English   /   Kannada   /   Nawayathi

خود کشی میں مدد کرنے والے کلینک پر موت کے طلبگاروں کا رش

share with us
ہالینڈ:09جون2019(فکروخبر/ذرائع)ہالینڈ کے واحد ’سہل مرگی‘ یا تکلیف کے بغیر موت میں مدد فراہم کرنے والے کلینک کا کہنا ہے کہ انہیں بیرون ملک سے اپنی زندگی کے رضاکارانہ خاتمے کے خواہش مند افراد کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں میں یکدم اضافہ ہوا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک 17 سالہ لڑکی کی مبینہ رضاکارانہ موت کی کہانی انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی تھی جس میں یہ غلط دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس پریشان لڑکی کی موت میں مذکورہ کلینک نے مدد فراہم کی تھی۔
ہالینڈ کے شہر دے ہیگ میں واقع ’لیونس اینڈے کلینک‘ کا کہنا ہے کہ جب سے 17 سالہ نوا پوتھوین کی خود کشی کی کہانی رپورٹ ہوئی ہے تب سے انہیں بیرون ملک سے کئی کالز موصول ہوئی ہیں جن میں لوگ زندگی کے خاتمے میں مدد کی درخواست کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ پوتھوین نے بچپن میں ریپ کے بعد اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی جس کے باعث لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے اپنی زندگی خود ختم کی۔
تاہم حکومت اور ان کے خاندان نے وضاحت کی ہے کہ پوتھوین کی موت ’سہل مرگی‘ سے نہیں بلکہ کھانا کھانے اور پانی پینے سے انکار کے بعد اتوار کو واقع ہو ئی۔
’لیونس اینڈے کلینک‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر سٹیون پلیٹر نے ایک انٹرویو کے دوران خبر رساں ادارے ایے ایف پی کو بتایا کہ ان کے کلینگ کا مقصد دنیا بھر سے آسان موت کے طلب گاروں کی سیاحت کو ہالینڈ میں فروع دینا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل یہ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہی اس کلینگ کی بنیاد اس مقصد کے لیے رکھی گئی تھی۔ ایک شخص ہالینڈ صرف آسان موت کے انتخاب کے لیے نہیں آسکتا۔ ایسا نہیں  ہے کہ آپ پیر کو آ گئے اور جمعے کو رضاکارانہ موت کا انتخاب کرلیا۔‘
ہالینڈ ان چند ممالک میں سے ہے جہاں رضاکارانہ خود کشی یا موت قانونی ہے اور 12 سال سے زائد عمر کے افراد اس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ تاہم انہیں سخت شرائط کو پورا کرنا ہوتا ہے۔
پلیٹر نے کہا کہ ’لیونس اینڈے کلینک‘ پوتھوین کی موت میں ملوث نہیں ہے لیکن انہوں نے پوتھوین کے دسمبر میں کیے گئے اس دعوے کے بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا جس میں پوتھوپن نے کہا تھا کہ انہوں نے رضاکارانہ موت کے لیے ’لیونس اینڈے کلینک‘ سے گزشتہ سال دسمبر میں رابطہ کیا تھا۔ لیکن ان کی درخواست کو اس لیے مسترد کیا گیا کہ وہ بہت چھوٹی ہے۔
 ’مجھے بڑا افسوس ہے کہ  پوتھوین زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکیں اور جس مدد کی انہیں ضرورت تھی وہ انہیں نہیں مل سکی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پوتھوین نے اپنی زندگی کا خاتمہ کھانا کھانے اور پانی پینے سے انکار کرکے کیا اور ’لیونس اینڈے کلینک‘ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ’لیکن یہی وہ چیز ہے جو کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے پر ابھارتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ باوقار طریقے سے کر سکیں۔‘
2002 میں بنائے گئے قانون کے مطابق ہالینڈ کے 16 سال تک کے شہریوں کے لیے رضاکارانہ خود کشی کے لیے والدیں یا سرپرست کی رضامندی ضروری ہے جبکہ 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہری خود ہی رضاکارانہ خود کشی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
تاہم پوتھوین کے بارے میں غلط رپورٹس نے ان کی موت کے حوالے سے عالمی ردعمل کو جنم دیا۔ یہاں تک کہ پوپ فرانسس نے بھی ان کی موت اور رضاکارانہ خودکشی کے حوالے سے ٹویٹ کیا تھا جس کی وجہ سے ’لیونس اینڈے کلینک‘ دنیا کی نظروں میں آگیا۔
’لیونس اینڈے کلینک‘ کے ترجمان ایلکے سوارٹ نے اے ایف پی کو بتا یا کہ عموما ہمیں بیرون ملک سے ہر ہفتے ایک سے دو درخواستیں موصول ہوتی ہے۔ تاہم اس جمعرات کو ایک ہی دن کے اندر 25 درخواستیں موصول ہوئی۔
2012 میں قائم ہونے والا ’لیونس اینڈے کلینک‘ ہالینڈ کا واحد ادارہ ہے جو رضاکارانہ موت میں مدد فراہم کرتا ہے۔ کلینک کا کہنا ہے کہ وہ موت میں مدد اپنے کلینک کی حدود میں فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ ان کے نیٹ ورک کے 140 ڈاکٹر اور نرسیں ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
رضاکارانہ خودکشی کے فیصلے تک پہنچنے کے لیے مریض کا طویل انٹرویو، میڈیکل ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور ہالینڈ کے قوانین کی پاسداری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
پلیٹر کا کہنا ہے کہ کچھ کیسز میں دو سے تین انٹرویو کے بعد فیصلہ ہو جاتا ہے تاہم بعض کیسز میں 10 سے 15 انٹرویو کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سات سال کے دوران ’لیونس اینڈے کلینک‘ کو بغیر تکلیف یا رضاکارانہ موت کی 12 سے 13 ہزار درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جن مین سے 35 سو درخواستیں منظور ہوئی۔
انتظامیہ کے مطابق ’لیونس اینڈے کلینک‘ نے کبھی کسی بچے کی موت میں مدد فراہم نہیں کی اور ان کا نوعمر ترین مریض 18 سال کا تھا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا