مسلمانوں کو شانِ امتیازی پیدا کرنے کی ضرورت : مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی
اہل مدارس نے میڈیکل کالج سے لے کر سول سرویس تک کے لیے افراد مہیا کرائے ہیں : مولانا محمد الیاس ندوی
بھٹکل 30 نومبر 2022(فکروخںر نیوز) جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں آج جنوبی ہند کی سات ریاستوں کے مدارس کے طلبہ کے درمیان مناقشہ ، اجتماعی قرات اور اسلامی ترانوں کے دوروزہ پروگرام کا آغاز آج صبح ساڑھے نو بجے سید اسماعیل برماور کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔
اس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الرائد کے ایڈیٹر اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے مولانا سید جعفر مسعود صاحب حسنی ندوی نے مسلمانوں کو خصوصاً اہلِ مدارس کو شانِ امتیاز پیدا کرنے کی طرف دعوت دی ، مولانا نے اپنے اچھوتے اسلوب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مدارس کے طلبہ کو دیگر مسلمانوں کو شانِ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے خاص لباس سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی دیگر اقوام میں بھی شانِ امتیاز حاصل ہونا چاہیے۔ مولانا نے بڑے درد بھرے انداز میں کہا کہ مسلمان صرف عقیدہ اور عبادت کے لحاظ سے دوسری اقوام سے مختلف ہوکر رہ گیا ہے لیکن ان کے اخلاق اور کردار مسلمانوں جیسا نہیں رہا ۔ مولانا نے حالات پر صبر کرنے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کی بھی نصیحت کی ۔
رکنِ شوریٰ جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا محمد الیاس ندوی نے جلسہ کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں ایلِ مدارس پر جو الزامات عائد کیا جاتے ہیں ان میں ایک اہم الزام یہ ہے کہ انہیں نیرو مائنڈ تصور کیا جاتا ہے جبکہ ہم نے دنیا کو وہ علوم بھی دئیے جس کو دنیا کو زمانہ کے لحاظ سے ضرورت پڑی ۔ آج بھی آئی آئی ٹی ، نیٹ ، سی ای ٹی اور میڈیکل کالج کے میدان میں بڑے بڑے کالجز بھی دئیے ، انہوں نے مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے براڈ مائینڈ کا وہ تصور پیش کیا جس کو دنیا آج تک پیش نہیں کرسکی۔ ہم نیرومائنڈ ہیں وہاں پر جہاں ہماری شریعت اجازت نہیں دیتی اور ہم برانڈ مائنڈیٹ ہیں وہاں تک جہاں تک ہماری شریعت اجازت دیتی ہے۔ مولانا نے کہا کہ جو لوگ انٹلیکچول کہلائے جاتے ہیں ، ان کے میدانوں میں بھی ان سے زیادہ ہمارے مدارس والوں نے کام کیا ہے۔
مولانا نے بلسانِ قومہ کا مطلب صرف زبان کا جاننا نہیں بلکہ اپنے زمانہ کے حالات ، نفسیات اور تقاضوں کو بھی سمجھنا ہے۔ اسی طرح وأعدو لھم ماستطعتم کے مطلب میں زمانہ کو جس علمی ہتھیار کی ضروت ہوتی ہے اس کو بھی اختیار کیا جائے۔
مولانا نے کہا کہ موجودہ حالات میں زمانہ کے جو ایشوز ہیں انہیں ہم نے آج مناقشہ کے لیے اپنے موضوعات میں شامل کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ہمارے طلبہ زمانہ کے ساتھ آگے بڑھیں۔ مولانا نےاپنی بات میں یہ بھی کہا کہ ہم مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم ہی دیں اور زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اس میں عصری علوم کو شامل کریں گے لیکن کسی سے مرعوب ہوکرصرف نام کے مدارس کے رہ جائیں یہ ہمیں کسی بھی حال میں گوارا نہیں ہے۔
صدرِ جامعہ مولانا عبدالعلیم قاسمی نے کہا کہ ہمیں صرف گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی بننا ہے۔ ہمارا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ اسے دیکھ کر دوسرے لوگ اسلام سے قریب آجائیں۔
مہتمم جامعہ مولانا مقبول احمد ندوی نے جامعہ کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شروع سے جامعہ کے بانیان سے اس بات کی کوشش کی کہ ہمارے طلبہ حالات اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دینی تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں۔ الحمدللہ جامعہ کے فارغین اسی بنیادی مقاصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنی دعوتی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھارہے ہیں۔
ناظمِ جامعہ مولانا محمد طلحہ ندوی نے تمام اندرون اور بیرونِ ہند کی جماعتوں اور وہاں موجود افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے جامعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کا بھرپور تعاون کیا اور کرتے آرہے ہیں۔
نائب صدر جامعہ جناب ماسٹر شفیع صاحب نے کہا کہ جامعہ کے بانیان اور محسنین کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں وقتاً فوقتاً اپنے دعاؤں میں یاد رکھنے کی گذارش کی اور ساتھ ہی کہا کہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر گھر میں حافظِ قرآن اور عالمِ دین ایسا ہو جو پورے گھر کو اسلامی نقشِ قدم پر لے چلے۔
اس نشست میں نظامت کے ذمہ داری مولانا مذکر احمد ندوی نے انجام دئیے
اس نشست کے بعد مسابقہ کی پہلی نشست کا آغاز ہوا جس میں اسلامی ترانے ، مختلف موضوعات پر مناقشے اور اجتماعی قرأت کی چند جھلکیاں پیش کی گئیں۔