English   /   Kannada   /   Nawayathi

میرے خلاف مقدمہ بادشاہ کے حکم نتیجہ : شرجیل امام

share with us

نئی دہلی:05 اکتوبر2021(فکروخبر/ذرائع) جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام نے پیر کو دہلی کی ایک عدالت کو بتایا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے اور اس کے خلاف جاری مقدمہ "جمہوریت کے ذریعے قائم حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ بادشاہ کے حکم کا نتیجہ ہے"۔

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف احتجاج کے دوران اشتعال انگیز بیانات دینے کے مبینہ الزام میں شرجیل امام کو گرفتار کیا گیا۔ شرجیل نے 2019 میں دو یونیورسٹیوں میں تقریریں کیں، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر آسام اور باقی شمال مشرقی کو بھارت سے "الگ"کر حکومت سے بات منوانے کی دھمکی دی تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے اس سلسلے میں درج کیس کی سماعت کی۔وہ تقریریں جن کے لیے شرجیل امام کو گرفتار کیا گیا تھا مبینہ طور پر 13 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور 16 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دی گئی تھیں۔ امام پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج ہے اور وہ جنوری 2020 سے عدالتی تحویل میں ہیں۔ اس کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی درج ہے۔
امام کے وکیل تنویر احمد میر نے ضمانت کی درخواست کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ حکومت پر تنقید کرنا غداری کے مترادف نہیں ہو سکتا۔ میر نے کہا کہ "پروسیکیوشن کی دلیل کا پورا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ اب ہمارے خلاف بولیں گے تو یہ غداری ہوگی۔"

انہوں نے کہا کہ امام کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس نے سی اے اے اور این آر سی پر تنقید کی ہے۔وکیل نے کہا کہ "شرجیل امام کے خلاف قانونی چارہ جوئی قانون سے قائم حکومت کے مقابلے میں ایک شہنشاہ کا فرمان ہے۔ اس طرح حکومت کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت بدل سکتی ہے۔ کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ "
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے کہا کہ احتجاج کرنے کے بنیادی حق کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کو نقصان پہنچایا جائے۔اس نے عدالت کو بتایا کہ امام کی تقریر کے بعد پرتشدد فسادات پھوٹ پڑے۔ پرساد نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ "اس نے یہ کہہ کر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی کہ مسلم کمیونٹی کے لیے کوئی امید باقی نہیں ہے اور اب کوئی راستہ نہیں ہے۔"

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا