1973میں اسرائیل کا جنرل الیکشن ہو نا طئے تھا . ادھر کسنجر کو ڈر تھا کہ اگر وہ عرب اسرائیلی مسلہ کو حل کر نے کی کوشش کرے گا تو کہیں موساد اسے قتل نہ کر دے جبکہ روس کے صدر امریکہ پر زور دے رہے تھا کہ وہ اس مسلہ کو حل کر دے . سادات نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ہمارا دوست روس ہماری موافقت میں تھوڑی ہی دور جا سکتا ہے جبکہ امریکہ ہمیں مکمل سپورٹ کر سکتا ہے . بریزنیو سمجھ رہے تھے کہ عرب 19مئی کو حملہ کر نے والے ہیں . اس لئے سادات کو صلاح دی کہ وہ جنگ سے پرہیز کرے . یہ تمام خفیہ مزاکرات مروان اسرائیل کو پہنچاتا رہا . اسرائیل میں بھی سیاستدانوں کے درمیان کشمکش تھی کہ آیا مقبوضہ علاقے واپس کر دینا ہے کہ نہیں . گوڈامئیر اسکی موافقت میں تھیں جبکہ موشے دایان ، شیرون وغیرہ اسکی مخالفت میں تھے . دایان نے اس وقت کہا تھا \" اب فلسطین نہیں رہا ، وہ تو ختم ہو چکا \" گوڈا مئیر امریکہ سے دبی زبان میں بات کر تی تھیں جبکہ وہ عربوں سے سختی سے پیش آتی یھیں . مئی میں اسرائیل خود کو مصر کے حملہ کا جواب دینے کے لئے تیار ہو گیا مگر مصر کی جانب سے کوئی پیش قدمی نہ دیکھ کر خاموش ہو گیا . اس طرح اسرائیل کی نظروں میں مروان کی اہمیت گھٹ گئی . دایان اور شیرون کو یقین تھا کہ عربوں میں دوبارہ جنگ کر نے کی صلاحیت نہیں ہے . انکی نظروں میں عرب افواج ایسے زنگ آلود جہاز تھے جو سمندر میں لنگر انداز تھے اور جو آہستہ آہستہ غرق ہوتے جا رہے تھے . ایک اسرائیلی جنرل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر مصری افواج رات کو جنگ چھیڑیں گے تو وہ سب صبح تک موت کی آغوش میں چلے جائیں گے . اسرائیلی جاسوسوں نے مصری فوجی ہیڈکوارٹر کے فرنیچر میں خفیہ آلات نصب کر دیے تھے اور انکی باتیں اچھی طرح سنتے تھے مگر انہیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو تا ہو کہ مصر حملہ کر نے والا ہے . اکٹوبر5 کو مروان نے لندن سے موساد کو فون کے ذریعہ بتایا کہ مصر اور شام دونوں مل کر چھ اکٹوبر کو شام کے چھ بجے اسرائیل پر حملہ کر نے والے ہیں . موساد کا سربراہ Zvi Zameer5 فورا لندن گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اطلاع صحی ہے مگر پھر بھی بے یقینی تھی کیونکہ کہیں بھی کوئی ہلچل نہیں تھی ۔ موساد کی رپورت اسرائیلی وزیر اعظم کو دوسرے دن صبح یعنی چھ مئی ملی . بعد میں معلوم ہوا کہ مروان نے جو اطلاع دی تھی اسمیں چار گھنٹوں کی تاخیر تھی کیوں کہ مصر نے حملہ دوپہر کے ٹھیک دو بجے شروع کر دیا . سب سے پہلا لڑاکو بمباروں کا ریلا جو مصر سے اڑا اسکی کمان حسنی مبارک ( جو انور سادات کے بعد مصر کے صدر بنے )نے کی اور وہ خود سب سے آگے تھے .. طوفانی رفتار سے اسرائیل پر بمباری کر کے بار بار اڑان بھر تے رہے اور اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا تے رہے . گولان ، سویز اور سائنائی اور اسرائیل پر اتنا سخت اور خطرناک حملہ ہوا کہ اسرائیل کے بے شمار ہوائی جہاز ، ٹینک اور ہتھیاروں کے ڈپو بغیر اپنی جگہ سے حرکت کئے ختم ہو گئے . ادھر نہر سویز کا ایک سو میل کا فرنٹ مصری آرٹیلری بمبارڈمنٹ سے تحس نحس ہو گیا . یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے زبردست بمبارڈمنٹ تھا . مصری اور شامی کمانڈرس اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سبب سے آگے آگے تھے اور بے خوف و خطر دشمن کی دھجیان اڑانے لگے. دنیا کے سامنے ایک بار پھر خالد بن ولید اور صلاالدین ایوبی اپنے نئے روپ میں ظاہر ہو گئے اور مغربی ممالک حیران رہ گئے کہ مصر اور شام کی افواج اس طرح کا مظاہرہ کر سکتے ہیں . مصری ایر فورس طوفانی رفتار سے سائنائی میں اسرائیلی ٹھکانوں کو توڑ پھوڑ دیا جبکہ شامی ایر فورس نے گولان کو چکنا چور کر دیا. پانی اور آگ کے بڑے بڑے ہوس کے ذریعہ باقابل تسخیر بارلیو لائن کو تباہ کر دیا . مغربی ممالک کا خیال تھا کہ دنیا کی بہترین سے بہترین فوج بھی بارلیو لائن توڑنہیں سکتی مگر مصری فوج نے صرف چند گھنٹوں میں اسے توڑ دیا اور بے شمار دشمن سپاہیوں کو قید کر لیا . انجنیرنگ برگیڈ کے کمانڈر کمال حیجب کی قیادت میں آگ اور پانی اس طوفانی رفتار سے برسایا کہ ہزاروں اسرائیلی سپاہی مر کھپ گئے . ادھر میزائل کمانڈر محمد ال مصری نے اس طرح اسرائیلی جہازوں ، ٹینکوں اور ٹھکانوں پر میزائل برسائے کہ اسرائیل کہ 70 فیصد ٹینک اور جہاز برباد ہو گئے . اسرائیل اور مغربی ممالک کو بلکل یقین نہیں تھا کہ روس کے مصر کو سپلائی کئے ہوے اینٹی ٹینک اور اینٹی ایرکرافٹ ہتھیار اتنے موثر ہو سکتے ہیں . جب گولڈا مئیر نے دیکھا کہ اسرائیل کے تمام ہتھیار قریب الختم ہیں تو وہ زار و قطار رو پڑیں اور اسرائیل کو بچانے کے لئے اپنے نیو کلیر ہتھیاروں کو باہر نکال دیا. پھر اس نے امریکی صدر نکسن سے آنسوں کے درمیان فوری مدد کی درخواست کی اور دھمکی بھی دی کہ وہ شام اور مصر پر نیوکلیر بم گرانے والی ہے . چناچہ نکسن نے جدید امریکی ٹینک اور اور بمبار تمام بموں اور میزائلوں سے لیس صرف چند گھنٹوں میں میدان جنگ روانہ کرنا شروع کر دیا . یہ جنگ قریبا 19دن چلی جسمیں تین ہزار سے زیادہ اسرائیلی مرے اور ہزاروں زخمی ہوے . انور سادات نے جنگ بندی کی سیکوریٹی کونسل کی درخواست کو اس وقت قبول کیا جب اس نے دیکھا کہ امیریکہ بذات خود اسرائیل کے کاندھے سے کاندھا لگاکر جنگ میں شریک ہے . آگے چل کر انور سادات نے سیاسی حکمت عملی کے تحت سنائی اور کچھ دیگر علاقے اسرائیل سے واپس لے لئیے . مگر اخوان المسلمین کے کچھ گمراہ اور بیوقوف لوگوں نے انکا قتل کر دیا ورنہ ہو سکتا ہے کہ سادات فلسطینی ریاست کا قیام اب تک کر چکے ہو تے . اس سے صاف ظاہر ہے کہ مذہبی تنظیموں کو ایسے معاملات سے جتنا دور رکھیں گے اتنا اچھا ہے . آج اگر حالات کو دیکھیں تو تو ظاہر ہے کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے . ایسے میں اگر مصر ، شام ، ایران اور سعودی عرب نیوکلیر پاور بن گئے یا سب مل کے ناٹو ٹائپ مسلم ممالک کا محاذ بنالیا اور دنیا سے کہہ دیا one for all and all for one تو وہ بغیر جنگ لڑے اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لیں گے . انشااللہ .(یو این این)
( نوٹ : یہ مضمون یوروپ اور امریکہ میں لکھی ہوی کتابوں ، رپورٹوں اور دستاویز کا نچوڑ ہے )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا