English   /   Kannada   /   Nawayathi

سی اے اے کے خلاف تلنگانہ اسمبلی میں قرارداد پیش

share with us

تلنگانہ اسمبلی میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون، این پی آر اور این آر سی کے خلاف ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے ایک قرارداد پیش کی گئی۔

آج وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ نے ایوان میں قرارداد پیش کرتے ہوئے سی اے اے کو آئین کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہندو۔مسلم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس قانون کی زد میں تمام مذاہب کے لوگ خاص کر غریب اور درج فہرست طبقات آئیں گے۔ کے سی آر نے کہا کہ سی اے اے پر بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا ہے لیکن اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ ایک طبقہ کو نشانہ بنانے کےلیے ایسا قانون بنایا گیا ہے۔

انہوں نے بی جے پی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سیکولر ملک ہے اور یہاں پر ’گولی مارو....‘ جیسے نعروں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے ایسے نعروں پر افسوس کا اظہار کیا۔ کے سی آر نے دہلی فسادات پر بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو مذہب کے نام پر باٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ اب تک ملک کی 7 ریاستوں نے اس متنازعہ قانون کے خلاف قراردادیں منظور کرتے ہوئے مرکز سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہیں۔

تلنگانہ اسمبلی میں سی اے اے،آر سی و این پی آر پر مباحث کا آغاز۔ چیف منسٹر کے چندراشیکھر راؤ نے ان قوانین پر بحث کا آغاز کیا انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑی آبادی کو یہ فیصلہ منظور نہیں ہے جو اس کی عدم مساوات کے باعث اس کی شدید مخالفت کررہے ہیں لیکن مرکز اس کو نافذ کرنے پر بضد ہیں جس کے باعث ملک میں تناؤ کا ماحول ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ اس کی نہ صرف ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پراسکے خلاف احتجاج کیا گیا اور اس معاملے پر بین الاقوامی اسمبلی میں بھی مباحث ہوئے جس سے ملک کی نیک نامی متاثر ہوئی ہے۔

کے سی آر نے اس قانون پر اعتراض کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اور ان کی پارٹی عوام کو تقسیم کرنے والے اس قانون کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہُ ان قوانین کا نفاذ ملک کی سلامتی کیلئے ٹھیک نہیں ہیں اس ملک میں عوام سینکڑوں برس سے عوام مل جل کر گزر بسر کر رہے ہیں اس کی وجہ سے ملک کے عوام میں تفریق پیدا ہوئی ہے۔ کے سی آر نے اس تفریق کو ناقابل برداشت قرار دیا اور کہا کہ ان قوانین کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں جو ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قانون کے نفاذ کے اعلان کے بعد دہلی میں کئی افراد کی کانیں گئیں جس کیلئے خود مرکزی وزراء ذمہ دار ہیں جنہوں نے عوام کو " گولی مارو سالوں کو" کے نعروں کے ذریعے اعوان کو اکسایا یہ ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔

چیف منسٹر نے اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو ملک کا غدار قرار دئیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے سوال کیا کہ ملک کی سات اسمبلیوں نے اس کے خلاف قرار داد منظور کی تو

کیا یہ اسمبلیاں اور اس کے آرا کین غدار ہیں؟_ کے سی آر نے مرکزی حکومت پر این پی آر کی آڑ میں این آر سی لانے کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا ہے جس کو عوام سے چھپایا جا رہا ہے مرکزی حکومت اس ضمن میں عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ مرکز نے پارلمنٹ میں جو مسودہ پیش کیا گیا اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ این پی آر این آر سی جانب پہلا قدم ہے جبکہ عوام کو کہا جارہا ہے کہ این آر سی پر عمل نہیں ہوگا کے سی آر نے حکومت کو شفافیت سے کام لینے کا مشورہ دیا۔

چیف منسٹر نے اسمبلی کو بتایا کہ میرے پاس اور میرے جیسے کروڑوں افراد کے پاس پیدائشی صداقت نامہ اور مناسب کاغذات نہیں جس سے میں اپنی شہریت ثابت کر سکوں۔ انہوں نے کہا کہ خود وزیراعظم کے پاس بھی پیدائشی سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ دلت، آدی واسی اور ناخواندہ افراد بالخصوص مزدوری یا شادی بیاہ کے باعث نقل مکانی کرنے والی خواتین بھی ان کاغذات سے محروم ہیں ان کا کیا ہوگا؟-

کے سی آر نے سوال کیا کہ جن عوام نے اپنے ووٹر آئی ڈی کارڈ سے حکومت کو منتخب کیا اس ووٹر آئی ڈی کو منسوخ کیا جانا چہ معنی دار؟ اگرووٹر آئی ڈی کارڈ منسوخ کئے جائیں تو کیا اس سے منتخب کردہ حکومت باقی رہے گی؟

انہوں نے ان قوانین کے نفاذ کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ سابق میں اٹل بہاری واجپائی حکومت نے این آر سی میں ترمیم کرتے ہوئے اس کے نفاذ کی کوشش کی اور یو پی اے حکومت نے تقریباً بارہ برس اس پر تجربہ کر کے دیکھ لیا لیکن دونوں ہی حکومتوں نے اس کی ناکامی کا اعتراف کیا۔ حالیہ دنوں میں مرکزی وزیر گروداس کامت نے بھی اس کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔

چیف منسٹر نے مرکزی حکومت کی ضد چھوڑنے اور عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا ااور کہا کہ اگر حکومت اس طرح کرتی ہے تو ان کی پارٹی اس کی تائید کرے گی لیکن موجودہ ترمیم شدہ قوانین کو ان کی پارٹی مسترد کرتی ہے-

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا