English   /   Kannada   /   Nawayathi

دہلی نسل کشی میں سنگھ پریوار اور پولیس کے کردار پر پردہ ڈالنے کے لئے مسلمانوں کو بنایا جا رہا ہے نشانہ: پاپولر فرنٹ آف انڈیا

share with us

:11 مارچ2020 (فکروخبر/ذرائع)پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے اپنی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پاس کردہ قرارداد میں کہا کہ شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے مسلسل چار دنوں تک چلا دل دہلا دینے والا تشدد دو فرقوں کے درمیان اچانک ہونے والا کوئی تنازعہ نہیں تھا، بلکہ یہ دائیں بازو کے ہندوتوا لیڈران اور ان کے متبعین کے ہجوم کے ذریعہ انجام دی گئی ایک منصوبہ بند فرقہ وارانہ مسلم مخالف نسل کشی تھی۔
یہ تشدد ملک بھر میں قومی و علاقائی سطح پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کھلے عام تشدد کو بڑھاوا دینے والے فرقہ وارانہ پروپگنڈے اور اشتعال انگیز تقاریر کے سلسلے کا نتیجہ تھا۔ دہلی پولیس اور میڈیا کے ایک طبقے نے مسلمانوں کے خلاف تعصّب اور نفرت پیدا کرنے میں سنگھ پریوار کا ساتھ دیا۔ جس کے پیچھے اصل پیغام یہ تھا کہ ملک میں بسنے والے مسلمان حکومت کی امتیازی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے اپنے جمہوری حق کا استعمال نہ کریں۔
یہ حملے پوری طرح سے منظم اور منصوبہ بند تھے اور مسلم گھروں اور دکانوں کو پہلے سے ہی نشان زد کر دیاگیا تھا۔ دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے اطراف کی ریاستوں سے دائیں بازو کی فرقہ پرست تنظیموں سے وابستہ تقریباً 2000 لوگوں کو دہلی میں تشدد کو انجام دینے کے لئے بلایا گیا تھا۔ جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ان کی مذہبی پیچان کے لئے ان سے ان کے نام پوچھے گئے۔ انہیں گولی ماری گئی، چاقو سے وار کئے گئے اور زندہ جلا دیا گیا۔ ان کے گھروں کو لوٹ کر آگ کے حوالے کر دیا گیا، مال و اسباب کو تباہ و برباد کر دیا گیا، اور عبادتگاہوں میں بری طرح سے توڑ پھوڑ کی گئی۔ اب تک 53 افراد کی موت ہو چکی ہے اور کئی لوگ زخمی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ 22 گھروں، 322 دکانوں، 103  گاڑیوں، اور 3 اسکولوں کو پوری طرح سے تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 16 مساجد میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ مجرموں نے لاشوں اور کٹے ہوئے اعضاء کو ٹھکانے لگانے کے لئے ایک کھلے نالے کا استعمال کیا جو بیشتر متاثرہ علاقوں سے ہو کر گذرتا ہے۔ بہت سے لوگ ابھی بھی لاپتہ ہیں اور لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اور بھی کئی لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔
زمینی خبریں یہ بھی بتاتی ہیں کہ سرکاری بے حسی اور بے توجہی کے بیچ، کئی علاقوں میں ہلاکتوں پر اس وجہ سے قابو پایا جا سکا، کیونکہ لوگوں نے خود آگے بڑھ کر حملہ آور ہجوم کے خلاف اپنا بچاؤ کیا۔ پولیس نے اپنے فرض کی ادائیگی نہ کرکے اور دائیں بازو کی ہندوتوا بھیڑ کے ساتھ ساز باز کرکے تشدد کو بھڑکنے دیا اور بسا اوقات وہ خود حملے، قتل، آگ زنی اور تباہی میں پوری سرگرمی کے ساتھ شریک ہو گئی۔ مظلوموں کی چیخ وپکار اور مدد کی دہائیوں پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ لوگوں کے گھر والے ابھی بھی پولیس کے معاندانہ و امتیازی سلوک کی وجہ سے پولیس کے پاس جانے میں جھجھک رہے ہیں۔ پولیس انہیں دھمکا رہی ہے اور اصل مجرموں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ کچھ دنوں تک تو پولیس نے صحافیوں اور آزاد ایجنسیوں کو فسادات سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں داخل ہونے نہیں دیا۔ اب لوگ یہ شکایت کر رہے ہیں کہ پولیس بے قصور مسلمانوں کو من مانے طریقے سے گرفتار کر رہی ہے، جبکہ کھلے عام تشدد بھڑکانے والے لوگ آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس بیچ دہلی ریاستی حکومت نے بھی متاثرین کے تئیں مجرمانہ بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گرچہ عآپ حکومت نے تھوڑی بہت راحت کا اعلان کیا ہے، لیکن ہنگامی طور پر راحت و بچاؤ سرگرمیاں انجام دینے اور زخمیوں کے علاج میں انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
بے گھر لوگوں کو مختلف ملّی تنظیموں اور مقامی جماعتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ وزیر اعظم، مرکزی وزیر داخلہ اور ریاستی وزیر اعلیٰ تشدد کے دنوں میں اور اس کے فوراً بعد اپنی دوسری ترجیحات میں اتنے مشغول رہے ہیں کہ وہ مظلوموں کے لئے تسلّی، حوصلے اور حمایت کے چند الفاظ بھی نہیں بول سکتے۔
پاپولرفرنٹ کی این ای سی کا مطالبہ ہے کہ:
۱۔  دہلی پولیس تشدد کی آگ کو بھڑکانے والے سنگھ پریوار کے لیڈران کی گرفتاری فوری طور پر شروع کرے، جس میں پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے۔
۲۔  دہلی ریاستی حکومت زخمیوں کے علاج اور بے گھر لوگوں کی راحت اور بازآبادکاری کو یقینی بنائے۔
۳۔  دہلی ریاستی حکومت مقتول پولیس جوان کی طرح بقیہ تمام مقتولین کے اہل خانہ کو1 کروڑ روپئے بطور معاوضہ دے۔
۴۔  دہلی کے ایل جی اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے ہائی کورٹ کے کسی موجودہ جج کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیشن تشکیل دیں۔
۵۔  لاپتہ لوگوں کی مکمل فہرست فوری طور پر جاری کی جائے اور ان کی تلاش کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
۶۔  بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری بند کی جائے اور ان پر لگائے گئے تمام جھوٹے مقدمات کو واپس لیتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کیا جائے۔

آنے والی مردم شماری کی کاروائی سے این پی آر کے عمل کو خارج کرو
قومی مجلس عاملہ کی ایک دوسری قرارداد میں، پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے مرکزی و تمام ریاستی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آنے والی مردم شماری کی کاروائی سے این پی آر کے عمل کو خارج کریں۔ اجلاس نے عوام سے بھی جہاں کہیں بھی این پی آر کے ساتھ مردم شماری ہو، ان ریاستوں میں اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔
دسمبر 2019  میں پارلیمنٹ کے ذریعہ شہریت (ترمیمی) بل پاس ہونے کے بعد، بی جے پی حکومت کو مذہب کی بنیاد پر شہریت کے حق سے محروم کرنے کا قانونی راستہ مل گیا۔ سی اے اے اور اس کے ساتھ ملک بھر میں شہریوں کے قومی رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے نفاذ سے لاکھوں غریب ہندوستانی شہریوں کے سر پر بے وطن ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اسی اندیشے نے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں ہندوتوا طاقتوں کے ساتھ مل کر جو قتل اور تباہی مچائی گئی، وہ بھی ان مظاہروں اور احتجاجات کو نہ روک سکی۔
اسی بیچ کئی ریاستی حکومتوں نے متنازعہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف کھل کر بات کی اور کئی ریاستوں کی اسمبلیوں میں اس کے خلاف قرارداد بھی پاس کی گئی۔ بہار، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، جھارکھنڈ، کیرالہ، مغربی بنگال، پنجاب، راجستھان، چھتیس گڑھ، تیلنگانہ، دہلی اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں نے سی اے اے کے خلاف واضح موقف اختیار کیا۔ اس سے بلاشبہ لوگوں کو کافی راحت اور امید ملی۔
جبکہ مرکز ابھی بھی مردم شماری 2021  کے ساتھ این پی آر کو شامل کرنے کے اپنے فیصلے پر اٹل ہے، وہیں بیشتر ریاستی حکومتوں کے الفاظ اور کاروائیوں کے بیچ عدم مطابقت سے عوام شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ نے پہلے ہی یہ کہہ دیا ہے کہ یکم اپریل سے 30 ستمبر تک پورے ملک میں مردم شماری کے ساتھ این پی آر کی معلومات بھی جمع کی جائیں گی۔ تاہم، کیرالہ اور مغربی بنگال کو چھوڑ کر مذکورہ کسی بھی ریاست نے اب تک مردم شماری کی کاروائی سے این پی آر کے عمل کو خارج کرنے کا کوئی سرکاری فرمان جاری نہیں کیا ہے۔
پاپولر فرنٹ یہ مانتی ہے کہ سماجی و اقتصادی پالیسی سازی اور حکومت کے کام کاج کے لئے مردم شماری ضروری ہے، اور یہ 1948 کے مردم شماریئ ہند قانون کے تحت 1951ء سے جاری ہے۔ لیکن ساتھ ہی تنظیم یہ بھی کہنا چاہتی ہے کہ این پی آر، این آرسی کے پہلے قدم کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسی لیے این آر سی کی مخالفت کرنے والے ہر شخص کو این پی آر کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ اس عمل میں بہت سے نئے سوالات شامل کر دئے گئے ہیں، اس طرح یہ ”مشکوک“ اندراجات کی تصدیق اور پہچان کا ایک طریقہ ہے، جس کے بعد این پی آر سے جڑی مردم شماری کو ہی این آر سی کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ایک بار این پی آر مکمل ہو جانے کے بعد، ملک بھر میں این آر سی کے نفاذ کو کوئی بھی چیز روک نہیں پائے گی۔ لہٰذا تمام ریاستوں کو چاہئے کہ وہ مردم شماری کے ساتھ طے شدہ این پی آر کے عمل پر لوگوں کے سامنے اپنا موقف لازماً واضح کریں۔ جب تک متعلقہ ریاستی حکومتیں حکمنامے/اعلان کے ذریعہ اپنا موقف واضح نہیں کرتیں، عوام کے سامنے واحد راستہ یہی بچتا ہے کہ وہ اس کا بائیکاٹ کریں۔
یہ ایک خوش آئیند اقدام ہے کہ کیرالہ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں نے مردم شماری اور این پی آر کے درمیان فرق کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ وہ مردم شماری کی معلومات جمع کرتے وقت این پی آر سے متعلق سوالات کو اس میں شامل نہیں کریں گی۔ تاہم عوام اور مردم شماری کرنے والوں کے درمیان ابھی بھی اس عمل کی حقیقی صورت کو لے کرعدم یقینی اور اندیشے برقرار ہیں۔ اس لئے اجلاس نے ان حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ جب تک شہریوں کے اشکالات کا مکمل ازالہ نہیں ہوجاتا، کیرالہ اور مغربی بنگال سمیت تمام ریاستوں میں مردم شماری کے ہاؤس لسٹنگ عمل کو وہ مؤخر کریں۔
محمد ثاقب کو میڈیا و رابطہئ عامہ کا سکریٹری انچارج منتخب کیا گیا ہے۔ چیئرمین او ایم اے سلام نے اس تین روزہ اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں نائب چیئرمین ای ایم عبدالرحمن، جنرل سکریٹری انیس احمد، سکریٹری افسر پاشاو ناصر الدین ایلامرم اور ارکان مجلس عاملہ پروفیسر پی کویا، ایڈوکیٹ اے محمد یوسف، اے ایس اسماعیل، محمد علی جناح، عبدالواحد سیٹھ شریک رہے۔

انیس احمد
جنرل سکریٹری

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا