English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

share with us

نا اہلوں کی پونجی

از:عمار عبد الحمید لمباڈا

عصر کی نماز سے فارغ ہو کر ہم جالی بیچ پہنچے۔جامعہ اسلامیہ سے کوئی دو ،تین کلومیٹر کے فاصلہ پر سمندر کا ایک کنارہ ہے، مناظر کی دلکشی کے کیا کہنے! حد نظر تک پھیلا ہوا سمندر ۔۔۔اور اس میں تھوڑی طغیانی بھی جہاں تیراکی قدرے مشکل، آسمان میں کہیں کہیں بادل چھائے ہوئے ،اور کہیں کہیں نیلگوں رنگ صاف نظر آتا ہوا ، جہاں سمندر کی لہریں اپنا وجود کھوتی وہیں کھڑے ہوکر مولانا منیری کے علم کا دریا بہتا۔۔ کہنے لگے

وہ دور ایک دھندلا سا پہاڑ دکھائی دے رہا ہے ؟

جی ہاں

یہ تقریبا ۲۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے ، واسکوڈی گاما جب دوسری مرتبہ ۱۵۰۲ میں ہندوستان آیا تو اس نے اسی جزیرہ پر لنگر انداز ہوکر کہا تھا کہ اب بحر ہند پر پرتگال کے راجہ کا راج ہوگا اور کوئی بھی جہاز ہماری اجازت کے بغیر یہاں پر نہیں مار سکے گا۔ اس کے بعد ہی مغربی ساحل اور جزیروں پر پرتگالیوں کا قبضہ ہوا اور ایک نئی خونی تاریخ رقم ہوئی۔

سمندر شور کرتا رہا اور مولانا کے علم کا دریا بہتا رہا ۔

یہ سمندری آوازیں ساری رات میرے کانوں میں گونجتی رہیں کہ یہ سمندر واسکوڈی گاما جیسے دریاؤں کا سینہ چیرکر اس پار جانے والوں کا ہے تمہاری طرح کسی تماشائی کا نہیں جو پائنچے چڑھائے پیر گیلے کرے اور چلتے بنے اور یوں لہروں کی قدمبوسی پر اتراتا رہے۔

یہاں ایک نخلستان ہے اور اس میں ایک ویلا جو کسی نوائطی تاجر کا ،جو امریکہ ملازمت کی غرض سے گئے اور پھر نوائطی فطرت نے اپنا زور دکھایا اور ایک بڑے تاجر کی حیثیت سے ابھرے اور خاندانی روایات کے امین بنے۔

سورج کے مدھم پڑتے ہی ہم اس ویلا میں داخل ہوئے شاید دوسری منزل پر ، ایک ہال میں جو سمندری رخ پر ہے ، صوفے بچھے ہوئے، لہروں کو کچھ اونچائی سے دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا ،جیسے کسی سمندری جہاز میں سوار ہوں، میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہوگیا دور ملکوں سے آتی ہوئی سمندری ہوائیں اور اس کی مہک ،لہروں کا ہنگامہ اور اونچائی سے اس کا نظارہ عجب جنوں پیدا کر رہا تھا، ان نظاروں سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ نعتیہ محفل سجادی گئی ،مولانا زفیف ، عبد اللہ عتبان اور مولانا حسن بافقیہ کی سریلی آوازیں سمندر کی لے سے لے ملاکر موجوں کی مانند دلوں سے ٹکرانے لگیں ، قدرتی موسیقی ،لحن داؤدی ، خدا کی بڑائی کے گیت اور نعت رسول،،سماں جو بندھا تو آنکھیں اشکبار نظر آئیں۔۔

مغرب کا وقت ہو چلا تھا سب کی نگاہیں سورج کے غروب کے نظارہ کو ترس رہی تھیں، لیکن بادلوں نے اسے چھپائے ہی رکھا ،ورنہ یہ نظارہ یہاں قابل دید ہوتا ہے۔

مغرب کی نماز یہیں ادا ہوئی بظاہر سمندر کے سامنے اور حقیقت میں خدا کی قدرت کے آگے ۔

موجیں ابھی بھی دیو پیکر پتھروں سے سر ٹکرا رہی تھیں، شعاعوں کی بارش سے پانی میں ستارے مسلسل لرز رہے تھے اور رہ رہ کر موجوں کا خروش ۔۔۔

یہی نظارہ جب مولانا عامر عثمانی علیہ الرحمہ نے دیکھا تو کہا تھا " اس نظارہ سے سب سے بڑا احساس خلاق اکبر کی عظمت و جلالت اور اپنے وجود کی بے حیثیتی کا پیہم انگڑائیاں لیتا رہا۔ ننگے پیروں سے رگ رگ میں سرایت کرنے والی ریت کی نمی کتنے رومانوی محسوسات کے گھروندے اندر ہی اندر بناتی اور توڑتی ہے۔ خاموش فضائیں کیسے ناشنیدہ نغمے سناتی ہیں ، لکھئے تو ایک دفتر بن جائے۔

پھر جامعہ کی طرف قدم بڑھے،راستہ میں یہاں کے لباس پر بات چھڑی ، یہاں مردوں کا عام اور روایتی لباس لنگی ہے۔۔

ڈھیلی ڈھالی، ہلکے کپڑے کی لنگی اس علاقہ کے موسم کے لحاظ سے بہترین لباس ہے، یہ عموماً سفید ہوتی ہے اور چیک ڈیزائن میں ہوتی ہے۔

عشاء کی نماز کے بعد جامعہ کے پروگرام ہال میں استقبالیہ نشست تھی ،ہال پہنچنے سے پہلے ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی، ہال مہمان خانہ سے دو قدم پر ہونے کے باوجود گاڑی سے پہنچنا پڑا، طلبہ اکٹھے ہو چکے تھے، ایک طالب علم نے خلوص و محبت اور جذبہ عقیدت و احترام سے لبریز ایک سپاسنامہ پیش کیا، اس کے بعد مہتمم جامعہ حضرت مولانا مقبول صاحب نے جامعہ کا تعارف اور مہمانوں کا خیرمقدم کیا ،پھر ہماری جماعت سے مفتی طاہر صاحب مولانا اویس صاحب طلبہ سے مخاطب ہوئے، جو ان کی شایان شان بھی تھا، اور وہ اسٹیج پر جلوہ افروز بھی تھے ، لیکن پتہ نہیں انتظامیہ کو کیا غلط فہمی ہوئی کہ سامعین میں سے ایک بندہ ناتواں کو دعوت اسٹیج دی اور وہ بھی علما و طلبہ سے مخاطب ہونے کے لئے، اعلان ہونے کے بعد نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن مرتا کیا نہ کرتا چار و ناچار بھاری قدموں سے مائک کے سامنے حاضر ہوا ، دل نے کہا یہ حضرات کسی نامعلوم غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں، اللہ تو ہی ستاری کا معاملہ فرما ،ایک دیہاتی کے بارے میں نہ جانے کیا گمان کر بیٹھے ہیں، بولنا اس کو نہ آئے ، کوئی منصب وجاہت اس کے پاس نہیں نہ جسمانی ڈیل ڈول، پیش ملا طبیب اور پیش طبیب ملا، ادھر حسن ظن اور ادھر اپنی بے بضاعتی، دیکھیے کیا ہوتا ہے؟، مائک سنبھالتے ہی اپنے آپ سے قابو کھو دیا ،ڈرا سہما ایک وجود ،لرزتی آواز، اور کام کی باتیں کم ،سخن سازی زیادہ اور یہی تو نا اہلوں کی پونجی ہے۔

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا