English   /   Kannada   /   Nawayathi

سیمی کے نام پرگرفتار ۱۲۷؍ افراد ۲۰ سال بعد باعزت بری، ۲۰ سال کی بربادی کا ذمہ دار کون ؟؟

share with us

:07 مارچ2021(فکروخبرنیوز/ذرائع)آسیمی سے تعلق کے الزام میں ماخوذ کئے گئے ۱۲۷؍ افراد کے معاملے میں سورت کی عدالت نے وہ تاریخی فیصلہ سنایا ہے جس کی گونج آنے والے کئی دنوں تک سنائی دے گی۔ عدالت نے اس معاملے میں سنیچر کو حتمی سماعت کرتے ہوئے اپنا فیصلے میں تمام  ۱۲۷؍ افراد کو با عز ت بری کرنے کا حکم دیا۔ واضح رہے کہ ان میں سے۵؍ افراد اب یہ فیصلہ سننے کے لئے اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ۲۰؍ سال کے طویل عرصے تک جاری رہنے والی شدید ذہنی ، سماجی اور معاشی پریشانی سے اب یہ ملزمین آزاد ہو رہے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلےمیں کہا کہ پولیس ان ملزمین کے خلاف ایک بھی’ قابل اعتماد ، واضح  اور اطمینان بخش ‘ثبوت نہیں پیش کرسکی ۔ جس کے بعد عدالت نے انہیں باعزت بری کرنے کا حکم دے دیا اور اپنے فیصلے میں پولیس کی سخت سرزنش بھی کی ۔ 
 واضح رہے کہ آل انڈیا مائناریٹیز ایجوکیشن بورڈ کے زیر اہتمام  دسمبر ۲۰۰۱ء میں گجرات کے سورت کے راج شری ہال میں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر غور فکر کے لئے ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا۔سورت پولیس کے اٹھوا لےپولیس تھانہ کی حد میں جاری اس سیمینار پر خفیہ محکمے کی اطلاع کے نام پر کارروائی کی گئی  اور اس میں شامل سبھی افراد کو سیمی کا مشتبہ ممبر بتاکر گرفتارکر لیاگیا تھا۔ اس سیمینار میں پورے ملک سے تعلیمی اور علمی شخصیات ،ڈاکٹرس، انجینئرس، وکلاءاورسماجی خدمتگار شامل ہوئے تھے۔پولیس نے کارروائی کرتے  ہوئے  ان پر  یہ الزام لگایا کہ یہ تمام غیر قانونی سرگرمیوں کے فروغ  اور سیمی کی توسیع کے  ارادے سے یہاں جمع ہوئے تھے۔ گرفتاری کے بعد ان سبھی کو تقریباً ۱۱؍ ماہ  مہینے کے طویل عرصہ تک جیل میں رکھنے کے بعد گجرات ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی لیکن اس دوران  میڈیا کی کارستانیوں کی وجہ سے ان سبھی کا کریئر اورسماجی و معاشی زندگی برباد ہو گئی ۔  انہیں پولیس کی جانب سے بھی مسلسل ہراساں کیا جاتا رہا لیکن اب اس تمام ہراسانی پر روک لگنے کی امید  بندھی ہے۔  چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ  اے این دوے کی عدالت نے  قابل تقلید فیصلہ دیتے ہوئے پولیس کی تفتیش اور اس کے پورے کیس کے بخیے ادھیڑ دئیے۔ انہوں نے فیصلے میں شامل اپنے تبصرے میں کہا کہ سورت  پولیس  اور استغاثہ  نے ان افراد کے خلاف سنگین ترین دفعات عائد کی تھیں لیکن وہ اتنے طویل عرصے میں ایک بھی ایسا ثبوت نہیں پیش کرسکے کہ جسے قابل اعتباراور اطمینان بخش قرار دیا جاسکے۔  عدالت نے اپنے تبصرے میں پولیس کی سخت سرزنش کرتے ہو ئے یہ بھی کہا کہ ان سبھی پر جس طرح سے یو اے پی اے کا اطلاق کردیا گیا وہ تو اور بھی ناقابل قبول ہے کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی منظم مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل نہیں رہا ہے اور نہ ا ن کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ پھر کیسے پولیس نے اتنی سخت دفعات ان پر عائد کردیں؟

 

’ای ٹی وی بھارت‘ کی رپورٹ کے مطابق باعزت بری ہونے کے بعد ضیاالدین صدیقی نے ’اللہ کا شکر ادا کیا اور سسٹم پر سوال اٹھایا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’20 سال بعد ہمیں مقدمہ سے بری کردیا گیا لیکن اس عرصہ کے دوران جو تکالیف ہم نے اور ہمارے خاندان نے جھیلی ہیں اسے کیسے دور کیا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ قانونی جنگ کے دوران ہماری زندگی کے 20 سال پوری طرح برباد ہوگئے۔ انہوں نے پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے۔
  واضح رہے کہ جن ۱۲۷؍ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے بیشتر کا تعلق تو گجرات سے ہے لیکن ان میں مہاراشٹر کے ودربھ سے بھی بڑی تعداد میں نوجوان تھے۔ ان کے علاوہ مدھیہ پردیش ، مغربی بنگال، تمل ناڈو ،کرناٹک، راجستھان اور اتر پردیش کے بھی افراد تھے۔ یاد رہے کہ ستمبر ۲۰۰۱ء میں ہی سیمی پر مرکزی حکومت نے پابندی عائد کردی تھی  اور مذکورہ بالا کیس اس وقت سیمی پر سب سے بڑی کارروائی مانا گیا تھا ۔  

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا