English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم ذرا اپنے گریباں میں جھانکیں

share with us

اپنے عزیزوں کی، اپنے دوستوں کی طرف داری میں اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ صحیح کو غٖلط ثابت کرنے پر تُل جاتا ہے یا پھر وہ اپنے دشمنوں کی دشمنی اور عداوت میں حد سے گذر کرغلط عمل کو بھی صحیح ثابت کرنے پر اڑ جاتا ہے اور دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا غلط عمل بھی صحیح ہے ۔ یہیں سے معاشرہ میں نہ صرف بیگاڑ پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ تباہی اور بربادی کی سمت میں چل پڑتا ہے اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ وہ انصاف کو مقدم نہیں رکھتا کیونکہ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اگر وہ ،اس کے والدین ، اس کے عزیز و رشتہ دار ، دوست اور خیر خواہ غلط ہو تو انہیں غلط کہا جائے ۔دوسری جانب اگر ا س کا دشمن بھی صحیح ہو تو اسے صحیح مانا جائے ۔ان تمام کی بنیاد’ شہادت ‘ہے ۔ سورہ ،مائدہ کی ان تینوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے سچی گواہی دینے پر زور دیا ہے بلکہ اس کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جو شخص انصاف پر کھڑا ہوگا وہ اللہ کے لئے ہی کھڑا ہوگا اور جو بر انصاف ہوگا وہی انصاف کریگا۔یہاں ایک اور نقطہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے جو بہت اہم ہے کیونکہ یہ خیا ل گذر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے اپنے نفس، اپنے دوستوں کے لئے اور تعلقات کے لئے۷ رعایت بھی تو رکھی ہے ۔ اس آیت میں لفظ قسط کو مقد م لاکر اس طرف ہدایت فرمادی ہے کہ وہ رعایت اللہ کے لئے نہیں ہوسکتی جو عدل اور انصاف کے خلاف ہو اور لفظ ’’للہ ‘‘کو مقدم لاکر اسے انسانی فطرت کے جذبات میں مغلوب ہونے سے نکال کر یہ بتا دیا کہ کسی بھی حال میں سچی شہادت اور حق بات کے بیان کرنے سے پہلو تہی نہ کی جائے ۔قرآن نے اس بارے میں جو تاکید فرمائی ہے کہ ’شہادت ‘دینے میں کوتاہی اور سستی نہ برتی جائے کیونکہ آدمی سے یہ دونوں حرکات یا ان میں سے ایک صرف اسی وقت سرزدہوتی ہیں جب وہ حق کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے یا اپنے دشمن سے دشمنی نکالنے کی سعی کرتا ہے ۔اس لئے گواہ کو جو بات یقینی طور پر معلوم ہو وہ اس میں اپنی طرف سے کسی لفظ کی کمی بیشی کئے بغیر جتنا معلوم ہو صاف صاف کہہ دے اس میں اپنے خیال اور گمان کو دخل نا دے اور اس کی بھی فکر نا کرے کہ اس سے کس کو نقصان او ر کس کو فائدہ ہوگا لیکن ساتھ ہی قرآن کریم نے اس امر پربھی نظر رکھی ہے کہ لوگوں کو سچی گواہی سے رُوکنے کے سارے راستہ بند کئے جائیں اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ’’ معاملہ کی تحریر لکھنے والوں اور گواہوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ 
آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی سمجھدار اور شریف آدمی کوئی ایسا واقعہ دیکھتا ہے جہاں اس کی شہادت اہم رول ادا کرسکتی ہے تو بھی وہ وہاں سے بھاگتا ہے کیونکہ بار بار عدالتوں کی حاضری اور فضول قسم کی وکیلوں کی جرح اسے ایسی مصیبت میں مبتلا کردیتی ہے کہ نہ صرف وہ اپنے کاروبار اور پیشہ سے ہاتھ دھونے کی نوبت تک پہنچ جاتا ہے بلکہ بار بار عدالتوں کی حاضری اس کا جینا حرام کردیتی ہے اگر اس بنیادی کمی کو دور کرکے گواہوں کے ساتھ شریفانہ معاملہ کیا جائے تو پولس کو ادھر اُدھر کے گواہوں سے خانہ پوری نہ کرنا پڑے ۔
آج سمجھا یہ جاتا ہے کہ لفظ ’شہادت‘ تو صرف مقدمات میں حاکم کے سامنے گوہی دینے تک محدود ہے ۔ یہ خیالِ خام ہے ۔ ’شہادت ‘وسیع المعنی لفظ ہے اس کاا طلاق نہ صرف دوسروں شعبوں میں بھی ہوتا ہے بلکہ نجی زندگی کے ہر ہر قدم پر ہوتا ہے ۔ مثلاََ جب ایک ڈاکٹر کسی مریض کے لئے یہ سرٹیفیکٹ دیتا
ہے کہ وہ ڈیوٹی کرنے یا نوکری کرنے کے قابل نہیں ہے تو یہ ایک ’شہادت ‘ہے جو وہ دیتا ہے ۔اگر اس کا سرٹیفیکٹ خلاف واقع ہے تو یہ ایک جھوٹی شہادت ہے ۔ جو گناہ کبیرہ ہے ۔ اسی طرح کا معاملہ تعلیم میں بھی ہے ۔ تعلیمی لیاقت کو پرکھنے کے لئے امتحان لئے جاتے ہیں ۔ امتحانات میں اگر جان بوجھ کر یا لاپرواہی سے نمبروں میں کمی بیشی کی گئی تو وہ بھی جھوٹی شہادت ہے ۔ یہ حرام ہے اور سخت گناہ ہے ۔
طلبا ء کو فارغ التحصیل ہونے کے بعد جو سند یا سرٹفکیٹ دئے جاتے ہیں وہ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ طلبا ء متعلقہ کام کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر فل الواقع یہ قابلیت اور صلاحیت ان میں موجود نہیں ہے تو اس سرٹفکیٹ پر دستخط کرنے والے تمام افراد ’شہادت کاذبہ ‘کے مجرم ہوئے ۔ 
ہمارے یہاں جمہوری نظام قائم ہے ۔ جو عوام کی ، عوام کے لئے اور عوام کے ذریعہ بنائی گئی حکومت ہے ۔کیونکہ یہ ملک کے تمام عوام کی حکومت ہوتی ہے ا ور ملک کے کل باشندوں کو کسی ایک جگہ جمع کرنا ممکن نہیں ۔لہذا کل ملک کو الگ الگ خطوں (حصوں )میں تقسیم کردیا جاتا ہے اور اس خطہ کی عوام اپنا ایک نمائندہ حکومت سازی کے لئے منتخب کرتی ہے ۔جو اس پورے خطے کے عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ منتخب شدہ نمائندہ ہی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ارکان ہوتے ہیں ۔ یہ انتخاب ووٹنگ کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ یعنی عوام جس نمائندہ کو بھی ووٹ دیتی ہے وہ دراصل اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ یہ شخص صلاحیت ،قابلیت دیانتداری اور ایمان داری کے اعتبار سے قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے ۔اس لحاظ سے اگر ووٹ دینے والا ایسے شخص کو ووٹ دے رہاہے جس میں متذکرہ بالا خوبیاں موجودہیں تو اس نے صحیح شہادت دی اور اگر اس نے روپیوں کے عوض میں ، کسی دباؤ کے تحت، بیجا دوستی کے جذبے سے یا غیر یقینی وعدوں کے تحت اس آدمی کو ووٹ دیا ہے جو اس قابل نہیں تھا تو اس نے مبینہ طور پر ’جھوٹی شہادت ‘دی اور مستحقِ لعنت وعذاب ہوگیا ۔ 
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کے ووٹ کے ذریعہ ووٹ دینے والا یہ سفارش کرتا ہے کہ فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے ۔ سفارش کے سلسلہ میں قرآن کریم فرماتا ہے ’’ جو شخص اچھی اور سچی سفارش کریگاتو جس کے حق میں سفارش کی ہے اس کے نیک عمل کاحصہ اس کو بھی ملئیگا اور جو شخص نا اہل اور برے شخص کی سفارش کریگا اس کواس کے بُرے اعمال کا حصہ ملیگا‘‘ ۔
اب اس کا جائزہ ہم خود لے سکتے ہیں کہ ہم نے جن کو منتخب کر کے بھیجا ہے ان کی پانچ سالہ کار کردگی کے ذریعہ ہمیں کیا ملئیگا ۔عذاب یا ثواب ۔ووٹ کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو صرف اپنی نمائندگی کے لئے ہی وکیل نہیں بناتاہے بلکہ اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہوتی ہے ۔ اسلئے اگر نااہل کو ووٹ دیا تو پھر پوری قوم کے حقوق کی پامالی کا گناہ بھی اس کے سر ہوگیا ۔گویا ایسے تمام عوامی ادارے جن کا تعلق پوری قوم سے ہو وہاں کلیدی عہدوں پر نااہل ، ناکارہ اور غیر صلاحیت مند اشخاص کو پہنچا دینا قوم اور ملک کے سینے میں خنجر اتارنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ کارِ ناحق سوائے بربادی کے کوئی دوسری شکل اختیار نہیں کرسکتا ۔ 
نبی کریم ﷺنے بھی فرمایا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور عام باتوں میں جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہیں ۔ علاوہ ازیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے اور تین مرتبہ فرمایا ۔مختصراََ یہ کہا جاسکتاہے کہ ہمیں ہماری شہادتوں کے بارے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔کیونکہ ہماری ذرا سی بھی لغزش ہمیں ثواب کی نعمت سے عذاب کی لعنت میں پہنچا سکتی ہے ۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا